حمل کے 22 ویں ہفتے میں پیدائش: ’اپنے چھوٹے سے بچے کو انتہائی نازک حالت میں دیکھنا عجیب تجربہ تھا‘


ایموجن جب پیدا ہوئیں تو ان کا وزن محض آدھا کلو تھا۔ ان کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ قبل از وقت یعنی حمل کے صرف 22 ہفتوں بعد پیدا ہوئی تھیں لیکن ان کی بیٹی نے تمام مشکلات کو شکست دے دی۔

ایموجن جب پیدا ہوئیں تو ان کے زندہ رہنے کی 10 فیصد سے بھی کم امید تھی۔

ایموجن جب چھ ستمبر کو ویلز کے شہر سوانسی کے سنگلٹن ہسپتال میں پیدا ہوئیں تو ان کا وزن 515 گرام (یا ایک پاؤنڈ اور ایک اونس) تھا۔

اب 132 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد چھ ماہ کی ایموجن اپنے گھر آ گئی ہیں۔

ان کی 28 سالہ والدہ ریچل سٹون ہاؤس نے کہا کہ ’ایموجین اتنی ساری چیزوں سے گزری ہیں، جتنا ہم اپنی زندگی میں کبھی نہیں گزریں گے اور اس نے ان سب کو شکست دی۔‘

ریچل حمل کے ابتدائی ہفتوں میں مقامی ہسپتال گئیں۔ ان کی بچہ دانی سے خون بہنے لگا تھا اور پھر انھیں ان کے پارٹنر کوری کے ساتھ ایمبولینس کے ذریعے سنگلٹن ہسپتال لے جایا گیا۔

ریچل نے کہا کہ ’یہ بہت خوفناک تھا۔ درد بہت تکلیف دہ تھا۔ میں درد کے دوران صرف سانس لینے کی کوشش کرتی رہی۔‘

ہسپتال پہنچنے کے چند منٹ بعد ہی ایموجن پیدا ہو گئیں اور انھیں فوری طور پر ایک بیگ میں رکھ کر انکیوبیٹر میں رکھا گیا۔

ریچل نے کہا کہ اپنے نئے، چھوٹے بچے کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں دیکھنا اور انتہائی نازک حالت میں دیکھنا ’عجیب سا تجربہ‘ تھا۔

انھوں نے کہا کہ اسے دیکھ کر انھوں نے سوچا کہ ’اسے تو میرے پیٹ میں ہونا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

نو ماہ تک پیٹ میں بچہ اور پتہ تک نہیں!

پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں نومولود بچوں کی مالش

ریچل اور کوری کو بتایا گیا کہ ان کی بچی کے دماغ میں تیسرے گریڈ کا خون بہہ رہا ہے۔

انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں گزارے 98 دنوں کے دوران ایموجن کو بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جن میں پلمونری ہیمرج اور متعدد بار خون کی منتقلی شامل ہیں۔

ہسپتال نے اس جوڑے کو 13 ہفتے تک بچی کے قریب رکھا تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایموجن کے ساتھ وچت گزاریں۔

15 جنوری کو ایموجن کو پرنسس آف ویلز ہسپتال میں بچوں کے خصوصی نگہداشت یونٹ منتقل کیا گیا جہاں انھیں مزید 34 دن رکھا گيا۔

’یہ میری زندگی کا سب سے خوفناک وقت تھا لیکن (ہسپتال کا) عملہ میرے اور میرے اہلخانہ کے ساتھ انتہائی اچھا رہا۔‘

ایموجن اب گھر آ گئی ہیں لیکن اب بھی انھیں آکسیجن کی ضرورت ہے۔ ریچل کے مطابق ڈاکٹر بچی کے اعضا سے مطمئن ہیں اور اسے بینائی یا سماعت کا کوئی مسئلہ نہیں۔

ریچل کہتی ہیں کہ ان کے قبل از وقت لیبر میں جانے کی وجہ واضح نہیں تھی لیکن انھیں بتایا گیا کہ ان کے ساتھ ایسا دوبارہ ہونے کا 40 فیصد امکان ہے۔

فی الحال وہ نئی ماں بننے کے ہر لمحے سے لطف اندوز ہو رہی ہیں اور انھوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ نیشل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کی شکر گزار رہیں گی۔

انھوں نے کہا کہ ’جب وہ کہتے ہیں کہ یہ نرسیں اور ڈاکٹر سپر ہیروز ہیں تو وہ جھوٹ نہیں بول رہے ہوتے۔ ہم ان کے بغیر اپنے پاس موجود ہر چیز کو حاصل نہیں کر پاتے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments