جاپان کی مختصر تاریخ


جاپان دنیا کا واحد بڑا ملک ہے جو 1945 تک بیرونی حملہ آوروں کے قبضے سے محفوظ رہا۔ جغرافیائی لحاظ سے ایشیا کے مشرقی سرے پر مرکزی زمین سے (کوریا کی جانب سے) 150 کلو میٹر دور شمال مغربی بحرالکاہل میں واقع 6500 ہزار سے زیادہ جزائر پر مشتمل ہے جن میں بڑے صرف چار جزیرے (ہو نشو، ہوکائیدو، شیکوکو اور کیوشو) ہیں۔ ان چار میں مرکزی ”ہونشو“ کا جزیرہ ہے جن میں آج کے اہم جاپانی شہر بشمول بادشاہت کا ابتدائی تاریخی پایہ تخت ”کیوٹو“ کے علاوہ جدید دارالحکومت ”ٹوکیو“ واقع ہیں اسی جزیرے میں جاپان کا مشہور مقدس پہاڑ ”فیوجی یامہ“ بھی ہے۔ جاپان کے لگ بھگ 600 جزیرے غیر آباد ہیں۔ زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے جس کی وجہ زیادہ تر جاپانی آبادی ٹوکیو اور اوساکآ کے درمیان تنگ ساحلی میدانوں میں پائی جاتی ہے۔ صرف 1 / 7 (18 فیصد) رقبہ قابل کاشت ہے۔ معدنی وسائل کا فقدان ہے۔ متواتر زلزلوں اور سمندری طوفانوں کی زد میں چلا آ رہا ہے۔ تاہم وسائل کے فقدان اور قدرتی آفات کے باوجود جاپانی اپنے فطری جمالیاتی ذوق کے باعث فنون لطیفہ کے دلدادہ رہے ہیں۔

جاپانیوں کی اصل۔ جاپان کی ابتدائی تاریخ کے بارے قطعی معلومات کا فقدان ہے کیونکہ اس کے یہاں تحریری ریکارڈ صرف 8 ویں صدی عیسوی کے بعد سے شروع ہوتا ہے جب جاپانیوں نے کوریا کے واسطے سے چینی طرز تحریر اختیار کیا۔ اس لیے موجودہ جاپانیوں کا ان جزائر پر آمد اور علیحدہ کلچر تشکیل دینے کی تاریخوں کو پورے وثوق سے متعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔

جاپان سے متعلق پہلا تاریخی تذکرہ 200 عیسوی میں چینی سیاح کے سفر نامہ ”ہن کی کتاب“ میں ملتا ہے

اگرچہ جاپانیوں کے ہاں اپنے آغاز کے بارے یہ روایت ہے کہ اس کا پہلا شہنشاہ ”جیمو تینو“ سورج دیوتا کی اولاد ہے جو 660 ق م میں تخت نشین ہوا تھا۔ مگر یہ محض دیومالائی روایت ہے۔

آثار قدیمہ کے مطابق جاپان کے جزائر میں انسانی آبادی کے آثار 30000 ق م سے پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جاپان حجری دور سے ہو گزرا ہے جو 1000 ق م تک قائم رہا۔ ماہرین کے مطابق زیادہ تر موجودہ جاپانی جنوبی چین، ہند چینی، کوریا اور منچوریا باشندوں کے ہم نسل ہیں جبکہ بعض غالباً جنوبی جزیروں، برونائی، جاوا اور فلپائن کی طرف سے آئے۔

ان تارکین وطن نے یہاں پہلے سے موجودہ ابتدائی باشندوں کو بتدریج ختم، بے دخل یا اپنے اندر سمو لیا۔ جاپان کے سب سے قدیم ابتدائی باشندے ”اینو“ تھے۔ ان کے زیر استعمال رہنے والے دریافت شدہ اوزار 6 ہزار پرانے بتائے جاتے ہیں۔

(الگ جسمانی ساخت اور زبان رکھنے والے ان باشندوں کی تعداد اب قریبا 20 ہزار رہ گئی ہے۔ جن میں زیادہ تر انتہائی شمال میں ”ہوکائیدو کے جزیرے میں رہتے ہیں)

قبل از تاریخ اور جاپان میں تحریر کے آغاز ہونے تک کے عرصے کو ماہرین نے ذیل کے ادوار میں تقسیم کیا ہے۔

1۔ جو فون دور۔ 13000 سے 1000 ق م تک دور کو یہاں ملنے والے مخصوص ڈیزائن (کورڈ) والے ظروف کی نسبت سے ”جو فون“ دور کا نام دیا گیا۔ یہ شکار اور حجری دور تھا۔

2۔ یابو دور اس کے بعد دور کو ماہرین ”یا یو“ کے نام سے یاد کرتے ہیں جب 1000 اور 800 ق م کے دوران ”یایو“ باشندے براعظم ایشیا سے جاپان نقل مکانی کر گئے۔ (بیشتر موجودہ جاپانی مخلوط نسل ہیں جو دو بڑے نسلی گروہوں جو فون دور کے باشندوں اور یایو قبائل کی اولاد ہیں جو مختلف ادوار میں مختلف راستوں سے آئے)

انہوں نے یہاں لوہا کے آوزار، زراعت، ریشم، گلاس سازی، اور نئے طرز تعمیر متعارف کرائے۔ اور شکاری کلچر کے ”جوفون“ باشندوں سے تعداد میں بڑھ گئے۔ ”یایوئی“ قبائل بتدریج حکمرانیاں متشکل کرنے لگے۔

پہلی صدی عیسوی کے چینی مورخ کے سفر نامہ ”ہن کی کتاب (جو جاپان کے بارے پہلا تاریخی حوالہ ہے) کے مطابق، اس وقت“ وا ” (جاپان کا پرانا نام) بے شمار مقامی حکمرانیوں میں تقسیم تھا۔ بعد کے ایک چینی کتاب کے مطابق 240 ع میں“ یاماتی ”نامی برادری کی راجدھانی نے بالادستی حاصل کر لی۔

3۔ کو فون دور (250 تا 538) ۔

کو فون سے مراد وہ بڑے مقبرے ہیں جو جزیرہ نما جاپان میں تیسری صدی کے وسط اور ساتویں صدی کے اوائل کے درمیان تعمیر کی گئے۔ اور اسی نسبت سے اس عرصے کو کو فون دور کا نام دیا گیا ہے۔

اس دور میں جاپان ”یاماتو“ قبیلے کی زیر قیادت بتدریج علاقائی طور پر متحد ہونے کی جانب پیشرفت کرنے لگا۔ (اسی وجہ بعض اوقات اس عرصے کو ”یاماتو دور“ بھی کہا جاتا ہے) ”یاماتو“ کی زیر قیادت متحدہ ریاست یا فیڈریشن کا مرکز ”کینایا“ تھا۔ اس کے حکمرانوں سے شروع ہونے والا موروثی شاہی سلسلہ آج تک قائم ہے (جاپان کے تمام شہنشاہ اسی یاماتو سلسلہ (خاندان) سے تعلق رکھتے ہیں) ۔

یاماتو کے حکمران فتوحات کے علاوہ مقامی سرداروں سے افہام و تفہیم کے ذریعے بھی جاپان میں اپنا اقتدار اور قومی یک جہتی کو وسعت دینے لگے۔ چین نے اس کی حیثیت تسلیم کر کے اس سے رسمی سفارتی تعلقات استوار کیے ۔ اس کے پانچ بادشاہوں کا ذکر چینی تحریرات میں ہوا ہے۔

چین کے ساتھ رابطے بڑھ جانے سے جاپانیوں پر اس کے تصورات اور رسوم و روایات اثرانداز ہونے لگے۔

6 ویں صدی میں چین اور بالخصوص کوریا کے کاریگروں اور علوم و فنون کے ماہرین نے جاپان کو براعظمی ٹیکنالوجی اور انتظامی مہارت فراہم کرنے میں اہم رول ادا کیا تھا۔

مورخین کے مطابق یاماتو فیڈریشن یا ریاست اور اس وقت بعض دوسرے حریف قبیلوں پر مشتمل ”ازدمو“ نامی اتحاد کے درمیان شدید طویل کشمکش رہی

کلاسیکل دور
538 سے 1185 تک کا زمانہ (جو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے) کو جاپان کا کلاسیکل دور کہا جاتا ہے
1۔ اسوکا دور (538 تا 710)

538 میں یہاں ”کوریا“ سے بدھ مت کے متعارف ہو جانے سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔ جس کے بعد سے بدھ مت جاپان کے مقامی مذہب ”شنتو“ کے ساتھ موجود چلا آ رہا ہے۔

(جاپان کا ابتدائی مذہب شنتو ” (بمعنی دیوتاؤں کا راستہ) ریا ہے۔ شنتو مذہب کا بنیادی تصور فطرت کی عبادت ہے۔ اس میں مرکزی دیوی“ سورج ”کے ساتھ نیچر میں سینکڑوں کم تر دیوتاؤں اور ارواح کی موجودگی کا عقیدہ پایا جاتا ہے)

جاپان کا شاہی پایہ تخت ”کنایا“ کے علاقے ”اسوکا“ میں قائم ہو جانے سے اس کو ”اسوکا“ دور کہا جاتا ہے۔

580 کی دہائی میں یہاں ”بدھ مت کی پیروکار سوگا برداری“ نے حکومت سنبھالی۔ اس کا کنٹرول 60 سال تک ریا۔ بدھ مت کا سب سے پرجوش حامی اور پرچارک، 594 سے 622 تک مقتدر رہنے والا لیڈر ”شوتوکو“ تھا جس نے 607 ع میں چینی مذیب اور تہذیب سے پوری آگاہی کے لیے مطالعاتی وفود چین بھیجے۔

اس نے حکومتی عہدیداروں اور شہریوں کے لیے چینی فلاسفر ”کنفیوشش“ کے ضوابط اور تعلیمات پر مبنی آئین دیا۔

645 ع میں سوگا برداری کی جگہ ”فوجیوارا خاندان یا برداری کے امراء بالا دست ہو گئے انہوں نے“ تائیکا ”نامی اہم اصلاحات نافذ کیے ۔ ان کے تحت زمینوں کو قومی ملکیت میں لے کر کاشتکاروں میں مساوی تقسیم کیا گیا۔ ان اصلاحات کا بنیادی مقصد مرکز اور چینی طرز پر استوار شاہی دربار کی اثر اور طاقت بڑھانا تھا۔

(ان اصلاحات کی مناسبت اسوکا دور کو ’تائیکا دور ”بھی کہا جاتا ہے)

اس دور میں بھی چینی طرز تحریر، سیاست، آرٹ اور مذہب سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے مطالعاتی وفود بھیجے جاتے رہے۔ 672 ع میں تخت نشینی کے جھگڑے کے بعد ”تایا ہو ضابطہ“ جاری کر دیا گیا۔ جس سے موجود ضوابط مستحکم اور مرکزی اور ماتحت حکومتوں کا ڈھانچہ استوار ہوا۔ ان قانونی اصلاحات سے مرکزی حکومت چینی طرز پر تشکیل دی گئی

اسوکا دور میں ”ہوریوجی“ () میں تعمیر کیا گیا بدھ مندر لکڑی سے بنائی گئی دنیا کی سب سے قدیم عمارت ہے۔

2۔ نارا دور 710 تا 794۔

710 میں نارا (پرانا نام ہیجوکیو) میں پہلا مستقل دارالحکومت قائم کیا گیا جس کی تعمیر چین کے ”تانگ“ دورحکومت میں قائم دارالحکومت چانگ آن (موجودہ شیان) کے طرز پر کی گئی۔

اسی مناسبت سے اس عرصے کو ”نارا دور“ کہا جاتا ہے۔ اسی دور میں بھی جینی تہذیب سے استفادہ کرنا جاری رہا۔ کنفیوشیزم بھی چین کے ذریعے متعارف ہوا۔ شہر میں پارک اور پکوڈے بنائے گئے فن و ادب ترقی کرنے لگا۔ زبان کی تحریری شکل پر جاپانی شاعری ”واکا“ بھی تحریر میں آنے لگی۔ کتابیں لکھنے کا آغاز ہوا۔

بدھ ازم اور شنتو ازم کے حوالے سے پائے جانے والے اختلاف کو حل کیا گیا۔ یہ کافی اہم دور تھا تاہم اس دور کے آخر میں وباؤں اور قحط کے باعث جاپان کی آبادی کافی متاثر ہوئی۔

3۔ ہیان دور (794 تا 1185)

سنہ 784 عیسوی میں دارالحکومت کو ”نارا“ سے ناگا اوکا ”منتقل کیا گیا۔ تاہم گیارہ سال بعد اس علاقے کو بد شگون قرار دے کر 794 میں شہنشاہ“ کا مو ”نے دارالحکومت 28 میل شمال کی جانب ہے یان (موجودہ کیوٹو) میں تعمیر کر دیا۔ اسی نسبت سے یہ“ ہیان دور ”کہلاتا ہے۔ یہ جاپانی تاریخ کا کافی سنہرا زمانہ رہا ہے

طاقت ور ”فوجیوارا امراء“ خاندان کی کوششوں اور حمایت سے بعض چینی ماڈل کے بعض عناصر ترک یا تبدیل کر کے مقامی کلچرل کو ترقی پر توجہ دی جانے لگی۔ تحریر کو چینی کے بجائے جاپانی زبان کے حروف سے ہم آہنگ کر لیا گیا۔ جو عوامی ادب پنپنے کے سلسلے میں مفید ثابت ہوا۔

اسی طرح چینی طرز حکومت کے بہت سارے انداز ترک کر دیے گئے اقتدار بتدریج فوجیوارا امراء اور اس کے مقرر کردہ افراد کے علاوہ موروثی عہدیداروں کے ہاتھ میں آ گیا۔ یہ دور اشرافیہ اور شاہی دربار کلچر کے لیے مشہور ہے۔ جس کے دوران اعلی طبقے کے افراد ہاں فنون لطیفہ اور ادب میں دلچسپی لینا ایک اعلی قدر سمجھا جاتا تھا۔

اس دور کا ایک اہم ادب پارہ 978 ع کے لگ بھگ

”موراساکی شیکیبو“ نامی خاتون کا لکھا ”گینجی کی داستان“ ہے جو دنیا کا پہلا نفسیاتی ناول گردانا جاتا ہے

۔ فیوڈل دور

1000 عیسوی کے بعد اگلے ڈیڑھ صدیوں کے دوران جاپان میں یورپی طرز کا فیوڈل نظام ابھر آیا۔ ہر فیوڈل لارڈ نے سامورائی (وفادار جنگجو) رکھے تھے۔ فیوڈل لارڈز کے مابین باہمی جنگ و جدل معمول بن گیا تھا۔ کاشتکار مرکزی حکومت کے بجائے اپنے علاقے کے متعلقہ فیوڈل لارڈ کو ٹیکس دیتے تھے۔

مینا موتو (کا ماکورا) دور 1185 تا 1333

12 ویں صدی میں دو قبیلوں ”میناتو“ اور ”طائرہ“ جن کے پاس سب سے بڑے ساموری (مسلح لشکر) تھے، کے درمیان ”ہونشو“ کے جزیرے میں 30 سال تک جاری جنگ میں 1185 میں ”میناتو قبیلہ“ غالب ہو گیا۔ اس کی قائم کردہ حکومت کو باکوفو (عسکری حکومت) کہا جاتا تھا۔

1192 میں جاپان کے شہنشاہ نے مینا موتو کے سربراہ یوری موتو ”کو شوگن (کمانڈر انچیف) کا منصب عطا کیا۔ اگرچہ ظاہر میں ملک کا سربراہ تو شہنشاہ تھا مگر اصل اختیارات“ شوگن ”کے پاس تھے۔ سرکاری ملازمین، عدلیہ مالیات، فوج، مواصلات وغیرہ تمام اہم شعبے اس کے تحت تھے۔ شہنشاہ کا پایہ تخت کیوٹا (جزیرہ ہو نشو کے کنسائی خطے“ کا شہر) میں تھا جبکہ ”شوگن“ نے اپنا ہیڈکوارٹر کیوٹا سے 300 میل مشرق میں کا ماکورا (ٹوکیو کے جنوبی مضافات) میں قائم کیا۔

اگرچہ اس کی، حکومت قومی سطح کی نہیں تھی تاہم کافی بڑا علاقہ اس کے زیر تسلط تھا۔ اور اس پر اس کی گرفت کافی مضبوط تھی۔ جاپان کی تاریخ میں 13 ویں صدی کا دور ”کاماکورا شوگانیٹ“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

1199 میں ”یوری موتو“ کی موت کے بعد اس کے بیٹا جانشین بنا۔ لیکن اس میں صلاحیتوں کی کمی تھی۔ 13 ویں صدی کے اوائل میں اس کے ننھیالی قبیلے ”ہوجو“ کا اثر بڑھنے لگا۔ اور کا ماکورا شوگانیٹ ”ہوجو“ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن گیا۔ بقیہ دور میں ”ہوجو“ امراء کی مرضی چلتی رہی

(جاپان میں شوگانز کے زیر کنٹرول، طرز حکومت کی پیروی 1868 تک تقریباً 700 سال تک رہی)

آوائل شوگان کے دور میں مقامی لارڈز کافی بارسوخ تھے۔ فیوڈلزم کو ختم کرنے کے بجائے ”کاماکورا جرنیلوں نے اس پر انحصار کیا اور مقامی لارڈز سے تعاون کرتے رہے۔

کاماکورا کے شوگان ملکی دفاع کے حوالے سے بھی کافی کامیاب تھے۔ انہوں نے چین کے منگول بادشاہ ”قبلائی خان“ کے دور میں 1274 اور 1281 میں منگولوں کے بحری حملوں کو رکا۔ تاہم اس کے باعث جاپانی خزانے پر بڑا بوجھ بھی پڑا۔

سامورائی کو ادائیگی مشکل ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں وہ شوگان کے ماتحت مرکزی حکومت کے بجائے اپنے مقامی لارڈز سے وابستہ ہونے لگے اور شوگان کی طاقت اور اثر کمزور پڑ گیا۔ کا ماکورا شوگن کا اثر برائے نام رہ گیا۔ ہر طاقتور جاگیر دار اپنے اپنے علاقوں میں آزاد حکمران بن گئے۔ یہ مقامی جنگجو لارڈ ”دے میوہ“ کہلاتے تھے۔ جنہوں نے مسلح لشکر تشکیل دیے تھے۔

اشیکاگا یا مورو ماچی شوگانیٹ دور۔ 1333 تا 1568

1333 میں شوگانیٹ کے خلاف بادشاہ ”گو دیا گو“ کی بغاوت کے دوران شوگانیٹ کے ایک جرنیل ”اشیکاگا تاکایوجی“ نے بادشاہ کے ساتھ مل کر ”کامکارا“ کا تختہ الٹ دیا۔

تاہم جب بادشاہ نے جب اس کو شوگن مقرر نہ کیا تو ”تاکایوجی“ نے 1338 میں ”کیوتو“ پر قبضہ کر کے شاہی خاندان کے ایک دوسرے فرد کو بادشاہ بنا دیا۔ جبکہ معزول بادشاہ ”گودیاگو“ نے جنوبی شہر ”بوشینو“ فرار ہو کر متوازی حکومت قائم کر لی۔ جس سے ”شمالی شاہی مرکز ’اور“ جنوبی شاہی مرکز ”کے درمیان باہمی کشمکش کا طویل سلسلہ شروع ہوا، ۔

”تاکایوجی“ نے اپنا مرکز مورو ماچی (ضلع کیوتو) میں قائم کیا۔ تاکایوجی کو ایک چیلنج جنوبی شاہی مرکز سے لڑائی کا تھا دوسرا اپنے ماتحت باغی گورنروں پر تسلط بحال کرنے کا تھا۔

1368 میں تاکایوجی کا نواسہ ”اشیکاگا یوشی میتسو“ نے برسراقتدار آیا۔ تو اس نے 1392 میں ڈیل کے ذریعے شمالی اور جنوبی شاہی مراکز کو یکجا کر کے خانہ جنگی کا خاتمہ کر دیا۔ اور یوں شوگانیٹ کی طاقت بحال کردی۔

اگلے کچھ دہائیوں تک حالات نسبتاً مستحکم رہے مگر 1467 میں اشیکاگا شوگانیٹ کی جانشینی کے مسئلے پر دیموز (مقامی جنگجو لارڈز) کے مابین شدید خانہ جنگی شروع ہوئی۔ جس کے دوران ”کیوتو“ کو جلایا گیا۔ اگر چہ 1477 میں جانشینی کا تصفیہ تو کر دیا گیا مگر شوگن کا دیموز پر اختیار ختم ہو گیا جنہوں نے پورے جاپان بھر میں سینکڑوں مقامی راجداہنیاں قائم کر لی تھیں اور باہمی برسرپیکار تھے۔ دیموز کے علاوہ باغی کسانوں اور جنگجو ”بدھی راہبوں“ نے بھی لشکر بنا لیے تھے۔ یوں جاپان ہر طرف خانہ جنگی کی لپیٹ میں آ گیا۔

1467 سے 1568 تک کے عرصے کو جاپانی تاریخ میں سینگوکو (خانہ جنگی) کے دور سے یاد کیا جاتا ہے

اس دور میں متعدد بار شاہی دارالحکومت ”کیوٹو“ پر حملے ہو کر جلایا گیا۔ اور بے اختیار شہنشاہ تباہ شدہ شہر میں غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ ملک بھر بدنظمی کا شکار تھا۔ جاپان کے بحری قزاق ملکی ساحلوں کے ساتھ جنوبی چین کے ساحلی شہروں میں لوٹ مار کرنے لگے تھے۔

جاپان میں اہل مغرب کی آمد۔ جنگ و جدل اور بد نظمی کے اس دور میں پہلا پرتگیزی (یورپی) بحری جہاز 1543 میں جاپان کے جنوبی ساحل پہنچا۔ مضبوط مرکزی حکومت کی عدم موجودگی کے باعث پرتگالیوں کو اصول اور قواعد کا پابند کرایا نہیں جا سکتا تھا۔ بلکہ بعض دے میوز (مقامی جنگجو لارڈز) نے ان تاجروں اور مسیحی مبلغین کا خیر مقدم کیا۔ پرتگالیوں کے بعد دوسرے یورپی ممالک کے تاجر بھی آنے شروع ہو گئے تھے۔ جاپانی تاجروں ریشم کے بدلے ان سے دوسری اشیاء کے علاوہ ”بندوق“ خریدنے لگے اس کے نمونے پر جاپانی کاریگروں نے اپنے ہاں بندوق بنانے شروع کیا۔ اور اس کے ساتھ علاقائی جنگجووں نے اپنے لشکروں کو تلواروں کی جگہ بندوقوں سے مسلح کرنے لگے۔

کیتھولک مشنری پرتگالی تاجروں کے ساتھ کیتھولک مبلغین بھی جاپان آئے۔ اس کے پہلے رہنما نے اپنے دو سال (1549 تا 1550) قیام کے دوران سینکڑوں جاپانیوں کو عیسائی بنایا۔ اپنی آمد کے بعد سے عیسائی مشنریز 90 سال تک جاپان میں آزادی سے تبلیغ کرتے رہے۔ اور اسی دوران 30 لاکھ کے قریب جاپانی عیسائی بنائے گئے

نظم و ضبط کی بحالی۔

پرتگالیوں کی آمد کے بعد بھی جنگجو امراء کے مابین بے نتیجہ جنگ جوئی جاری رہی کہ اسی دوران یکے بعد دیگرے تین ایسے فوجی لیڈر ابھر آئے جنہوں نے ملکی اتحاد اور اندرونی امن کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا۔

ان میں پہلا ”ادا نوباناگا“ تھا جس نے نئے بارودی اسلحہ کے استعمال سے کام لے کر حریف جنگجوؤں کو شکست دی۔ 1568 میں شاہی دارالحکومت ”کیوٹو“ اور اس کے گردونواح پر قبضہ کر کے اشیکاگا کے برائے نام شوگانیٹ کا باقاعدہ خاتمہ کر دیا۔ بدھسٹ کے بڑے خانقاہوں اور قلعہ بند مراکز کے فوجی طاقت کو توڑا۔ ان کو غیر موثر بنانے کے لیے پرتگالی اور دوسرے عیسائی مبلغین کی حوصلہ افزائی کی۔

تاہم مخالفین کے خلاف بے دردانہ اقدامات کے باوجود 1582 میں اپنی موت تک وہ پورے جاپان پر کنٹرول حاصل نہ کر سکا۔ اس کے بعد دوسرے دو قابل جرنیلوں نے یہ مشن جاری رکھا۔ اس کا پہلے جانشین ”تویوتومی ہیدے یوشی“ نے باغی جنگجو لارڈز کو زیر کرنا شروع کیا۔ غیر سامورائی افراد (کسان اور عام لوگ) کو غیر مسلح کرنے کے ساتھ کئی دوسرے اقدامات سے ملک کو امن و استحکام کی راہ پر گامزن کیا۔ عیسائیت کے بڑھتے ہوئے اثرات کے باعث 1587 میں اس کے مبلغین پر پابندی لگا دی۔

1590 تک وہ زیادہ تر ملک پر کنٹرول حاصل کر گیا تھا۔ اگرچہ اس نے شوگان (شاہی کمانڈر انچیف) کا خطاب اختیار نہیں کیا۔ مگر سارا اقتدار اس کے ہاتھ میں تھا

اور اتنا پر اعتماد ہو گیا تھا کہ چین کو فتح کرنے کے لیے 1592 میں کوریا پر حملہ کر دیا۔ اور یوں کوریا اور اس کے چینی اتحادیوں کے خلاف مہم جوئی میں پڑ گیا۔ مگر کامیاب نہ ہوسکا 1598 میں اس کی وفات ہونے پر کوریا سے جاپانی افواج نکل آئیں۔ (جاپانی تاریخ میں 1568 سے 1600 تک عرصہ ”نوبوناگا“ اور ”ہیدے یوشی“ کے فوجی مراکز کی نسبت ”ازوجی مومو یاما“ دور کہلاتا ہے)

توکوگاوا شوگانیٹ مرکز ایدو (موجودہ ٹوکیو) ۔ 1603 تا 1868۔

ہیدے یوشی کے بعد جانشینی کی جنگ میں اس کے ایک سابقہ اتحادی جنگجو ”توکوگاوا ایئاسو“ نے 1600 میں ”سیکیگاہارا“ () کی لڑائی میں بقیہ مخالفین کو شکست دے کر پورے جاپان کو متحد کر دیا۔ 1603 میں ”شوگان“ کا خطاب حاصل کر کے پورے ملک کا حکمران بن کر تو کوگاوا شوگانیٹ کی بنیاد رکھی۔ اس نے اپنا انتظامی مرکز مشرقی جانب ایک چھوٹے قصبے ایدو (موجودہ ٹوکیو) منتقل کیا۔ جاپان کے متحد ہونے کے بعد اگرچہ مقامی سطح پر انتظام لارڈز کے پاس رہا مگر ”ایئاسو“ نے انہیں مطیع رکھنے کے لیے ان کو بعض قواعد اور ضوابط کا پابند بنایا۔ جو جاپان میں مرکزی حکومت کی بحالی کے لیے بہت اہم اقدام ثابت ہوا جس کے نتیجے میں تلوار کی حکمرانی کے بجائے قانون کی حکمرانی کو فوقیت حاصل ہو گئی۔

ایئاسو کا ایک اہم اقدام مغربی تاجروں بالخصوص عیسائی مبلغین کے حوالے سے پالیسی تھی۔ عیسائی مشنریز کا بڑھتا ہوا اثر رسوخ، جاپان کی روایتی عقائد پر ان کی طنز و تنقید اور بعض اوقات مقامی سیاست میں ان کی مداخلت باعث تشویش تھی۔ 1612 میں عیسائیوں کی طرف سے مذہبی بغاوت کے خدشے کے پیش نظر اس نے جاپان میں عیسائیت پر پابندی لگا دی۔

”ایئاسو“ 1616 میں فوت ہو گیا مگر اس کا قائم کردہ ”توکوگاوا شوگانیٹ“ سلسلہ اگلے 268 سال 1867 تک جاپان میں برسراقتدار رہا۔ جس کے تحت جاپان میں لمبے عرصے تک کافی امن و استحکام کا دور رہا۔ تجارت اور کلچر کی ترقی ہوئی۔

”ایئاسو“ کے بعد اس کے جانشینوں نے اگلی دو دہائیوں تک عیسائیوں کو وقتاً فوقتاً زیر عتاب رکھا۔ مگر 1637 میں جب جنوبی چین میں کسانوں نے بغاوت کی جن میں بہت سارے عیسائی تھے تو حکومت نے ان کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کو بے دردی سے قتل یا ملک بدر کر دیا گیا۔ تمام جاپانیوں کو بدھا ازم کی پیروی کرنے کا پابند بنایا گیا۔ اس پالیسی سے بالآخر جاپان میں عیسائیت کا خاتمہ ہو گیا۔

عیسائیوں سے چھٹکارا پانا غیر ملکی تصورات اور طور طریقوں کا تدارک کرنے کی پالیسی کا حصہ تھا۔ اگرچہ یورپی تجارت جاپان کے لیے منافع بخش تھی۔ تاہم وقت کے ساتھ ”توگاوارا شوگان“ نے فیصلہ کیا کہ عیسائی مبلغین کے ساتھ یورپی تاجروں کو بھی نکالنا ضروری ہے تو 1639 میں شوگن ”لے میتسو“ نے غیر ملکیوں کے لیے جاپانی سرحدیں بند کر دیں اور دنیا سے الگ رہنے کی پالیسی اختیار کی۔ اہل مغرب کے ساتھ تجارتی تعلق ختم کر دیا۔ صرف چینیوں اور یورپیئن میں سے ولندیزیوں کو ”ناگاساکی“ کی بندرگاہ تک تجارتی رسائی کی اجازت دی۔

اس پالیسی کے تحت اگلے دو سو سال تک جاپان یورپ کے لیے بند رہا۔ اس پالیسی کا جاپان پر اگر ایک طرف یہ اثر پڑا کہ یورپ کے مقابلے میں سائنس، ٹیکنالوجی اور فوجی شعبے میں پیچھے رہ گیا تاہم دوسری طرف اس پالیسی کے نتیجے میں جاپان کو طویل عرصے تک امن و استحکام ملا اس پالیسی سے جاپان کے تاجروں کو زیادہ فائدہ ہوا۔ اندرونی امن و استحکام، تعلیمی اصلاحات اور جاپان کے اندر آزاد معیشت سے دیہات کے بجائے شہر زیادہ ترقی یافتہ ہو گئے۔ اس دور میں جاپانی کلچر کافی مالامال اور تخلیقی رہا۔ آرٹ، لٹریچر اور تعمیرات کے شعبوں میں اعلی نمونے تخلیق کیے گئے

بدھ راہبوں نے منفرد مذہبی نکتہ نظر یا مکتب ”زین“ تشکیل دیا۔ بدھا ازم کی دوسری صورتوں کے مقابلے میں جاپانی کلچر پر بڑا اثر ڈالا۔ جاپانی لفظ ”زین“ کا مطلب مراقبہ یا یوگا ”ہے جس کے ذریعے اس کے مطابق ذہنی اور روحانی بصیرت حاصل کی جا سکتی ہے۔

200 سال سے زیادہ عرصے کے دوران دوسرے ممالک کی طرف سے جاپان سے تجارت کرنے کی ہر پیشکش اور کوشش لاحاصل رہی تھی۔

تاہم جب 1853 میں جب امریکہ کا ایک چھوٹا جنگی بحری بیڑا جاپانی بندرگاہ پر اس مطالبے کے ساتھ آیا کہ امریکی تاجروں کے لیے بندر گاہ کھول دیں۔ تو جاپانی قیادت نے اگلے سال (1854) اس کو مطلوبہ تجارتی حقوق دینے کا معاہدہ کر لیا۔ اس کے بعد برطانیہ، فرانس، روس اور ہالینڈ کے ساتھ بھی اسی نوعیت کے معاہدے کر لیے۔ یوں جاپان کی دنیا سے الگ تھلگ رہنے کی پالیسی اور دور کا اختتام ہوا۔

میجی انقلاب اور جاپان جدیدیت کی راہ پر ،
اہل مغرب کے ساتھ تجارت قائم ہونے کے بعد جاپانیوں نے بعض تبدیلیوں کو ضروری سمجھا۔

1868 میں امراء کے ایک گروپ نے شاہی اقتدار کو بحال کرنے کے لیے 1603 سے قائم ”توکوگاوا شوگانیٹ سلسلے“ کے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ اور شہنشاہ ”موتشو ہیٹو“ (جس کی عمر 15 سال تھی) کو تخت پر بیٹھا کر اس کی طرف سے حکومت کرنے لگے۔ ”موتشو ہیٹو“ نے اپنے دور حکومت کا نام ”میجی“ (بمعنی روشن خیال دور حکومت) رکھا۔ 1868 میں جاپان میں حکومت کی اس تبدیلی کو ”میجی بحالی“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنا شاہی دارالحکومت ”ایدو (ٹوکیو) منتقل کر دیا۔

میجی دور (1868 تا 1912) جاپان میں انقلابی زمانہ تھا۔ فیوڈلزم کا خاتمہ کر دیا گیا۔ 1890 میں مغربی طرز کا نیا آئین بنا لیا گیا۔ جس کے تحت دئٹ (پارلیمنٹ) قائم کی گئی۔ اور اہم فیصلوں کا اختیار اس کو دیا گیا

چین کے برعکس اپنے ملک کو مغربی طرز پر جدید بنانے پر توجہ دی۔ اپنے شہریوں کی تنظیم اور تربیت کے لیے مغرب سے ہزاروں کی تعداد میں انجنیئرز، ٹیکنیشنز۔ بری اور بحری فوجوں کے ماہرین کی خدمات حاصل کر لیں۔ فوجی ساز و سامان کے علاوہ صنعتی ترقی کے لیے کیمیکلز، سیمنٹ، لوہے، فولاد، ریشم، اور کپاس وغیرہ کی برآمد کے لیے ان صنعتوں پر توجہ دی اور اس کی آمدنی سے ملک کو جدید بنانے لگے۔ 1890 تک جاپان کے اہم شہر اور قصبے ٹیلی گراف اور ریل کے ذریعے منسلک کر دیے گئے۔ زرعی پیداوار دگنی کردی۔ تعلیم کو لازمی قرار دیا۔ پرانے جاگیردارانہ زمانے کے قوانین کو صنعتی دور کے مطابق کرا لیا گیا۔ مغربی جمہوریت کو سمجھنے کے لیے یورپ کے مطالعاتی دوروں کا اہتمام کرانے لگے

معاشی ترقی کے ساتھ جاپان نے اپنی بری اور بحری افواج کو بھی جدید تر بنانے پر توجہ دی۔ اور یوں اس پوزیشن میں ہو گیا کہ 1850 کے عشرے میں غیر منصفانہ تجارتی معاہدوں کے تحت جاپان میں مغربی طاقتوں کو حاصل بعض مراعات واپس لے لیے۔ اس دور میں جاپان ایشیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک بن گیا اور ایک صنعتی طاقت ہو کر اپنا حلقہ اثر بڑھانے کے لیے متحرک ہو گیا۔ طاقت ور ہو جانے کے بعد جاپان سامراجیت پر اترنے لگا۔ معاشی ضروریات کے علاوہ قومی برتری اور طاقت کا مظاہرہ کرنا بھی اس کے محرکات تھے۔

اس سلسلے میں اس کا پہلا ہدف ”چین“ بنا۔ 1894 میں چین کے ساتھ جنگ کے نتیجے میں اس کے اتحادی کوریا پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بعد چین کے شمال مشرقی صوبے ”منچوریا“ پر قبضہ کرنے کے لیے متحرک ہوا۔ چونکہ روس بھی اس پر قبضہ کرنے کی سوچ میں تھا یوں 1904 میں روس اور جاپان کی جنگ شروع ہو گئی۔ روس کو خلاف توقع ہے در ہے شکستیں دے کر جاپان نے جنوبی مانچوریا میں روس کے تمام تجارتی مفادات اس کے کنٹرول میں آ گئے۔ اور منچوریا جاپان کے زیر اثر ہو گیا۔

امن معاہدے کے تحت طے ہوا کہ پورٹ آرتھر اور سخالین جزیرے کا آدھا جنوبی حصہ جاپان کے زیر قبضہ ہو گا اور کوریا کو جاپان کی کٹھ پتلی ریاست بنا دیا گیا۔ اور سب سے اہم یہ کہ اس نے خود کو ایک بڑی طاقت کے طور پر تسلیم کرایا۔ میجی کے انتقال کے بعد تائىشو نے جاپان کے 123 ویں شہنشاہ کی حیثیت سے منصب سنبھالا جن کا دور 1912 سے 1926 تک رہا۔ اس دور میں جنگ عظیم (1914 تا 1918) شروع ہوئی۔ جنگ میں جاپان نے اتحادیوں سے مل کر جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ اور چین اور بحرالکاہل میں جرمنی کے مقبوضات اور کالونیوں پر قبضہ کر لیا۔ جنگ کے بعد ”معاہدہ ورسائی“ کے تحت جاپان کی منچوریا اور ”سخالین“ میں جاپان کی عملداری کو تسلیم کیا

1914 میں جنگ عظیم کے باعث یورپ ممالک کی بین الاقوامی تجارت معطل ہو گئى تھی۔ اب وہ باقی دنیا کو کپڑا، مشینری اور کیمیکل برآمد کرنے سے قاصر تھے۔ ان حالات میں جاپانی مصنوعات کی مانگ بڑھ گئى جس سے جاپانی تاجر اور سرمایہ کار امیر ہو گئے اور انہوں نے سرمایہ کاری میں تیزی سے اضافہ کیا۔ ہزاروں فیکٹریاں تعمیر کی گئیں اور جاپانی ٹیکسٹائل کی برآمد میں بہت اضافہ ہوا۔ سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں نے پیداواری معیار کو بہتر کرنے کے لیے بیرونی ممالک سے جدید مشینری اور جدید تکنیک حاصل کی۔ یوں کئى بڑی کمپنیاں معرض وجود میں آئیں اور ملکی دولت کا بڑا حصہ ان کے ہاتھ آیا۔

1920 کی دھائى میں جاپان میں کئی جمہوری اصلاحات کیے گئے جسے تائىشو جمہوریت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے تاہم تائشو دور جمہوریت بڑھتی ہوئی عسکریت اور توسیع پسندی سے دھندلا رہا

1920 کے بعد کا جاپانی دور اندرونی بدامنی کا شکار رہا۔ خراب اقتصادی حالات کی وجہ سے ملکی سیاسی عدم استحکام بڑھتا گیا اور کئى سیاست دانوں بشمول ایک وزیراعظم کے قتل کر دئے گئے۔ فوج پر نہ تو پارلیمنٹ اور نہ ہی حکومت کو کنٹرول تھا اور یہاں تک کہ شہنشاہ بھی بے بس تھا۔ بلکہ حکومت کی باگ ڈور عوامی حکومت کی بجائے فوج کے ہاتھوں میں تھی۔

1929 میں عالمی کساد بازاری کے باعث جب معاشی بحران شدید تر ہو گیا تو جاپان کی عسکری قیادت (جو سیاسی حکمرانوں کے بجائے شہنشاہ کو جواب دہ تھی) کے نزدیک اس بحران کا حل بحرالکاہل میں کالونیل سلطنت کا قیام تھا اور اس کے لیے جرمنی اور اٹلی کی طرح جارحانہ پالیسی سے کام لینا ہو گا۔ اسی سوچ کے تحت جاپانی فوج نے چین سے امن معاہدے کے باوجود 1931 اس کے شمالی صوبے ”منچوریا“ پر قبضہ کر کے وہاں ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کر لی۔ 1937 میں شمالی چین پر حملہ کر کے پیکنگ اور دوسرے شمالی شہروں سمیت چینی دارالحکومت ”نانکنگ“ پر قبضہ کر لیا اور 6 ماہ کے اندر 2 لاکھ کے لگ بھگ چینی قتل کر دیے۔ تاہم چینیوں نے ہار ماننے کے بجائے مزاحمت جاری رکھی۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران جاپان جرمنی اور اٹلی کا اتحادی تھا۔ دسمبر 1941 میں اس کا ”پرل ہاربر“ میں امریکی بیڑے پر حملہ کرنے سے امریکہ بھی جنگ میں کود پڑا۔ اسی دوران 1942 کے وسط تک جاپان مغربی بحرالکاہل (جنوب مشرقی ایشیا) میں ہالینڈ، برطانیہ، فرانس اور امریکہ کے کالونیوں پر قابض ہو گیا۔ مگر 1945 میں نہ صرف اس سے یہ مقبوضہ کالونیاں چھین لی گئیں بلکہ امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر ہتھیار ڈلوا دیے جس کے بعد یہ 7 سال تک امریکہ کے براہ راست زیر نگرانی ریا۔

اس عرصے میں اس کے لیے نیا جمہوری آئین بنایا گیا۔ اس کے تحت دو ایوانی پارلیمنٹ پر مبنی پارلیمانی طرز حکومت قائم کی گئی۔ شہنشاہ کا عہدہ اگرچہ برقرار رکھا گیا تاہم اس کی حیثیت محض آئینی سربراہ تک محدود رکھی گئی۔ اس آئین کا ایک اہم دفعہ یہ ہے کہ اس کے بعد سے جاپان جارحانہ جنگ نہیں لڑ سکے گا۔ وہ صرف دفاعی مقاصد کے لیے اپنی فوج رکھ سکے گا۔ مذکورہ انتظام کرانے کے بعد امریکہ اور 47 دوسرے ممالک نے جاپان کے ساتھ رسمی امن سمجھوتا دستخط کیا جس کے تحت جاپان کی آزادی کو باقاعدہ طور پر بحال کر دی گئی۔

دونوں سابقہ دشمن امریکہ اور جاپان اتحادی بن گئے۔ اس کے بعد سے جاپان کی معیشت نے زبردست ترقی شروع کی مختلف صنعتوں (فولاد سازی، بحری جہاز، آٹوموبیل، اور الیکٹرانکس) اور زرعی اصلاحات کے ساتھ اس کی شہریوں کی ان تھک محنت سے کم عرصے میں اتنی شاندار ترقی کر لی کہ ہر طرف سے پانیوں میں گھیرا، زلزلوں اور ایٹم بموں کا شکار رہا جاپان معاشی لحاظ سے آج دنیا کا ایک طاقتور ملک ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments