حشرات الارض اور بنی نوع انسان (1)


حشرات کروڑوں سالوں سے اس کرہ ارض پر موجود ہیں اور انسان کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ اب تک ان کی لاکھوں انواع دریافت ہو چکی ہیں اور یہ اربوں، کھربوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں اڑنے اور رینگنے والے کیڑے مثلاً مچھر، مکھی، بھڑ، لال بیگ، تتلیاں، شہد کی مکھی، ریشم، کھٹمل، پسو، سست تیلا، چست تیلا، گلابی سنڈی اور دیمک شامل ہیں۔ ان میں سے چند ہزار ایسی اقسام ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ہیں لیکن بیشتر اقسام بہت سے فوائد مہیا کرتی ہیں، حشرات پولی نیشن میں اہم کردار کرتے ہیں۔ دوسرے جاندار انھیں بطور خوراک استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ مٹی کو زرخیز بنانے، ضرر رساں کیڑوں کے تدارک، انسانی فضلہ و مردہ جانوروں کو تلف کرنے اور ہمارے ایکو سسٹم کے تو اذن کو برقرار کھنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

لیکن!

انسان نے کبھی بھی انھیں اپنا دوست نہیں سمجھا اور صدیوں سے ان کو اپنا ہدف بناتے ہوئے ان کے خلاف جنگ کر رہا ہے۔ فتح کی آس اور کیڑوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں انسان نے نت نئے طریقے اختیار کیے اور اپنی مشکلات میں اضافہ کرتا چلا گیا۔ بیسویں صدی میں چند ایسی حشرات کش ادویات استعمال کی گئیں جن سے کیڑوں میں مدافعت پیدا ہوئی اور مسائل میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ حالات اس قدر تشویشناک ہو گئے ہیں کہ اب انھیں کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اور یہ نسبتاً زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں۔

اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو آج مچھر، مکھی اور لال بیگ ہر گھر میں پائے جاتے ہیں۔ ان کے تدارک کے لئے آئے دن مارکیٹ میں نئے کیمیکل متعارف کروائے جا رہے ہیں جن سے مضر اثرات کی شرح میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے مزید یہ کہ ان حشرات کی قوت مدافعت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ کیمیکل سے تدارک تقریباً ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر فرخندہ منظور نے ایک انٹرویو میں اس متعلق کہا تھا کہ

” ہم نے کیمیکل کے استعمال کے سلسلے میں سروے رپورٹس تیار کروائیں، جو سنگین صورت حال کی عکاسی کرتی ہیں۔ پاکستان حشرات کش ادویات استعمال کرنے والا ایشیا کا دوسرا بڑا ملک ہے، جہاں اس وقت تیس عالمی اور دس سے زائد مقامی کمپنیز سرگرم عمل ہیں۔ دنیا میں دو ارب افراد اپنی فصلیں، سبزیاں اور باغات بچانے کے لیے ان ادویات کا استعمال کرتے ہیں، جب کہ ڈھائی کروڑ ورکرز ان کے استعمال سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ پاکستان میں صورت حال دیگر ممالک کی نسبت زیادہ سنگین ہے“ ۔

پاکستان میں اس متعلق کوئی مخصوص قانون سازی نہیں کی گئی جس کی ایک بڑی وجہ ملٹی نیشنل اور مقامی کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ مثلاً جاپان، جرمنی، امریکہ، سوئٹزرلینڈ، چائنہ اور انڈیا جیسے ممالک سے کئی مضر صحت کیمیائی مصنوعات ہمارے ہاں امپورٹ کی جاتی ہیں جو ہمارے ماحول اور مسائل سے میل نہیں کھاتیں۔ پاکستان میں اب تک ایسے کیمیکلز سر عام فروخت کیے جا رہے ہیں جن پر عالمی سطح پر پابندی عائد ہوئے نصف صدی سے بھی زیادہ ہو چکا ہے۔

یہ کیمیکل ناصرف فصلوں بلکہ ریسٹورنٹ، ہوٹل، ہسپتال، گھروں اور دیگر عوامی مقامات پر سر عام اور وافر مقدار میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ کمپنیاں عوام الناس کو ان کیمیکلز کے مضر صحت اور ماحول پر اثرانداز ہونے والے منفی اثرات سے لاعلم رکھتی ہیں۔ بے شمار ایسے طریقے موجود ہیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے ان مسائل سے با آسانی نمٹا جا سکتا ہے جیسے آئی پی ایم ( انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ) اور آئی جی ایم (انٹیگریٹڈ جرم مینجمنٹ) جن پر آئندہ اقساط میں تفصیل سے بات ہو گی۔ کیمیائی مصنوعات کے استعمال سے جہاں انسانی صحت کو بے شمار خطرات لاحق ہوئے ہیں، وہیں مفید حشرات کی مختلف انواع معدومیت کے خطرے سے دو چار ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال شہد کی مکھی ہے، حالیہ چند برسوں میں شہد کی مکھیوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق

”حشرات الارض کی کمی کا یہ عمل اسی طرح سے جاری رہا تو آئندہ چند دہائیوں میں 04 فیصد حشرات الارض معدوم ہو جائیں گے۔ اس رپورٹ کے مطابق دنیا میں پائے جانے والے ایک تہائی حشرات ’خطرے‘ میں ہیں“ ۔

عالمی سطح پر حشرات کی کنزرویشن کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اس متعلق کوئی توجہ نہیں دی جاتی، اس کی ایک بڑی وجہ عوامی سطح پر آگاہی کا نہ ہونا ہے جو ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چند برس قبل ایک مچھر (ڈینگی) نے وفاقی حکومت بالخصوص پنجاب حکومت کو تگنی کا ناچ نچایا، سینکڑوں افراد اس کا شکار ہوئے اور کئی اموات ہوئیں۔ لیکن حکومت وقت نے اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے چند بڑے لوگوں کو نوازا اور ہزاروں ٹن کیمیکل امپورٹ کیا جسے ایندھن کے سنگ اڑا دیا گیا، کیمیکل کے اس بے جا اور بے ہنگم استعمال کے باعث ڈینگی مچھر کی قوت مدافعت میں مزید اضافہ ہوا نتیجتاً ہم آج بھی اس سے نجات حاصل کرنے میں ناکام ہیں۔

اگر حکومت اور ہمارے ماہرین بروقت اور مناسب اقدامات اٹھاتے تو آج صورتحال قدر بہتر ہوتی۔ آپ ملائیشیا سے ہی سیکھ لیتے گو یہ سوغات ہمیں وہیں سے ارسال ہوئی لیکن اس مسئلہ کو جس طرح انھوں نے حل کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔ اور یہی ماحول دوست اپروچ پوری دنیا میں استعمال کی جاتی ہے۔ کیمیکلز کا بے جا استعمال جہاں ضرر رساں کیڑوں کو مارتا ہے وہیں مفید حشرات بھی اس کا شکار ہوتے ہیں جس کی مثال ڈریگن فلائی ہے اکثر آپ نے اسے دیہات یا گھر میں دیکھا ہو گا، ڈریگن فلائی کی خاصیت ہے کہ وہ ضرر رساں کیڑوں بالخصوص مچھروں کو غذا کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ لیکن ہم نے اس انسان دوست کیڑے کو بھی معدومیت کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے، یوں ہم نے اپنے ایکو سسٹم کا توازن خود ہی بگاڑ دیا، جس کے اثرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

صدیوں سے حشرات انسان کے ساتھ رہ رہے ہیں اور اس کی بقاء میں نہایت اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ سو ہمیں جیو اور جینے دو کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے ایسے طریقے وضع کرنے چاہیں کہ ایکو سسٹم کو نقصان پہنچائے بنا حشرات الارض کو محفوظ رکھا جا سکے۔ گو کہ یہ کئی طرح سے انسان کو مالی نقصان پہنچاتے ہیں لیکن آئندہ اقساط میں ہم اسی موضوع کو زیربحث لائیں گئیں کہ ایکو سسٹم کو محفوظ رکھتے ہوئے ضرر رساں حشرات کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔

(جاری ہے)

تصویر بشکریہ : نیویارک ٹائمز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments