کیا آپ سائیکو پیتھ کے بارے میں جانتے ہیں؟


آج کا موضوع انتہائی حساس نفسیاتی مسئلے ”سائیکو پیتھ“ کے بارے میں آگاہی دے گا۔ سائیکو پیتھ کے لئے متبادل لفظ ”اینٹی سوشل“ استعمال ہوتا ہے۔ اور عام زبان میں ہم ان کو ایذا رساں لوگ کہتے ہیں یعنی دوسروں کو ایذا اور تکلیف پہنچانے والے لوگ۔ بلکہ عام زبان میں انہیں زہریلے یا ٹاکسک کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی دی ہوئی اذیت سانپ کے زہر کی طرح ہوتی ہے اور ان کا ڈنک تباہ کن ہوتا ہے۔

کیا سائیکو پیتھ نفسیاتی مریض ہوتے ہیں؟

سائیکو پیتھ ابنارمل سائیکو لوجی کی رو سے ایسے نفسیاتی مسائل یا امراض ہیں جنہیں پرسنیلٹی ڈس آرڈر کے زمرے میں بیان کیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر توجہ کا مرکز مندرجہ ذیل دو ہیں :

نارسزم اور سائیکو پیتھ

یہ دونو‌ں ہی اپنی نوعیت میں بہت شدت کے ساتھ دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے کرداری رویے اور اعمال کے حامل ہوتے ہیں۔ لیکن نارسسٹ عموماً سائیکو پیتھ نہیں ہوتا لیکن سائیکو پیتھ میں ہمیشہ نارسزم کے خواص پائے جاتے ہیں۔ اور ان دونوں کی ایک قدر مشترک حسد اور جان بوجھ کر ایذا رسانی اور معاشرے کے دوسرے افراد کو مارنے یا تہس نہس کرنے کی حد سے بڑھی خواہش Impulse کی صورت میں اٹھتی ہے جس کو پورا کر کے یہ لوگ نہ صرف لطف اندوز ہوتے ہیں بلکہ ایک کے بعد ایک شکار پھانس کر انہیں تکلیف دیتے ہیں اور اپنے وکٹم کو کبھی تکلیف پہنچائے بغیر نہیں چھوڑتے بلکہ اگر وکٹم انہیں چھوڑ بھی دے تو وہ اس کو دور بیٹھ کر بھی کسی نہ کسی طور نقصان پہنچانے کے طریقے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور وکٹم کے رشتہ دارو‌ں اور قریبی لوگوں سے دوستی کر کے ان کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں اور یوں وکٹم بے بس ہو جاتا ہے یہ بے بسی ان مجرمانہ بیمار لوگوں کے لئے زندگی بخش ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی چیزیں ان دونوں میں مشترک ہوتی ہیں اور مقصد اپنے شکار کو مستقل اور طویل اذیت دینا ہے جو انہیں سیلف گریٹیفیکیشن کی کیفیت سے سرشار رکھتا ہے۔ جو فطری طور پر ان کی بہت بڑی نفسیاتی ضرورت ہوتی ہے۔

اگر یہ دوسروں کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو انہیں مجرم کیوں نہیں کہا جاتا نفسیاتی مریض کیوں؟

ان کو مجرم بھی کہا جاتا ہے بلکہ مجرمانہ خصائل رکھنے والے نفسیاتی مریض۔ کیونکہ ان کے دماغ کی کیمسٹری اور نیورولوجیکل ساخت میں ایسی بے قاعدگیا‌ں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ان کو اپنی مجرمانہ خصلتوں پر کسی طور بھی کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہ اپنی فطرت پر مجبور ہوتے ہیں اور دوسروں کو تکلیف جتنی وہ دینا چاہتے ہیں دے کر ہی رہتے ہیں بلکہ یہ سلسلہ تمام زندگی چلتا ہے اور کہیں سٹاپ سائن نہیں ہوتا۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں اس سے ایسی گو نا گوں مسرت ملتی ہے جو ان میں ولولہ یعنی تھرل پیدا کرتی ہے جس کو دوبارہ اور پھر دوبارہ اور ہمیشہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اور گزشتہ مسرت انہیں نشے کی سی سرشاری دیتی ہے اور وہ ایذا رسانی کے لیے کہ اس نشے کی لت کی تسکین کے لئے ہیجانی طور خبط میں مبتلا ہو کر جذبات اور جوش پر قابو نہیں پا سکتے اور اگلا جرم، یا ایذا رسانی کا اگلا حملہ اسی شکار یعنی وکٹم پر کرتے ہیں یا نیا شکار پھانستے ہیں اور کبھی رک نہیں پاتے۔ دراصل ان کے دماغی نظام میں جذباتی کیفیات کا رابطہ نارمل طریقے سے نہیں ہو پاتا۔

ان کے علاج کے لیے ادویات کا استعمال بھی کارگر ثابت نہیں ہوتا۔ علاج پر ہم بعد میں روشنی ڈالیں گے۔

سائیکو پیتھ کا نام سنتے ہی سیریل کلر یعنی سلسلہ وار قاتل کا تصور ابھرتا ہے تو سوال ہے کہ کیا واقعی ہر سائیکو پیتھ قاتل ہوتا ہے؟

لازمی نہیں کہ ہر سائیکو پیتھ جسمانی قتل ہی کرے ہاں وہ ایسا کرتے ہیں یک دم یا آہستہ آہستہ اقدام قتل کی کوشش کرتے پائے جاتے ہیں۔ کبھی وہ خود قتل کرتے ہیں اور کبھی وہ دوسروں کے ذریعہ ایسا کرتے ہیں۔ لیکن ہر سائیکو پیتھ کی خوشی کی تعریف الگ ہو سکتی ہے۔ اور طریقہ قتل الگ الگ ہو سکتا ہے یعنی براہ راست قتل یا آہستہ آہستہ سسک کر مرنے پر مجبور کرنا۔ قتل کا دائرہ بہت وسیع ہے یعنی یہ باقاعدہ قتل بھی ہو سکتا ہے اور اقدام قتل کی مختلف اشکال جس میں جسمانی تشدد، ذہنی اذیت، معاشی بربادی، سماجی ذلت اور جذبات سے کھیلنا اور اور بلیک میلنگ اور حد سے بڑھی ہوئی ایسی مفاد پرستی کہ جس سے شکار کو تکلیف ہو۔ بہت سے کیسز میں اپنے شکار سے بہت زیادہ جسمانی مشقت کروانا کہ اس کی صحت خراب ہو کر اسے موت کے منہ تک لے جائے یا ایسے کردار اور روئیے اور گفتگو کرنا جس سے شکار غیر محسوس طور پر مریض بن کر ناکارہ ہو جائے۔

کیا دوسروں کو تباہ کرنے کی خواہش جو کہ ان کی فطرت کا خاصہ ہے اس کو پورا کرنے میں جو رویے اور اقدامات وہ اپناتے ہیں وہ لا شعوری ہوتے ہیں؟

اگرچہ دوسروں کو تباہ کرنے اور تکلیف پہنچانے کی خواہش تو فطری ہوتی ہے لیکن اس کو پورا کرنے کے لیے وہ باقاعدہ منصوبہ بندی یا پلاننگ کرتے ہیں۔ اور ہمیشہ کامیاب ہونے تک عمل پیرا رہتے ہیں۔ یعنی جب تک شکار حتمی طور پر اعلان کرے کہ میں تباہ ہو گیا۔

کیا یہ زہریلے اور ایذا رساں لوگ آسانی سے پہچانے جاتے ہیں؟

سائیکو پیتھ آسانی سے نہیں پہچانے جاتے۔ ہماری نفسیات کی رصدگاہ سے بھی یہ پیغام ملتا ہے کہ شاید دیگر ذہنی امراض کو تشخیص کرنے کے لیے نفسیات کی ایک پی ایچ ڈی اور سالہا سال کا تجربہ درکار ہو لیکن ان پرسنیلٹی دس آرڈرز کو سمجھنے اور درست تشخیص اور علاج کے لئے بہ یک وقت قانون، سوشل ورک، سائیکارٹری اور سائیکو لوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں اور وسیع تجربہ اور عمر درکار ہو۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ذہانت، اور حکمت کے ساتھ اپنی شخصیت کے منفی اور زہریلے پن کے ذریعہ دوسروں کو تباہ کرنے کے لئے بڑی چابکدستی سے چالیں چلتے ہیں جو جلدی اور عام فہم نہیں ہوتیں۔ کیونکہ یہ خود اپنے ان منفی اور مجرمانہ رویوں، کرداروں اور منصوبوں سے واقف ہوتے ہیں اور بہت ہوشیاری کے ساتھ پلاننگ کرتے اور اس پر بڑی ثابت قدمی سے عمل کرتے ہیں کہ قانون بھی انہیں پکڑنے میں تامل کرتا ہے۔ حتی کہ ان کا شکار جو ان کے ہاتھوں تباہ ہو رہا ہوتا ہے وہ نہیں سمجھ پاتا کہ اس کی تباہی، زوال اور تکلیف کی وجہ کون ہے۔

کیونکہ یہ معاشرے کے کامیاب لوگ اور بہت بہترین اشخاص کہلائے جاتے ہیں۔ جس میدان میں قدم رکھتے ہیں کامیابی کے جھنڈے بھی گاڑ سکتے ہیں مثلاً اچھے ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین۔ یا بظاہر اچھے نظر آنے والے رشتہ دار شوہر اور اچھی عورتیں اور اچھی بیویاں۔ لیکن وہ نظر اور سمجھ اس لیے نہیں آتے کہ انہوں نے منافقت اور دہرے معیار زندگی اپنائے ہوتے ہیں اور شکار اگر ان کی شکایت کرے بھی تو کوئی یقین نہیں کرتا بلکہ اکثر اگر کوئی وکٹم یا متاثرہ شخص کا ہمدرد وکٹم کو انتباہ بھی کرے کہ یہ شخص تمہیں نقصان پہنچا رہا ہے تو اسے بھی یقین نہیں آتا۔ کیونکہ سائیکو پیتھ بظاہر اچھا نظر آتا ہے سخی بن کر، ملنسار بن کر یا نیک نمازی بن کر۔ مگر یہ سب دکھاوا ہوتا ہے جو اس وقت سمجھ میں ٓتا ہے جب تباہی وکٹم کو ہر طرف سے گھیر چکی ہوتی ہے۔

کیا ایک عام سیدھے سادھے انسان کے لئے ان ذہنی بیمار مجرموں کو سمجھنے اور سمجھ کر بچاؤ کے لئے کوئی سادہ سی گائیڈ لائن ہے جو مددگار ثابت ہو؟

اگرچہ نفسیات کا لٹریچر اس طرح کی گاییڈ لائن فراہم کرتا ہے لیکن شاید سائیکو پیتھ آپ سے پہلے اس گائیڈ لائن تک رسائی حاصل کر لیتا ہے اور ہر صورتحال میں نئے ڈرامے، جھوٹ اور نئے ماسک میں ملبوس ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بیمار شخصیت، کرداروں اور طریقہ واردات سے واقف ہو اور ماہر نفسیات سے زیادہ اپنے آپ کو جانتا ہو اسی لئے سائیکو پیتھ کو جوں ہی یہ علم ہو جائے کہ دوسرے افراد کو اس کے مذموم ارادوں اور اس کے ظاہری کرداروں کے پیچھے چھپے عزائم کا علم ہو گیا ہے تو وہ فوراً اپنے کرداروں اور رویوں میں بہتری لے آتے ہیں، ان کو پہچان جانے والے شخص کو اپنی زندگی اور سماجی رابطے سے نکال دیتے ہیں یا خود چھپ جاتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اور ڈھیٹ ہو جائیں یعنی اپنی موجودہ مجرمانہ اور شریر روش پر ڈٹے رہیں اور فاتحانہ مسکراتے رہیں۔

لیکن ہر صورت میں وہ نئے رویوں اور بظاہر بہترین رویوں اور کرداروں کے ساتھ نئی حکمت عملی کے ساتھ پہلے سے زیادہ نقصان دہ حملے کرتے ہیں۔

لیکن پھر بھی چند رہنما اصول حفظ ما تقدم کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں…… اور اس سے پہلے یہ تنبیہ کی جاتی ہے کہ اس گائیڈ لائن کی روشنی میں ہم ہر کسی کو اس کٹہرے اور تشخیص کے زمرے میں لا کر مجرم کا لیبل نہیں لگا سکتے۔ یہ کام ماہر نفسیات کا ہے اور قانون کا ہے۔ البتہ ان رہنما اصولوں اور علامات سے ہم اپنے آپ کو شکار ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ لیکن خیال رہے کہ اگر ہم سائیکو پیتھ کے چنگل میں پھنس چکے ہیں تو جان جائیے کہ آپ ان کو سمجھ جانے کے باوجود اس کے نقصان دہ منصوبے کے جال سے جلدی نہیں نکل سکتے۔

بہر حال پھر بھی نفسیات کی رصدگاہ آپ کی آگاہی کے لیے یہ کہتی ہے کہ:

تکبر، گھمنڈ، خود پسندی اور حسد کی فطرت پر پیدا ہونے والے یہ نفسیاتی مریض مندرجہ ذیل شخصی خصائل اور کرداری نمونوں کے حامل ہوتے ہیں :

دولت، شہرت، حکمرانی کی حد سے بڑھی خواہشات۔
حد سے بڑھی خود کی اہمیت اور دوسروں کو بھی اپنی اہمیت کا دھونس سے سکہ جمانا (Inflated views of themselves and grandiose sense of self worthiness)
نرگسیت
گستاخی، سرکشی اور نافرمانی

اپنی چھوٹی چھوٹی ہمدردیوں اور احسانات کو جتانا جبکہ وہ انہوں نے کی بھی نہ ہوں یا محض کسی مفاد کی خاطر کی ہوں۔

بے ایمانی اور دھوکہ دہی
غیر اخلاقی حرکات
مجرمانہ روئیے
غیر ذمہ داری اور کام چوری
اپنے حصے کے کام اور ذمہ داریاں دوسروں پر ڈالنا۔
ہر وقت تنقیدی رویے۔

کسی دوسرے شخص کی کامیابی کو کمتر جتانا اور بہت جلد ہی وہی کام کو اپنا کر اس میں کامیابی حاصل کر کے دوسروں کو نیچا دکھانا۔

دوسروں کو تنگ کرنے اور چھیڑنے کے لیے اس موضوع پر بات کرنے کے لیے اکسانا جن کے بارے میں انہیں علم ہو کہ یہ بات دوسرے فریق کو پسند نہیں۔ وہ مشتعل کرتے ہیں کہ دوسرا اس پر مخالفت کرے اور وہ اس پر جھگڑا کریں۔ یہ رویہ دو شریک حیات میں دیکھنے میں آتا ہے۔ جس پر سائیکو پیتھ شریک حیات بات کا بتنگڑ بناتا ہے۔

جب یہ کسی غلطی اور جرم میں پکڑے جائیں تو اپنے جرائم دوسروں کے سر ڈالتے ہیں حتی کہ ان کے سر بھی جو ان کے ساتھ ان کے جرم کو چھپانے میں مددگار رہے ہوں

وعدہ خلافی
مفاد پرستی
عدم تاسف
ضمیر کا فقدان
احسان فراموشی
انسانی ہمدردی کا فقدان۔

دوسروں کی بیماری، دکھ اور موت پر انہیں خوش اور پر جوش دیکھا جا سکتا ہے اور خوشی اور کامیابی پر غمگین اور بے چین۔ لیکن اگر سماجی دباؤ یا مطلب حاصل کرنے کے لیے خوشی اور غم کے جذبات کا اظہار کرنا بھی پڑے تو وہ دکھاوے کے خشک آنسو اور رونے کی ایکٹنگ ہوتی ہے یا بہت قلیل مدت دکھاوے کی خوشی کا اظہار ہوتا ہے جو دیرپا نہیں ہوتا۔ کسی کی کامیابی ان کی موت کے مترادف اور کسی کا غم اور بیماری انہیں دلی مسرت فراہم کرتا ہے اسی لیے کسی کے بیمار ہونے پر ان کی سنگدلی ان کے چہروں اور لبوں پر خفیف سی مسکراہٹ کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے خواہ وہ ان کی اپنی اولاد ہی کیوں نہ ہو۔

استحصالی رویے اور برتاؤ
ہیرا پھیری
ناشکری
دوسروں کی رائے کے لئے عدم احترام
اپنی غلطی پر کبھی معافی نہ مانگنا لیکن اپنے مطلب کے حصول سے پہلے بار بار معافی مانگنا۔
مطلب نکلنے کے بعد دوسرے شخص یا وکٹم کو ٹشو پیپر کی طرح پھینک دینا
پچھتاوے کے احساسات کا فقدان
حسب ضرورت بد تمیزی اور شائستگی کا استعمال۔

جرم یا غلطی کے ارتکاب کے فوراً بعد اس سے پہلے کہ کوئی ان کے جرم یا غلطی کی نشان دہی کرے فوراً دوسرے پر خاص طور پر وکٹم پر بلا جواز الزام لگا دینا۔

حد سے بڑھی خود غرضی
دوسروں کے حقوق کی شدید تلفی

سماجی، اخلاقی، و قانونی ضوابط کی پاسداری نہ کرنا بلکہ بار بار قانون کی خلاف ورزی کا ریکارڈ بنانا اور اس پر فخر کرنا۔

قانون کا احترام نہ کرنا یا قانون کی گرفت میں آ جانے سے عدم خوف
پریشانی، خوف، شرمندگی اور اداسی کا فقدان
تیمار داری، مہمان نوازی، فراخ دلی اور دوسروں کی تکلیف دور کرنے کے لیے عدم دلچسپی۔

کمزوروں، بیماروں، دکھی اور غریب لوگوں کا مذاق اڑانا اور ان کے اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کی عادات پر تنقید کرنا

حد سے بڑھی خود اعتمادی
سازشی ذہنیت اور ایذا رسانی کی ترکیبیں بنانا
چوری اور چوری چھپے لوگوں کے بارے میں معلومات لینا
وکٹم کے دشمنوں اور ناپسندیدہ دوستوں رشتہ دارو‌ں سے خفیہ دوستی
ناجائز اسلحہ کا مالک بننا
فراڈ سے رقم بنانا یا ہتھیانا
ناجائز کاروبار اور دولت مند بننے کے طریقے اپنانا۔
لالچ
منافقت
بیماری کی حد تک جھوٹ بولنا جبکہ جھوٹ بولے بغیر بھی مقصد پورا ہوتا ہو۔ Pathological lying.
نو سر بازی
ڈرامہ بازی
حد سے بڑھا ہوا حسد جس میں ظاہری اور خفیہ طور پر دوسرے کو تباہ کرنے کا خبط شامل ہوتا ہے۔
کج بحثی اور بحث میں ہار کو انا کا مسئلہ بنا کر برسوں دل میں رکھنا اور ہر صورت اس کا بدلہ لینا۔

نصیحت اور مشورے کو یہ قطعی پسند نہیں کرتے۔ لیکن اگر مجبوراً یا بھولے سے یا اشد ضرورت کے تحت کوئی انہیں نصیحت کر بیٹھے تو برسوں دل میں کینہ اور۔ بغض رکھ کر اچانک اس کا بدلہ لیتے ہیں یا فوراً اس کو پکڑ کر لڑائی جھگڑا کھڑا کر دیتے ہیں۔

جنسی شریک یا شریک حیات کے ساتھ بے وفائی
شریک حیات کی مرضی کے بنا زبردستی جنسی عمل (Marital Rape)
وکٹم کو دھمکیاں دینا
وکٹم پر قبضہ یا کنٹرول
وکٹم کے بچوں کو قابو کرنا یا چھیننا
بچے اگر اپنے ہو‌ں تو انہیں رعب اور دبدبے سے کنٹرول کرنا

یا بچوں کو خفیہ طور پر اپنے شریک حیات کے خلاف کرنا یا کان بھرنا اور کنٹرول کرنا اور شریک حیات سے دور کرنا اور دشمن بنانا۔

دوسروں کے جذبات کا خیال نہ کرنا یعنی سفاکی کا مظاہرہ کرنا۔
دوسروں کی جسمانی صحت کا خیال نہ کرنا۔

دوسروں کو کمتر جاننا، جان بوجھ کر ان کو کسی احساس جرم میں مبتلا کرنا اور ان کے احساس جرم کے جذبات سے فائدہ اٹھانا اور بار بار باور کرانا کہ تم نے یہ غلطی کی ہے۔ اس حد تک یہ باور کراتے ہیں کہ دوسرا شخص یعنی وکٹم احساس ندامت اور احساس گناہ میں مبتلا ہو کر اس سائیکو پیتھ کے مطالبات اور مفادات کو فرض سمجھ کر پورا کرتے کرتے زندگی، وقت اور پیسہ تک ختم کر بیٹھتا ہے اور یہیں سے سائیکو پیتھ کی مسرتوں کی لت کا آغاز ہوتا ہے اور پھر عمر بھر یہ احساس گناہ میں ڈبویا گیا شکار اس کے قبضے میں ہی رہتا ہے یعنی اس کی سپلائی بنا رہتا ہے۔

مزاج میں عاجزی اور انکساری کا فقدان ہونا
قانون کی دھجیاں اڑانا اور کبھی اعتراف جرم نہ کرنا
جنسی جرائم، ریپ اور اغوا کاری
جنسی ہراسانی اور قانون سے ڈرانا
خطرات سے نہ ڈرنا اور ضرورت سے زیادہ بہادری کا مظاہرہ کرنا۔
اپنے جرم کو چھپانے یا وکٹم کو کنفیوز کرنے کے لیے من گھڑت کہانیاں بنانا اور سنانا۔

ارتکاب جرم کرتے اگرچہ کسی نے ان کو دیکھ بھی لیا ہو انکار جرم پر مصر رہتے ہیں۔ بلکہ عدالت میں جھوٹے ثبوت، ریکارڈنگ، جھوٹی گواہیاں اور جعلی دستخط شدہ دستاویزات پیش کرتے ہیں۔ اور وکٹم کے دوستوں، رشتہ داروں حتی کہ اولاد کو بھی چکنی چپڑی باتوں سے اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔

کامیابی کے لیے محنت کی بجائے شارٹ کٹ اختیار کرنا۔
محبت نہ کرنے کی صلاحیت
شکار پھنسانے کے لیے سطحی رومانوی دکھاوے اور فلرٹ
کٹھور پن اور جذباتیت سے عاری پن
عدم برداشت
ماضی کی غلطیوں اور تجربات سے سبق نہ سیکھنا
اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کی وجہ دوسروں کو ٹھہرانا یعنی بلیمنگ کرنا۔
لیکن کامیابیوں کو خواہ کسی دوسرے کی وجہ سے ہوں اپنی خوبی سمجھنا یعنی کریڈٹ لینا۔
ہر شخص کو اپنے سے کمتر اور ناقابل احترام سمجھنا

وکٹم کو شریک گفتگو نہ کرنا اور اسے پہلے سے برا سلوک کر کے مشتعل کرنا کہ وہ محفل میں شریک گفتگو ہونے سے گریز کرے۔

ہر وقت پر جوش رہنے یعنی ایکسائٹمنٹ کے پلان بنانا جن میں سیر و تفریح کی خطرناک مہمات اور منصوبے جن میں زیادہ تر ان کے وکٹم کی ہی جان، صحت اور دولت اور بینک بیلنس کو خطرہ درپیش ہو۔

مضر صحت خورد و نوش
نشہ و کثرت مے نوشی
اپنے مفاد اور کام نکلوانے کے لئے خالی اور جھوٹی محبت کا اظہار کرنا اور پھر وہی تکلیف دہ روئیے۔
سوال ہے کہ سائیکو پیتھ کی ظاہری شکل اور انداز کیسے ہوتے ہیں؟
یہ لوگ سطحی طور پر پر کشش نظر آتے ہیں۔
بہت پر اعتماد نڈر اور بہادر اور سطحی طور پر دکھاوے کے لیے ملنساری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
لیکن وکٹم کو ڈرانے کے لیے جارحانہ رویہ بھی اپنا لیتے ہیں۔
موقع کی مناسبت سے نظریہ، گفتگو اور انداز بدل لیتے ہیں۔
برانڈڈ اشیاء اور کپڑے استعمال کرتے ہیں اور بار بار لوگوں کی توجہ اس طرف مبذول کراتے ہیں۔

ان کی گفتگو میں بازار، بازار میں آنے والی نئی مصنوعات اور گاڑیوں اور ریستورانوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے اور یہ سب گفتگو اپنے آپ کو امیر، ماڈرن اور زیادہ ایکسپوژر والا ثابت کرنا ہوتا ہے۔

لیکن اگر ضرورت ہو تو مفاد اور مقصد حاصل کرنے کے لیے غربت کا ڈھکوسلہ کرتے ہیں یعنی Poor Card استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
کمرے، یا محفل میں داخل ہوتے وقت سینہ تان کر چلتے ہیں۔

لیکن صورت حال مختلف بھی ہو سکتی ہے۔ یہ خاموشی سے لوگوں کی توقع سے پہلے چھپ کر کمرے میں ہونے والی گفتگو بھی سنتے ہیں اور دبے پاؤں کمرے میں داخل ہوتے ہیں خاص طور پر اگر وکٹم بھی پہلے سے کمرے میں موجود ہو۔

ان کی طوالت لیے ہوئے گھورنے کی عادت جس سے دوسرا شخص بے آرا می اور بے چینی محسوس کرے۔ یا اس کے برعکس نظریں چرانا اور بار بار گردن گھما گھما کر دائیں بائیں دیکھنا خاص طور پر اگر وکٹم بھی موجود ہو۔

ان کی آنکھیں سپاٹ اور جذبات سے عاری ہوتی ہیں۔ اور مسلسل گھورنے کی عادت کے ساتھ انہیں پہچانا جا سکتا ہے۔

جان بوجھ کر بہت آہستہ اور دھیمی آواز میں اپنے وکٹم کو ایسی بات کہہ دینا جو یقیناً اس کے مشتعل ہونے کا سبب بن سکے اور جس کے نتیجے میں وکٹم غصے میں آ جائیے، جارحانہ رویہ اختیار کر لے جس کو دوسرے لوگ بھی دیکھ سکتے ہوں۔ ایسے میں لوگ بھی صرف مشتعل ہونے والے وکٹم کو ہی مورد الزام ٹھہرائیں گے اور مشتعل کرنے والا بہ آسانی بچ جائے گا۔ اور مسلسل اشتعال انگیزی کا شر وکٹم کو مسلسل پریشانی، انیگزائٹی، ڈپریشن اور دیگر ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں اس طرح مبتلا کر دیتا ہے کہ وکٹم بھی خود کو نا اہل، اور قصور وار سمجھنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ مجرم اس کو ذہنی مریض بنا کر سب کو باور کراتا ہے کہ یہ تو ہے ہی ذہنی مریض۔ ان مجرمانہ بیمار لوگوں کا وکٹم خاص طور پر اگر شریک حیات ہو تو ہر وقت بولتا، چیختا چلاتا ہے کیونکہ وہ اس کی دی ہوئی اذیت کو لفظوں میں بیان نہیں کر سکتا۔ اور ستم یہ کہ وکٹم کے ہمدرد بھی وکٹم کو ہی قصور وار سمجھتے ہیں۔

سوال ہے کہ یہ لوگ اپنی زندگی کے سماجی رول کس طرح نبھاتے ہیں۔ کیا ازدواجی بندھنوں میں بندھتے ہیں، بچے پیدا کرتے ہیں، اور پیشے اپناتے ہیں؟

سائیکو پیتھ کے سماجی رول اور ان کے رویوں کی مثالیں :
ازدواجی بندھن اور سائیکو پیتھ :

سائیکو پیتھ شادی کے بندھن میں بندھ بھی جاتے ہیں لیکن ان کی شادیاں بھی ان کی مریضانہ سوچ کے تابع ہوتی ہے۔ شادی کے ذریعہ دولت کا حصول، شہرت اور سماجی رتبہ میں اضافہ اور سماجی و سیاسی مقاصد شامل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ عموماً اپنی حیثیت سے زیادہ اونچے لوگوں میں رشتے کرتے ہیں۔ ظاہری خوبصورتی، اعلی عہدہ اور جائیداد کا حصول رومانوی تعلقات سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ سائیکو پیتھ اگر اس میں نرگسیت بھی ہو تو اپنے ہی شریک حیات سے حسد کرنے لگتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں جسمانی تشدد، مار پیٹ، اور طرح طرح سے ذہنی اذیت اور بچوں پر مکمل کنٹرول اور قبضہ یہاں تک کہ سائیکو پیتھ اپنے بچوں کو حسد کی وجہ سے ماں /باپ کے خلاف اس حد تک بھڑکاتے ہیں کہ بچے اپنی ہی ماں /باپ کے جانی دشمن تک بن جاتے ہیں۔

سائیکو پیتھ کے اس حسد کی تکون کو سائیکو پیتھ، بچے اور شریک حیات بناتے ہیں۔ سائیکو پیتھ اپنے شریک حیات کو بچوں کے ذریعہ شدید ذہنی اور جذباتی اذیت اس طرح سے پہنچاتے ہیں کہ اپنے بچوں کی زندگی اور اخلاق و کردار اور صحت بھی داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ یہ ایسے سانپ ہوتے ہیں کہ بچوں کو بھی کھا جاتے ہیں۔ کلینک اور کلینیکل سائیکو لوجی میں شریک حیات کو اذیت پہنچانے کے مختلف مظاہر سامنے آتے ہیں مثلا:

ایک عورت جو اپنے شوہر کی اذیتوں کا اس حد تک شکار ہو گئی کہ وہ ذہنی مریض بن گئی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا شوہر جب بچے چھوٹے تھے تو انہیں بیمار پڑنے پر علاج نہیں کروانے دیتا تھا۔ اور بیمار بچوں کو دیکھ کر خوش ہوتا تھا۔ اور مسکرا کر اپنی بیوی کو چھیڑتا تھا کہ تم جب بیمار بچے کو دیکھ کر پریشان ہوتی ہو تو مجھے سکون ملتا ہے۔ وہ خاتون مریضہ بتاتی تھی کہ اس کے بچے کو پیٹ میں کسی پیدائشی بیماری کی وجہ سے ایسی تکلیف تھی کہ وہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکتا تھا یہ بارہا اسے کہتی تھی کہ بچے کو سکول چھوڑ آؤ تو اس کا شوہر یہ کہہ کر انکار کر دیتا کہ اس کو پیدل چلا چلا کر ماروں گا تاکہ تم اولاد کا غم دیکھو۔

مزید یہ کہ جب ڈاکٹر نے اسے مونگ پھلی کی الرجی کی وجہ سے مونگ پھلی سے پرہیز بتائی تو یہ جان بوجھ کر ڈھیروں مونگ پھلی لاتا اور بچے کو کھانے پر مجبور کرتا۔ بچے کی سرجری پر یہ ساتھ نہیں تھا۔ اسی طرح وہ کئی بار جب بچہ چھوٹا تھا تو اس پر تکیہ رکھ کر سانس بند کر کے مارنے کی کوشش کی۔ اور یہی کوشش اس نے بیوی کے ساتھ کی اور بعد میں یہ کہہ کر چھوٹا کہ یہ اس نے مذاق میں کیا۔ وہ بیوی اور بیمار بچے پر تشدد اس وقت کرتا جب وہ زیادہ بیماری کی حالت میں ہوتے۔

مثلاً جب کئی بار بیوی بخار میں مبتلا ہوتی تو وہ گھر سے غائب ہو آتا اور بیوی جب شکوہ اور مطالبہ کرتی کہ تمہیں میری بیماری میں گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا چاہیے تھا تو وہ سفاکانہ طور پر ان سنی کر کے باہر نکل جاتا حتی کہ بیوی تیز بخار میں بھی گھر کے کام کرتی، برتن دھونا، لانڈری اور صفائی وغیرہ بھی بخار اور کسی جسمانی تکلیف میں کرواتا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں ایک غلام اور لونڈی کی طرح کام کرتی حتی کہ میں شدید ذہنی اذیت کے علاوہ مختلف لا علاج بیماریوں میں مبتلا ہو گئی۔ یہ مریضہ مزید بتاتی تھی کہ اس کے شوہر نے کبھی بھی اس کا حال نہیں پوچھا اور اگر وہ اپنی بیماری کے پیش نظر کوئی پرہیزی کھانا اپنے لیے بناتی تو وہ کھانے کی دیگچی میرے کھانے سے پہلے ہی کوڑے میں پھینک دیتا۔

اور یہ مزید بتاتی تھی کہ میرا شوہر مجھ سے توقع رکھتا تھا کہ میں گھر کو ہر وقت صاف ستھرا رکھوں اور میں اپنے شوہر کی تابع داری میں صبح سویرے سے رات گئے تک بیل کی طرح کام میں جتی رہتی پھر بھی شوہر آتے جاتے فرنیچر کو ہاتھ لگا کر چیک کرتا کہ کہیں گرد تو نہیں۔ اور پھر چلاتا اور بچوں کے سامنے میری بے عزتی کرتا۔ کام کاج میں مصروفیت کی وجہ سے مجھے اپنے آپ کی ہوش نہ رہتی اور اس بات پر میرا شوہر مجھے میرے گندے کپڑوں پر چلاتا اور اگر میں اپنی ظاہری حالت سنوار لیتی تو میری کردار کشی کرتا کہ یہ بن سنور کر کس کو دکھانے کے لیے ہیں مجھے تو تم سے کسی صورت دلچسپی نہیں ہے۔ میں ذہنی اور جسمانی طور پر بیمار ہونا شروع ہو گئی اور ڈاکٹرز نے بتایا کہ مجھے ہائی بلڈ پریشر اور دل کا عارضہ لاحق ہو چکا ہے۔ جوں ہی اس کو علم ہوا اس نے مجھ پر جسمانی تشدد بڑھا دیا۔

اس خاتون نے بتایا کہ میرا شوہر مجھے ڈرائیونگ نہیں سیکھنے دیتا تھا تاکہ میں خود مختار نہ ہو جاؤں حالانکہ مجھے گروسری لانے اور بیمار بچے کو سکول لانے لے جانے کے لیے اس کی اشد ضرورت تھی گھر کے کام جو غلامو‌ں کی طرح میرے ذمہ تھے ان کے علاوہ باہر کے کاموں کے لیے پیدل چل چل کر میرے کولہے کی ہڈی بری طرح متاثر ہوئی اور میں چلنے پھرنے سے قاصر ہوئی تو میں لنگڑا کر چلنے لگی۔ تو یہ مجھے لنگڑی کہہ کر پکارتا اور بے خوف ہو کر کہتا مجھے خوشی ہے کہ تم معذور ہو گئی ہو۔ جب مجھے ڈاکٹر کے ہاں یا ہسپتال جانے کی ضرورت پیش آتی تو یہ کبھی ہسپتال میں میرے ساتھ نہ ہوتا اور جب گھر واپس آتی تو بہت گھٹیا پن سے کہتا کہ اپنے یار دوستوں سے مل آئی ہو؟ اور رفتہ رفتہ اس نے بچوں کے سامنے بھی میری کردار کشی شروع کردی اور ان کو کہتا کہ یہ بیمار نہیں ہے ڈاکٹروں سے ملنے جاتی ہے

ہسپتال سے واپسی پر صرف کردار کشی کا دکھ ہی نہیں بلکہ شدید بیماری کے باوجود گھر کے کاموں کی ڈیوٹی سنبھالنی پڑتی

کیونکہ کچن میں کئی دنو‌ں کے برتن اور کوڑا جمع ہوتا جو مجھے ہی اٹھانا ہوتا۔ یہ کبھی مجھے بچوں کے سامنے نہیں مارتا تھا۔ بلکہ ان کی غیر موجودگی میں تشدد کرتا اور اس وقت بھی نہ چوکتا جب تیز بخار میں بھی مبتلا ہوتی اور ایسے میں جنسی تعلقات بھی زبر دستی کرتا۔ حالانکہ ڈاکٹر نے مزید بچے کی پیدائش کو میری زندگی کے لیے خطرہ قرار دیا تھا۔ جب میں یاد دہانی کراتی تو یہ کنڈوم کے استعمال کے بغیر ایسا کرتا اور بعد میں سفاکانہ طریقے سے مسکراتے ہوئے کہتا کہ اب بچے پیدا کر کے جلدی مرو گی انشااللہ

اسی طرح بچوں کی بیماری کو بھی معمولی بات کہہ کر ڈاکٹر سے رجوع کرنے کے لیے منع کرتا۔

یہ خاتون کہتی ہیں کہ چونکہ میں بہت خوبصورت تھی۔ ابتدا میں تو وہ میری تعریفیں کرتا لیکن جب اسے مجھ سے بہت سے مالی فائدے حاصل ہو گئے اور میری صحت بھی خراب ہو گئی تو اس نے مجھ پر زیادہ تشدد کرنا شروع کر دیا اور میرے کردار پر الزام لگا کر بچوں کو بھی میرے خلاف کر دیا۔ اور بچے بھی اس کے ساتھ مل کر میرے خلاف محاذ میں شامل ہو گئے اور تب میں گھر سے نکل کر بذریعہ پولیس شیلٹر ہوم پہنچی۔

اسی طرح ایک خاتون ذہنی مریض بن کر کلینک میں آ کر بتاتی ہیں کہ ان کا شوہر بہت معمولی بات پر اس کی گردن پر بہت زور سے چٹکی کاٹ کر مروڑ ڈالتا کہ وہ شدید تکلیف اٹھاتی۔ جونہی کوئی بچہ کمرے میں داخل ہوتا وہ فوراً اس اذیت ناک روئیے کو محبت میں بدل کر دکھاوا کرتا اور ایسے ظاہر کرتا کہ جیسے وہ اپنی بیوی کی گردن کا مساج کر رہا ہے۔ اور یہ کہ دن میں کئی بار مذاق میں دوسری شادی کرنے کی دھمکی دینا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

ایک دوسری کلینکل مثال میں ایک خاتون نے بتایا کہ اس کا شوہر اس کے بچوں کو ریسٹورنٹ لے جاتا مگر مجھے کبھی ساتھ نہ لے کر جاتا۔ وہاں ریستوران میں بچوں کو ماں کے خلاف بھڑکاتا اور اپنے آپ کو مظلوم اور ستم زدہ ثابت کرنے کے لیے بیوی کے ظلم و ستم کی من گھڑت داستانیں سناتا۔ اور وہ تمام رقم اور جائیداد جو اس نے بیوی اور سسرال سے ہتھیائی تھی بچوں کو بتاتا کہ یہ میری محنت سے بنی ہے۔

سوال ہے کہ اگر سائیکو پیتھ اپنے شریک حیات کی صحت کا خیال نہیں رکھتے تو کیا وہ خود کا خیال بھی نہیں رکھتے؟

سائیکو پیتھ دہرے معیاروں کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔ وہ خود بیمار ہو جائیں تو اپنے آرام، علاج اور خوراک کا خوب خیال رکھتے ہیں دوسروں سے توقع ہی نہیں زبردستی خدمت کرواتے ہیں۔ لیکن اپنے شریک حیات سے بیماری میں بھی کام جاری رکھنے کو کہتے ہیں شاید یہ اس لیے ہو کہ ان میں انسانی ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔

سائیکو پیتھ اور مہمان نوازی:
سائیکو پیتھ کی حد سے بڑھی خود پسندی اور Grandiosity in self worth کی وجہ سے یہ مہمان کی صورت میں نہ صرف توقع رکھتے ہیں بلکہ دھونس اور تکبر کے ساتھ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں وی آئی پی اعزاز ملے لیکن میزبان کی صورت میں یہ نگاہیں ماتھے پر رکھ لیتے ہیں جیسے جانتے ہی نہیں اور عموماً کوئی والہانہ پن ظاہر نہیں کرتے بلکہ جان بوجھ کر ایسے رویے دکھاتے ہیں کہ مہمان جلدی رخصت ہونے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مہمان بن کر یہ میزبان کو بھی کونے پر لگا دیتے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ مالک ہیں۔ ہیں اور میزبان کی صورت میں کولڈ شولڈر دیتے ہیں۔ لیکن صورتحال اس کے بر عکس یوں بھی ہو سکتی ہے جب کوئی امیر اور صاحب حیثیت شخص ان کے ہاں مدعو ہو۔ بلکہ یہ بڑی اعلی حیثیت کی شخصیات کو محض مفاد کے لیے مدعو کرتے ہیں تب یہ پر تکلف عشائیہ دیتے ہیں اور ان کی سخاوت اور میزبانی شاندار ہوتی ہے۔

ایک اور پیٹرن یا کرداری نمونہ ان میں ملتا ہے کہ یہ جب کسی عزیز رشتہ دار کے ہاں ملنے جاتے ہیں تو بتائی ہوئی تاریخ اور وقت سے پہلے ہی پہنچ جاتے ہیں اور جس وقت اور تاریخ کو واپسی کا بتاتے ہیں اس سے زیادہ دن قیام کرتے ہیں اور اکثر مطلع کئیے بغیر آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

کیا سائیکو پیتھ کسی کے کام آتے ہیں یا فلاحی کام کرتے ہیں؟

سائیکو پیتھ فطرتاً ہرگز بھی اوروں کے کام آنے کے فلسفے پر یقین نہیں رکھتے۔ البتہ مفادات کی خاطر بڑی منافقت سے سطحی طور پر لوگوں کی فلاح اور انسانوں سے محبت کے بلند و بالا نعرے لگاتے دکھائی دیتے ہیں اور لوگوں کو بے وقوف بناتے ہین۔ اور اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔ اور یہی مریضانہ ذہنیت ہمارے معاشرے کا اجتماعی عکس ہے۔

سائیکو پیتھ اور دوستی:

دوستی، رومانس اور محبت ان کا خمیر نہیں البتہ یہ اپنے ویسٹد انٹرسٹ اور پاور شو کے لیے دوستیاں کرتے ہیں مگر آسانی سے لوگوں کو مکھی کی طرح نکال کر الگ ہو جاتے ہین

دوستی کے بارے میں ان کا عمومی کردار بھی سبو تاژ کرنا ہوتا ہے۔ اور یہ اس محرک کے زیر اثر یہ لوگ دو دوستوں، رشتہ داروں بہن بھائیوں حتی کہ اپنی اولاد پر بھی ڈیوائڈ اینڈ رول Divide and Rule کے نظریے سے زندگی جیتے ہیں۔

ان کا یہ تخریبی رویہ زیادہ تر گھریلو معاشرت میں اس طرح نظر آتا ہے کے یہ کسی اور کی شادی پر خوش نہیں ہوتے لہذا شادیاں تڑوانے اور طلاق کروانے میں یہ ماہر ہوتے ہیں۔ ان کا یہ رویہ ایک خاص نمونے یا پیٹرن پر ہوتا ہے کہ پہلے شادی تڑواتے ہیں اور پھر ان ہی پر دست شفقت رکھتے ہیں اور ایک فریق کو شکار کر کے اپنی ہمدردیاں ظاہر کر کے اس کو اپنے ساتھ ملا کر اپنی حکمرانی کی خواہش پوری کرتے ہیں اور دوسری طرف دوسرے فریق کو قریب نہیں آنے دیتے مبادا کہ ان توڑ پھوڑ کے کارناموں کی قلعی نہ کھل جائے۔ یہ دو بہنوں، دو بھائیوں، دو دوستوں اور دو کولیگز کو آپس میں لڑوا کر ہمیشہ کے لیے دور کروا کر تماشا دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ حتی کہ بچوں کو ماں سے یا باپ سے دور کرنے کی کوششوں میں طویل عرصے تک تگ و دو کرتے ہیں اور بالآخر کامیاب ہو جاتے ہیں۔

ان کے ساتھ گفتگو کی جائے تو طلاق ان کا پسندیدہ موضوع ہوتا ہے اور طلاق کی خبریں ان کا مصالحہ دار اور مرغوب خبر نامہ ہے۔ طلاق اور گھر ٹوٹنے کی خبر سے انہیں تھرل اور ولولہ ملتا ہے۔ جو انہیں مزید توڑ پھوڑ پر اکساتا ہے۔ یو‌ں اس طرح کی سلسلہ وار توڑ پھوڑ ان کے سیریل کلر کہلانے کا موجب بنتی ہے۔

سائیکو پیتھ اور ہمسائیگی کے حقوق:

دوسرے کے حقوق خواہ وہ اپنے بہت قریبی ہوں یہ ان کا احساس نہیں کرتے کجا کہ ہمسائے کے حقوق۔ بلکہ سائیکو پیتھ اپنے ہمسایوں کے لیے بھی اذیت ناک ہوتے ہیں۔ مثلاً ہمسائے کے گھر کے گیٹ یا ڈرائیو وے پر جان بوجھ کر اور بلا اجازت گاڑی کھڑی کرنا، ہمسائے کے دروازے کے سامنے کوڑا پھینکنا وغیرہ۔ پاکستان میں عید قربان پر پڑوسی کے گھر کے سامنے قربانی کے جانوروں کی آلائشیں پھینکنا اسی مجرمانہ بیمار ذہنیت کی عکاسی ہے۔ رات کو گیٹ کھلوانے کے لیے ہارن بجانا۔ وغیرہ۔

سائیکو پیتھ کے فنانشل پلاننگ کے بارے میں عمومی رویے کیا ہوتے ہیں؟

سائیکو پیتھ کے بارے میں یہ بات تو طے ہے کہ دولت کا حصول ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے جس میں راتوں رات امیر ہونا اور بہت امیر ہونے کی شدید خواہش ان کو ناجائز ذرائع سے دولت سمیٹنا بھی شامل ہے خواہ وہ دولت شادی کے ذریعہ ہو، ناجائز قبضہ، جہیز، منشیات یا کچھ بھی۔ اگرچہ ان کے پاس اچھی تعلیم، اور اعلی روزگار بھی ہوتا ہے لیکن اور اور اور کی خواہش انہیں بے چین رکھتی ہے۔

اب سوال ہے کے دولت کے خرچ کے لیے ان کا رویہ کیسا ہوتا ہے۔ تو اس کا جواب ہے کہ یہ اپنے لیے شاہ خرچ اور دوسروں کے لیے انتہائی گھٹیا پن کی حد تک کنجوس ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنی اولاد کی جان اور صحت کا معاملہ بھی ہو تو یہ خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ انکار کرتے ہیں۔ اگر یہ شادی شدہ ہوں تو اپنے بچوں کے لیے اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے اور مستقبل میں ان کی اعلی تعلیم کے لیے پس انداز کرنے کے بجائے بہت بڑے اور پر تعیش گھر بنا کر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اور یہ معاملہ ان کی انا کا مسئلہ بن جاتا ہے جب ان کا شریک حیات ان کے بچوں کے اچھے تعلیمی اداروں میں داخلے اور اعلی تعلیم کا خواہشمند ہو۔ یہ بہت سختی سے اس کی خواہش کو ٹھکرا کر بہت بڑے مکان پر انویسٹمنٹ کر کے ہی دم لیتے ہیں تاکہ شریک حیات کی خواہش کے مطابق بچوں کی اچھی سکولنگ کے راستے بند ہو جائیں اور اس طر‍ح انہیں اپنے شریک حیات کی نا تمام حسرت کو دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ مستقبل کے لیے جھوٹے مالی وعدے اور دلاسے بھی دیتے ہیں۔

کیا سائیکو پیتھی مردوں میں زیادہ ہے یا عورتوں میں۔ ؟

جواب ہے کہ زیادہ تر مردوں میں یہ پرسنیلٹی ڈس آرڈر پایا جاتا ہے لیکن نفسیات کی رصدگاہ سے اور لٹریچر میں عورتوں کی کی بڑی تعداد اس مرض میں مبتلا ہوتی ہے۔

کیا سائیکو پیتھ مذہب اور روحانیت سے وابستگی رکھتے ہیں؟

جی ہاں ان کی مذہب سے وابستگی دیکھی جاتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں دو قسم کے لوگوں پر نظر ڈالنی ہوگی:

ایک وہ جو کسی مذہب، عقیدے یا فرقے کے پیرو کار ہوتے ہیں۔
دوسرے وہ جو کسی مذہب یا عقیدے کے سربراہ یا لیڈر ہوتے ہیں۔

اول قسم ان لوگوں کی ہے جو اپنے جرائم اور مجرمانہ خصائل اور گناہوں کو کیمو فلاژ کرنے کے لیے مذہب کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں۔ بہت نیک، نمازی، عقیدت مند اور مذہبی تنظیموں کو بھاری رقم مالی قربانی کے طور پر دینے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور ان کے ترقیاتی کاموں کو سپانسر کرتے ہیں تاکہ وہ بوقت ضرورت سربراہان مذہب کی مدد حاصل کرسکیں اور یہ مدد قانونی مشکلات میں گھرنے کے بعد مذہب سے نیکی کا لائسنس جاری کروانے کے لیے حفظ ماتقدم کے طور پر ہوتی ہے۔

اور یوں سائیکو پیتھ مذہب کی آڑ میں جرم کے ذریعہ دنیا کمانے کا گر خوب جانتے ہیں۔ اور منافقت اور دہرے معیار ان کی زندگیوں کا خاصہ ہیں۔ یہ اپنے گناہوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے دوسروں کی کمزور عقیدت اور کم وابستگی کی طرف اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی توجہ دلا دلا کر انہیں ڈراتے ہیں۔ دراصل اسی قسم کے سائیکو پیتھ ہر مذہب اور فرقے کے مددگار ایجنٹ ہوتے ہیں جو کسی فرقے یا عقیدے کے فروغ میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ غالباً مذہب کی آڑ سائیکو پیتھ کو کیمو فلاج کرنے کی ایک محفوظ تکنیک ہے۔ درحقیقت سائیکو پیتھ کا روحانیت سے قطعی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔

دوسری قسم ان لوگو‌ں کی ہے جو سربراہان مذہب یا عقیدے کے پیشوا ہوتے ہیں۔

یہ سو کالڈ پیشوا لوگ پہلے لوگوں میں خوف پیدا کرتے ہیں کہ انسانیت کے تمام دکھوں کا مداوا ہمارے عقیدے میں ہے۔ اور خدا صرف ان کی مذہبی دکان پر دستیاب ہے اور ان کے سب دکھ دور ہو جائیں گے اگر وہ ان کے پیرو کار بن جائیں گے۔ ان کے درس اور خطبوں میں اخلاقیات پر زور دینے سے زیادہ مالی قربانی کی ترغیب پر زیادہ زور دیا جاتا ہے اور یہ برکت کا کارڈ کھیلتے ہیں۔ اور لوگوں کو سادہ زندگی گزارنے، قناعت، صبر، شکر اور تقدیر الہی کے نوالے کھلا کر ثواب کا بہلاوا دے کر ان کی تمام جمع پونجی کو مالی قربانی کے ڈبے میں ڈالنے کی ترغیب دیتے ہیں اور ڈرے، سہمے اور بیماریوں سے تنگ لوگ اپنی خون پسینے کی کمائی بلا کسی احتساب کے ان کی جھولی میں دان، چڑھاوا، نذرانہ اور فلاحی کاموں کے لاتعداد کھاتوں میں ڈال آتے ہیں اس امید پر کہ اب اللہ اس چڑھاوے اور مالی قربانی کی برکت سے ان کے تمام مالی امور سنبھالے گا۔ یہ براہ راست کسی ضرورت مند اور قریبی رشتہ داروں کی مدد کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ رقم ان کے ڈبے میں ڈالی جائے گی تو ثواب ملے گا۔

کیا اس قسم کے سائیکو پیتھ خود سادگی، قناعت اور سادہ زندگی کے زریں اصولوں پر کاربند ہوتے ہیں؟

نہیں بالکل نہیں۔ ان کی شاہانہ زندگیوں کو ایک عام آدمی بھی دیکھ سکتا ہے مگر بے برکتی کے خوف سے وہ بول نہیں سکتے اور سائیکو پیتھی کا یہی اجتماعی رویہ ہے جو یا تو بے وقوف لوگوں کو نظر نہیں آتا یا نظر تو آتا ہے لیکن وہ آواز نہیں اٹھاتے کیونکہ انہیں خود اپنے سائیکو پیتھ رویو‌ں کو چھپانے کے لیے اس پناہ گاہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور درمیانی طبقہ اپنے مسائل میں اتنا گھرا ہوتا ہے وہ اندھی عقیدت کے ساتھ ان کے عقیدت مند بنے رہتے ہیں اور ان اجتماعی سائیکو پیتھ کی لذتوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ اور سائیکو پیتھ کی یہی ضرورت ہوتی ہے، دولت، شہرت، حکمرانی اور شاندار زندگی۔

یہ مذہبی رہنما لوگوں سے جان کی قربانی بھی لینے سے دریغ نہیں کرتے۔ اپنے غریب پیرو کاروں سے جانی قربانی اور امیر پیرو کاروں سے مالی قربانی مانگتے ہیں۔ کبھی آج تک یہ نہیں سنا مذہب کی آڑ میں کام کرنے والے سائیکو پیتھ کے گھروں پر مذہبی منافرت کی بناء پر حملے ہوئے ہوں یہ حملے ان کے غریب مریدوں پر ہوتے ہیں۔ پھر یہ مذہب کے نام پر قتل ہونے والوں کے لواحقین کی مالی معاونت اور وظیفے لگا دیتے ہیں جو پھر تمام عمر ان کی سپلائی بنے رہتے ہیں۔

لوگو‌ں کے خوف اور اندھے اعتقاد سے فائدہ اٹھانے والے کچھ اور قسم کے سائیکو پیتھ بھی دیکھے جا سکتے ہیں جو فراڈ کے ذریعہ دولت مند بنتے ہیں ان میں جعلی پیر، جادو ٹونے کرنے والے، وظائف بتانے والے اور جعلی اللہ والے۔

یہ رویہ صرف مذہب میں ہی نہیں بلکہ کسی بھی سیاسی اور سماجی وابستگی میں بھی بعینہ موجود ہوتا ہے جہاں کرپٹ سیاستدان اپنی مجرمانہ شخصیت کے بل پر نڈر ہو کر جاہل اور عقیدت مند عوام کے بنیادی انسانی حقوق کو غصب کر کے انہیں غربت، بیماری، جہالت کے دکھوں میں مبتلا کر کے ذہنی، معاشرتی اور جسمانی طور پر مفلوج کر کے بھی پرسکون رہتے ہیں۔ اور یوں پورا معاشرہ ایک بیمار معاشرہ بن جاتا ہے جس کی بہترین مثال پاکستانی معاشرہ ہے ان۔

اب سوال ہے کہ کیا ان کا علاج مذہب یا اخلاقیات کے اصول سکھا کر ممکن ہے؟

مذہب کے پاس علاج ہوتا تو ان کو شیطان گردان کر ان سے پناہ نہ مانگی جاتی۔ یعنی ان سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ لیکن ان کی فطرت بدلنے کا کوئی اصول اور علاج نہیں ملتا۔

اخلاقیات اور ضمیر جیسی نعمت سے محروم لوگ اخلاقیات کے اصولوں جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں سائیکو پیتھ کے دماغوں میں ان کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدائشی طور پر مفقود ہوتی ہے اور اگر وراثت اور تربیت میں بھی بے رحمی، کٹھور پن، سفاکی کے نمونے اور انسان دشمنی سکھانے کا بندوبست اور رول ماڈل ہوں تو کسی طور پر توقع نہیں کی جا سکتی کہ یہ لوگ درست ہو سکیں گے۔ ورنہ جیلوں میں یہی مجرم پانچ وقت نمازیں پڑھنے اور درس سننے کے بعد رہائی پاکر دوبارہ مجرمانہ سرگرمیو‌ں میں ملوث نہ ہوں کیونکہ معافی، توبہ اور جرم سے بچنا ان کے اختیار میں نہیں ہوتا۔

کیا سائیکو پیتھ جب انہیں علم ہو جائے کہ وہ پکڑے گئے ہیں یا دوسروں کو ان کے منصوبوں اور رویوں کا علم ہو گیا ہے تو وہ احساس جرم، ندامت اور شرمندگی میں مبتلا ہوتے ہیں؟

نہیں ہرگز نہیں۔ شرمندگی، احساس جرم یا ندامت ان کی فطرت میں نہیں ہوتا۔ البتہ اس بات سے انہیں فرسٹریشن ہوتی ہے کہ ان کا یہ منصوبہ ایذا رسانی ناکام ہو گیا۔ یہ ناکامی انہیں قابل قبول نہیں ہوتی۔ وہ پہلے سے زیادہ اور مختلف طریقہ ایذا رسانی کی تلاش میں حکمت عملی بناتے ہیں۔

ان مجرم بیماروں کا علاج کس طرح ممکن ہے؟

اگرچہ سائیکو پیتھ کبھی علاج کے لیے آمادہ نہیں ہوتے وہ مان کر نہیں دیتے کہ وہ ذہنی مریض ہیں بلکہ وہ مررنگ کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے دوسروں کو ذہنی مریض ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنا علاج اس لیے بھی نہیں کرواتے کہ کہیں ان کے جرائم کا پنڈورا بکس نہ کھل جائے۔ اور دوسرے یہ کہ سائیکو پیتھ طویل علاج کو برداشت نہیں کر سکتے یا اگر علاج شروع بھی کر دیں تو وہ بھی دکھاوے کے لیے ہوتا ہے۔

سائیکو پیتھ اور دیگر پرسنیلٹی ڈس آرڈرز کے علاج کے لیے موہوم سے امید سائیکاٹری کی سائنس سے ملتی ہے جہاں ایک طویل مدت ٹریٹمنٹ پلان بنا کر سائیکو تھیراپی، سوشل ورک اور قانون کی مدد سے علاج کے لیے کوشش کی جا سکتی ہے۔

ادویات بھی ان پر کارگر ثابت نہیں ہوتیں کیونکہ ان کی شخصیت قدرتی طور پر ایسی ہوتی ہے۔ البتہ اگر ان میں دیگر ذہنی امراض کی علامتیں بھی ہوں مثلاً ڈپریشن، اینزائٹی اور خبط وغیرہ تو ان امراض کی علامتوں کو ضمنی طور پر دور کرنے کے لیے ادویات کا استعمال کروایا جاتا ہے۔

اس سے بھی قبل گھر کا ماحول، رول ماڈل اور مستقل مزاجی سے والدین کے دوستانہ روئیے، تربیت کے دوران انسانی ہمدردی کی اعلی مثالیں قائم کرنا۔ والدین کا آپس میں بہترین حسن معاشرت اور بچے کی تربیت میں ایک پیج پر ہونا، لڑائی جھگڑوں سے گریز، گھر کے ماحول میں سے ٹاکسک رویوں کو ختم کرنا۔ منافقت اور جھوٹ سے گریز کے عملی نمونے اور ماں باپ کا بچوں کو یہ باور کرانا کہ اس کے لیے لازم ہے کہ وہ دونوں سے یکساں پیار اور عزت کرے۔

ورنہ اگر ایک شریک حیات اپنے بچے کو دوسرے شریک حیات کے خلاف بھڑکانے کے عمل میں سرکرداں ہے تو بچے پہلے کنفیوز ہوتے ہیں پھر وہ بھی نفرت، حسد اور دشمنی کی جنگ میں فریق بننے کی دوڑ میں شامل ہو جاتے ہیں اور بڑے ہو کر ان کا مجرم بننا بعید نہیں۔ نفسیات کی رصدگاہ سے یہ دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ سائیکو پیتھ اپنے بچوں کو بھی مجرم بنانا پسند کرتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔

کوئی بعید نہیں کہ مستقبل میں کرمنل ریکارڈ چیک کے علاوہ نفسیاتی ٹیسٹ اور سائیکاٹرسٹ کے سرٹیفیکیٹ کو لازمی قرار دیا جائے جو ملازمت اور خاص طور پر شادی سے پہلے مجرم اور مجرم کے خاندان کی اسکریننگ کے لیے مفید ثابت ہو اور معاشرہ کسی حد تک نفسیاتی آلودگی اور ہراسانی سے بچ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments