دلی کے امیر زادے اور فقیروں کی کمائی


دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو جرمن افواج یکے بعد دیگرے مغربی یورپ کے ممالک فتح کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھیں۔ یہ واضح تھا کہ نازی عفریت سے آزادی کے لیے اٹلی اور فرانس کے راستے یورپ پر حملہ آور ہونا پڑے گا۔ میدان جنگ میں جان کی بازی لگانے والے فوجیوں اور عوام کو شاید خبر نہیں تھی لیکن ہارورڈ یونیورسٹی میں کچھ اساتذہ کو یہ فکر بھی لاحق تھی کہ اٹلی اور فرانس میں فنون عالیہ، نوادرات اور تاریخی آثار کا وہ خزانہ پایا جاتا ہے جو یورپ کی ہزار سالہ تاریخ کا حقیقی اثاثہ ہے۔ آسمان سے برسنے والی آگ، توپوں کی گولہ باری اور ٹینکوں کی گڑگڑاہٹ میں کسے معلوم ہو گا کہ کس دھاوے میں انسانی تہذیب کا کوئی خزانہ ملیامیٹ ہو گیا، کس بندوق کی گولی مصوری کا کوئی لاثانی شاہکار چاٹ گئی، سڑک کے کنارے کرچیوں کی صورت بکھرے کسی مجسمے کی حقیقی قدروقیمت کیا تھی، زندگی اور موت کے کھیل میں شامل سپاہیوں سے اس حساسیت کی توقع نہیں کی جاتی۔ تاہم امریکی صدر روزویلٹ خود بھی فنون عالیہ کا گہرا ذوق رکھتے تھے۔ فنون عالیہ کے ماہرین اور تاریخ کے اساتذہ کے ایک وفد نے روز ویلٹ سے ملاقات کر کے انہیں صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ روز ویلٹ نے 23 جون 1943 ءکو MFAA کمیشن قائم کیا۔ The Monuments, Fine Arts and Archives Commission کو عام طور پر اس کے سربراہ سپریم کورٹ کے جج اوون رابرٹس کی مناسبت سے رابرٹس کمیشن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کمیشن کے تحت 345 افراد کا ایک گروپ عسکری کمانڈرز کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ ان افراد کا کام افسروں اور سپاہیوں کو آرٹ کے نمونوں اور تاریخی آثار سے آگاہ کرنا ہی نہیں تھا بلکہ کہیں زیادہ مشکل کام یہ تھا کہ نازیوں نے آرٹ کے جو نمونے لوٹ لیے ہیں، انہیں برآمد بھی کیا جائے۔ ہٹلر اور گوئرنگ وغیرہ نے انمول آرٹ کے نمونوں پر ذاتی قبضہ جما لیا تھا۔ MFAA بڑی حد تک اپنے مشن میں کامیاب رہی۔ نامور ہدایت کار جارج کلونی نے The Monuments Men کے نام سے 2014 ءمیں ایک شاندار فلم بنائی تھی۔ جنگ اور تہذیب کی کشمکش کا احاطہ کرنے والی یہ فلم تو آپ خود بھی دیکھ لیں گے مجھے فلم کے مرکزی کردار Frank Stokes کا ایک مکالمہ دہرانے دیجئے۔ ’آپ ایک پوری نسل کو نیست و نابود کر سکتے ہیں، ان کے گھروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا سکتے ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی طرح دوبارہ جینے کا سامان کر لیں گے۔ ہاں اگر آپ نے ان کی تاریخ تباہ کر دی، ان کے پرکھوں کے آثار برباد کر دیے تو وہ تاریخ انسانی سے یوں غائب ہو جائیں گے گویا کبھی تھے ہی نہیں‘۔ یہاں مجھے دسمبر 1982 ءکی ایک شام یاد آ رہی ہے۔ روشن آرا بیگم کی وفات پر تعزیتی تقریب میں ایک مقرر نے ایک پامال جملہ دہرایا کہ اب ہم روشن آرا بیگم کہاں سے لائیں گے؟ فیض صاحب نے یہ سن کر آہستگی سے کہا۔ ”سوال تو یہ ہے کہ ہمیں روشن آرا بیگم کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ وہ راگ ودیا کی مانگ سنوارنے کے لیے پیدا ہوئی تھی ہم نے اسے لالہ موسیٰ میں بھینسیں نہلانے پر مامور کر دیا“۔


شاید آپ کو خیال آئے کہ قوم کی معاشی بدحالی اور سیاسی افراتفری کے دنوں میں یہ خبطی بوڑھا تصویروں، مجسموں، موسیقی اور تاریخی عمارتوں کی دنیا میں گم ہے۔ میں یہ معاملات زیادہ تو نہیں سمجھتا، یہ ضرور جانتا ہوں کہ کسی قوم کی اجتماعی توانائی روزمرہ کے معمولات اور تہذیبی نزاکتوں میں توازن سے جنم لیتی ہے۔ کچھ روز پہلے میں نے ابصار عالم کا دل دہلا دینے والا ایک کالم پڑھا ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پراجیکٹ عمران کے نقطہ عروج پر ریاست کے ذمہ دار ترین عہدوں پر فائز کچھ افراد نے جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں سے ملی بھگت کر کے شہریوں سے پیسے اور جائیدادیں ہتھیانے کا باقاعدہ نظام قائم کر رکھا تھا۔ مذکورہ گروہ اپنے منصبی اختیارات کی مدد سے کالے دھندوں میں ملوث افراد پر آنکھ رکھتا تھا اور پھر انہیں ریاستی اختیارات کی آڑ میں اغوا کر کے ان سے مال بٹورا جاتا تھا۔ اس مقصد کے لیے سرکاری اہلکاروں، گاڑیوں اور ریاستی عمارتوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا تھا۔ ابصار عالم کی یہ خوفناک تحریر ہمارے ریاستی ڈھانچے کی مکمل ٹوٹ پھوٹ کی خبر دیتی ہے۔ شہریوں نے دستور نامی عمرانی معاہدے کے تحت ریاست کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے طاقت کے استعمال پر رضاکارانہ اجارہ سونپ رکھا ہے۔ اگر ریاست اس معاہدے کی آڑ میں شہریوں کو براہ راست مجرمانہ لوٹ مار اور تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دے تو ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔ مجھے خوش فہمی تھی کہ ایسے تہلکہ انگیز انکشافات کے نتیجے میں ملک بھر میں طوفان کھڑا ہو جائے گا۔ ایک اداکارہ کے بیگ سے ممنوعہ مشروب برآمد ہونے پر ازخود اقدام کی روایت ہماری عدلیہ میں موجود رہی ہے۔ ایک شکستہ حال پارلیمنٹ بھی موجود ہے۔ نامزد افراد کے متعلقہ ادارے خود بھی داخلی احتساب کا مکمل نظام رکھتے ہیں۔ پیمرا کے سابق سربراہ ابصار عالم ذمہ دار صحافی ہیں۔ ان سے رابطہ کر کے اس معاملے کی تفصیل دریافت کی جائے گی۔ واقعات کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ ہو گا۔ اگر دوسری عالمی جنگ کے بھڑکتے الاﺅ میں فنون عالیہ کے تحفظ کے لیے امریکا کا صدر تشویش میں مبتلا ہو سکتا ہے تو پاکستان کے شہری زمانہ امن میں کم از کم جان و مال کے تحفظ اور بنیادی انسانی احترام کا حق تو رکھتے ہیں۔ دو صدیاں گزریں میر تقی میر نے دہلی کے امیر زادوں کی دولت اور اپنی غربت میں تعلق بیان کیا تھا۔ پچھلی صدی میں لاہور کے درویش شاعر ساغر صدیقی نے فقیروں کی کمائی لٹنے کو اپنے عہد کے سلطان کی خطا قرار دیا تھا۔ ہم میر ہیں اور نہ ساغر۔ ہمیں اپنی بپتا بیان کرنے کے لیے اخبار کا ورق سیاہ کرنا پڑتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments