نوجوان خواتین میں مانع حمل کے سب سے مقبول طریقوں میں سے بہترین انتخاب کیسے ممکن؟


مانع حمل، خواتین، طریقے
گولیاں، کنڈوم، انٹرا یوٹرین ڈیوائسز، امپلانٹس، چھلاّ، پیچ، یا انجیکشن جیسے مانع حمل طریقوں کا استعمال وسیع ہو رہا ہے۔ لیکن آج کی نوجوان خواتین کن کو ترجیح دیتی ہیں؟ کیا یہ پچھلی نسلوں کے مقابلے میں بہت بدل گیا ہے؟

کسی بھی فرد کی سوچ سے کہیں زیادہ، نوجوان خواتین جب بھی مانع حمل طریقہ استعمال کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں تو کنڈوم یا گولی کا انتخاب کرتی رہتی ہیں۔ تاہم، زیادہ سے زیادہ لوگ طویل عرصے تک کام کرنے والے مانع حمل کے فوائد کو سمجھ رہے ہیں جیسے کہ انٹرا یوٹرین ڈیوائس (IUD) یا بازو میں ہارمونل امپلانٹس۔

تولیدی عمر والی خواتین کی طرف سے استعمال کیے جانے والے مانع حمل طریقے ازدواجی حیثیت، عمر اور علاقے کے لحاظ سے کافی حد تک مختلف ہوتے ہیں، جیسا کہ گذشتہ سال دی لانسیٹ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کنڈوم، گولیاں، امپلانٹس، نس بندی کے استعمال جیسے جدید طریقوں کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔

خاص طور پر، کنڈوم اور گولی 15-19 سال کی عمر کے نوجوانوں میں مانع حمل کے سب سے عام طریقے تھے۔

اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کے مطابق، بہت سے خطوں میں مسئلہ جنسی تعلیم کی کمی ہے جس کی وجہ سے لاطینی امریکہ میں 20 سال سے کم عمر خواتین میں حمل کی شرح سب صحارا افریقہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔

امکانات کی وسیع رینج

پیرو میں منڈو سالود میڈیکل سینٹر کی میڈیکل ڈائریکٹر، گائناکالوجسٹ کورینا ہیڈلگو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ مانع حمل طریقے کیسے استعمال ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’فی الحال ہمارے پاس پہلے استعمال ہونے والے طریقوں کے مقابلے بہت زیادہ متبادل ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم صرف گولیوں، امپولس اور کاپر ٹی کے بارے میں جانتے تھے۔‘

’اب ہمارے پاس امپلانٹس ہیں جو بازو کے اندر جاتے ہیں، جو خواتین ہارمونز کا استعمال نہیں کرنا چاہتیں، ان کے لیے مختلف غیر ہارمونل ٹی ہیں۔ ہمارے پاس کاپر ٹیز ہیں، سلوور ٹی ہیں اس کے علاوہ بیلون ہیں۔ یہ سب 99 فیصد سے زیادہ موثر ہیں۔‘

تاہم وسیع اقسام کے باوجود کنڈوم اور ہارمونل گولیاں نوجوان خواتین میں مقبول ترین طریقے ہیں، مختلف ملکوں کے لحاظ سے اس میں کچھ معمولی فرق ہو سکتا ہے۔

پیرو میں، مثال کے طور پر، ہارمونل امپولس بھی کثرت سے استعمال ہوتے ہیں۔

بی بی سی منڈو کو ماہر امراض نسواں گیبریل زیمبرانو نے بتایا کہ وینزویلا میں سب سے زیادہ مقبول کنڈوم اور صبح لی جانی والی گولیاں ہیں، جن کو ہنگامی مانع حمل طریقہ سمجھا جاتا ہے۔

مانع حمل، خواتین

شارٹ ایکٹنگ ہارمونل طریقے

دو گولیوں کی خوراک میں دو ہارمون ہوتے ہیں (ایسٹروجن اور پروجسٹوجن - جسے پروجسٹوجن بھی کہتے ہیں) جو بیضہ دانی سے انڈوں کے اخراج کو روکتے ہیں۔ یہ وہ گولی ہے جو عام طور پر’ دی پِل‘ کے نام سے مشہور ہے۔

پروجسٹوجن گولیاں کم مقبول سروکس کی نالی کے میوکوسا کو گاڑھا کرتی ہیں، جو سپرم کو بیضے سے ملنے سے روکتی ہے۔ دونوں روزانہ استعمال کے لیے ہیں۔

ان گولیوں کا فارمولہ انجیکشن میں بھی دستیاب ہے۔ ہر ماہ لی جانے والے اس دوا میں ایسٹروجن اور پروجسٹوجن ہوتا ہے اور سہ ماہی جس میں صرف پروجسٹن ہوتا ہے۔ گولی کے ساتھ، کچھ خواتین پیچ کا انتخاب کرتی ہیں، جو ہفتہ وار لگائی جاتی ہے، یا اندام نہانی کا چھلّا، مہینے میں ایک بار، دونوں میں پروجسٹن اور ایسٹروجن کا مجموعہ ہوتا ہے۔

پیرو میں نوجوان خواتین کے ڈاکٹر ہیڈلگو کا کہنا ہے کہ مانع حمل طریقے جن کو ایک نوجوان عورت سب سے زیادہ قبول کرتی ہے وہ دراصل گولیاں ہیں۔

’پیچ یا انگوٹھی ان مریضوں کے لیے ایک اچھا متبادل ہے جو گولی لینا بھول جاتے ہیں اور جو طویل مدتی مانع حمل نہیں چاہتے کیونکہ وہ ماہواری ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

مانع حمل، خواتین

طویل وقت تک کام کرنے والے ریورس ایبل ہارمونل طریقے

اس میں آئی یو ڈی یا ہارمونل ٹی شامل ہے، جو ٹی کی شکل کا پلاسٹک کا ڈھانچہ ہے جسے بچہ دانی میں داخل کیا جاتا ہے، جہاں یہ حمل کو روکنے کے لیے ہر روز پروجسٹوجن ہارمون جاری کرتا ہے، جس کی مدت تین سے آٹھ سال کے درمیان ہوتی ہے۔

ازابیل لاہوز زاراگوزا (سپین) کے کلینکل ہسپتال میں گائناکالوجسٹ ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہارمونل آئی یو ڈی میں ہمیں فوائد کا ایک سلسلہ ملتا ہے، جیسے کہ ماہواری میں خون بہنے میں کمی۔ اس کے علاوہ درد کم ہوتا ہے۔‘

آئی یو ڈیز اور ٹیز کے علاوہ ایک ہارمونل امپلانٹ بھی ہوتا ہے، جو ایک یا دو ماچس کی تیلی کے سائز کی لچکدار پلاسٹک کی سلاخوں پر مشتمل ہوتا ہے جو عورت کے اوپری بازو میں جِلد کے نیچے رکھی جاتی ہے اور تین ہفتے سے پانچ سال تک رہتی ہے۔ امپلانٹس آئی یو ڈیز کی طرح پروجسٹن کی کم اور باقاعدہ خوراک جاری کرتے ہیں۔

آئی یو ڈیز اور امپلانٹ دونوں ہی وہ ہیں جنھیں LARC طریقوں (لانگ ایکٹنگ ریورس ایبل کانٹرسیپٹیو) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لاہوز کا کہنا ہے کہ ’طویل مدت کا مطلب یہ ہے کہ اس طریقے کے ساتھ تسلسل زیادہ ہے اور اثر بہتر ہے۔‘

ڈاکٹر زیمبرانو اسے اسی طرح دیکھتے ہیں۔ ’ایمپلانٹس کا فائدہ یہ ہے کہ یہ ان خواتین کے لیے اچھا ہے جو مانع حمل ادویات نہیں لینا چاہتی ہیں یا جن کی یادداشت کمزور ہے، وہ روزانہ دوا لینا یاد نہیں رکھ پاتیں۔‘

وینزویلا کے گائناکالوجسٹ بتاتے ہیں، طویل المدتی طریقے عام طور پر بڑی عمر کی خواتین منتخب کرتی ہیں۔

غیر ہارمونل طریقے

آخر میں، غیر ہارمونل طریقے ہیں جہاں کنڈوم (خواتین اور مرد)، تانبے کے آئی یو ڈی ، سلوور آئی یو ڈیز، جو تانبے سے چھوٹا ہوتا ہے، اور انٹرا یوٹرین غبارہ جو خاص کر نوجوان خواتین کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ کچھ کی مدت 10 سال تک ہوتی ہے۔

چونکہ ان میں ہارمون نہیں ہوتے ان کے کم مضر اثرات ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ ’صرف ایک چیز جو آپ کے ساتھ ہو سکتی ہے کہ خون کا بہاؤ بدل جائے۔ اسے اس کے نکل جانے کا خطرہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ باہری چیز ہے جو جسم میں داخل ہوتی ہے اس لیے بچہ دانی اسے نکالنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن ایسا ایک فیصد سے بھی کم کیسز میں ہوتا ہے۔‘

لاہوز کہتے ہیں ’ہم ہمیشہ LARC طریقوں کا دفاع کرتے ہیں۔ غیر ہارمونل طریقوں میں یقیناً تانبے کا آئی یو ڈی دیگر طریقوں کے مقابلے زیادہ پُر اثر ہے اور جہاں مناسب ہو حفاظتی طریقہ (خواتین یا مرد کنڈوم) استعمال کریں۔

’اس سے نہ صرف حمل سے بچنے کا امکان ہو گا بلکہ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں سے بھی تحفظ ملے گا۔‘

مانع حمل، خواتین

اتنی وسیع اقسام میں سے کس کا انتخاب کریں ؟

یہ وہ بڑا سوال ہے جس کا کوئی ایک جواب نہیں ہے۔ ماہرین طویل المدتی کو سب سے موزوں قرار دیتے ہیں، خاص طور پر نوجوان آبادی میں یا وہ لوگ جو مختصر مدت میں حمل نہیں چاہتے۔ لیکن وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اہم چیز ہر کیس کے حساب سے تجزیہ کرنا ہے۔

لاہور کہتے ہیں ’انٹرماسکولر انجیکشن کی سفارش نہیں کی جاتی ہے، مثال کے طور پر، بہت کم عمر لوگوں میں۔ اس کے علاوہ، یہ انجیکشنز زرخیزی میں تاخیر کا باعث بھی بنتے ہیں۔ ایسا کچھ جو دیگر مانع حمل طریقوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ کیونکہ ان سب میں زرخیزی تبھی لوٹ آتی ہے جب آپ مانع حمل طریقے استعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ انجیکشن وہ طریقہ نہیں جسے ہم پہلے آپشن کے طور پر تجویز کرتے ہیں۔‘

کمبائنڈ پِل جو سب سے زیادہ استعمال کی جاتی ہے اور امپلانٹس کے درمیان ضمنی اثرات کے لحاظ سے کوئی بڑا فرق نہیں ہے، حالانکہ ان دو طریقوں کا موازنہ کرنا مشکل ہے کیونکہ امپلانٹس میں صرف پروجسٹوجن ہوتے ہیں، اس لیے وہ گولی پروجسٹوجنز جیسی ہوتی ہیں جو کم مقبول ہے۔ اس صورت میں، دونوں طریقوں میں ضمنی اثر کے طور پر ماہواری میں بے ترتیبی ہو سکتی ہے کیونکہ ان میں ایسٹروجن نہیں ہوتا۔

گائناکالوجسٹ ہائیڈالگو کا کہنا ہے کہ ’ایسا نہیں ہے کہ ایمپلانٹس کے گولی سے زیادہ یا کم ضمنی اثرات ہوتے ہیں، بلکہ آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ اس قسم کے امپلانٹ کے لیے مریض کا انتخاب کیسے کیا جائے۔‘

یہ وہ جگہ ہے جہاں انفرادیت کام کرتی ہے۔ ایک صارف کے لیے ایسٹروجن اور پروجسٹن والی گولی بہتر ہو سکتی ہے اور دوسرے کے لیے صرف پروجسٹن والی گولی۔ مثال کے طور پر، پولی سسٹک اووری والی عورت کے لیے، ایسٹروجن فائدہ مند ہو سکتا ہے، جبکہ دوسری جو تمباکو نوشی کرتی ہے اور 35 سال سے زیادہ عمر کی ہے، اس کے لیے یہ استعمال نہیں ہوسکتا۔

ہائیڈالگو کا کہنا ہے کہ ’کھیل کود کرنے والے مریض کے مقابلے میں موٹاپے کے مریض کو مانع حمل دوا دینا ایک جیسا نہیں ہے۔‘

ہسپانوی مانع حمل سوسائٹی کے ترجمان کا اصرار ہے کہ ’مانع حمل میں، انفرادیت بہت اہم ہے، یعنی کوئی گولی نہیں ہے، کوئی طریقہ نہیں ہے، کوئی آئی یو ڈی نہیں ہے جو تمام خواتین کے لیے اچھا کام کرے۔‘

مانع حمل، خواتین

ہارمون سے جڑے افسانے

نوجوان خواتین سکون اور تحفظ کی تلاش میں رہتی ہیں، لیکن گائناکالوجسٹ تسلیم کرتے ہیں کہ خواتین اپنے جسم پر ہارمونز کے اثرات کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں اور ان کے ذہن میں یہ سوالات ہوتے ہیں کہ اگر وہ طویل عرصے تک کام کرنے والا طریقہ استعمال کریں تو ان کا وزن بڑھے گا اور آیا بعد میں بچے پیدا کرنے کے قابل ہو سکیں گی۔

لاہوز تسلیم کرتے ہیں ’شاید ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان تک کیسے پہنچیں اور ان تمام شکوک و شبہات کی وضاحت کریں یا ان پرانے افسانوں کے خلاف لڑیں جس پر عام لوگ یقین کرتہے ہیں یہاں تک کہ کچھ پیشہ ور افراد بھی جو اچھی طرح سے تربیت یافتہ نہیں ہیں۔‘

لاطینی امریکہ میں کچھ علاقوں میں قابل اعتماد معلومات تک رسائی کی کمی کا مطلب ہے کہ بہت سی خواتین نہیں جانتیں کہ کیا انتخاب کرنا ہے اور آخر کار وہ طریقہ منتخب کرتی ہیں جو ان کی سہیلی نے استعمال کیا۔

ہائیڈالگو کا کہنا ہے کہ ’یہ بنیادی مسئلہ ہے جو ہمیں مانع حمل ادویات لینے سے درپیش ہے۔

ان غلط فہمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے معلومات تک رسائی ضروری ہے جو خواتین میں ہارمونز کے اعلیٰ ضمنی اثرات کے بارے میں اب بھی گردش کرتی ہیں، ان کا ذہن اب بھی ماضی کے طریقوں پر قائم رہتا ہے جب مانع حمل ادویات کی مقدار نسبتاً زیادہ ہوتی تھی۔

لاہوز مزید کہتے ہیں کہ ’پہلی بات یہ کہ جو ہارمونز ہم اب استعمال کرتے ہیں وہ وہ ہارمون نہیں ہیں جو پہلے استعمال کیے جاتے تھے۔ اور دوسری بات کہ ہارمون تعریف کے لحاظ سے بُرا نہیں ہے، خواتین میں ہارمونز ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر، ہمارے بہت سے مسائل مینا پاز کے بعد ظاہر ہوتے ہیں، جو کہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم میں ہارمونز کم ہو جاتے ہیں۔ لیکن ان کے ہمارے جسم میں بہت سے فائدے بھی ہیں۔‘

مانع حمل، خواتین

مانع حمل ادویات کے استعمال کو بڑھانے کے لیے زبردست لڑائی

ڈاکٹر ہیڈالگو کہتے ہیں کہ ’مانع حمل کے طریقے جتنا آگے بڑھتے رہتے ہیں، بڑی لڑائی باقی رہتی ہے کہ وہ مانع حمل ادویات کا استعمال قبول کرتی ہیں۔ یہ ایک مسلسل جدوجہد ہے۔‘

بنیادی مسئلہ جنسی تعلیم کی کمی اور خاندانی رکاوٹ ہے، جو بہت سے نوجوانوں کو خوف اور لاعلمی کی وجہ سے مانع حمل ادویات کا استعمال نہیں کرتے یا ڈر ہوتا ہے کہ اگر انھوں نہ یہ استعمال کیں تو ان کے والدین کو معلوم ہو جائے گا۔

اس میں اقتصادی عنصر شامل ہے، کیونکہ اگرچہ کچھ ممالک میں ایسے پروگرام ہیں جو مفت مانع حمل ادویات پیش کرتے ہیں لیکن وہ تمام خواتین تک نہیں پہنچ پاتے۔

ہیڈلگو کہتے ہیں’اگر نوجوانوں کو خاندانی تعاون حاصل ہوتا تو وہ مانع حمل طریقہ تلاش کریں گے۔ شہری علاقوں میں جہاں ہمارا تعلیمی کلچر زیادہ ہے، ہماری پہلی رکاوٹ خاندانی ساخت ہے۔‘

پیرو کے گائناکالوجسٹ کہتے ہیں ’جنسی تعلیم کا فقدان نوعمری میں حمل کی ایک اہم وجہ ہے، یہ ایک ایسا رجحان ہے جس کے واقعات شہر سے دور دراز علاقوں میں اور ایسے گھروں میں زیادہ ہوتے ہیں جہاں غربت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’جو چیز غلط ہے وہ یہ سمجھنا ہے کہ سیکس بُرا ہے۔ سیکس بہت اچھا ہے۔ یہ لوگوں پر ہے کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ انھیں پہلی بار جنسی تعلق کب قائم کرنا ہے اور اگر کسی بچے نے پہلے سے ہی جنسی تعلقات قائم کر لیا ہے تو آپ اسے ایسا کرتے رہنے سے روک نہیں سکتے۔

’اس میں ضروری ہے کہ آپ اسے سیکس ایجوکیشن دیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments