سعودی عرب، ایران کے درمیان سفارتی تعلقات بحال


پاکستان میں جاری حالیہ سیاسی کشمکش میں اہم عالمی قوتیں اپنا اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ لیکن پاکستان کی سیاسی صورت حال کو پس پشت رکھتے ہوئے اگر خطے میں ہونے والی نئی تبدیلیوں پر نظر ڈالیں تو مشرق وسطیٰ کے دو حریف ممالک ایران اور سعودی عرب نے چین کی ثالثی کے نتیجے میں گزشتہ ہفتے کئی برسوں سے منقطع سفارتی تعلقات بحال کرنے اور ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا غیرمتوقع اعلان کیا ہے۔ 2016 میں پیش آنے والے چند واقعات کے بعد ایران اور سعودی عرب نے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے۔

سفارتی تعلقات اس وقت منقطع ہوئے تھے جب سعودی عرب میں ایک معروف شیعہ عالم کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان کافی کشیدگی پائی جاتی تھی۔ مشرق وسطیٰ میں بالادستی کے لیے مقابلہ کرنے والے یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں اور اس مقابلے میں دونوں ممالک لبنان، شام، عراق اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں جاری تنازعات میں حریف دھڑوں کی حمایت کرتے آئے ہیں۔

عرب عجم کی پرانی جنگ  کو سعودی عرب اور ایران معاہدے کے ذریعے ختم کرنے کی ایک کوشش چین کی جانب سے کی گئی ہے۔ ایران نے عراق، شام، لبنان، بحرین اور یمن میں اپنی پر اکیسویں کے ذریعے سے خطہ میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوششیں کیں تاہم عراق پر امریکہ کی مضبوط گرفت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایران نے شیعہ سنی کی برسہا برس سے قائم مذہبی تفریق کے خاتمہ کے لئے ایک مثبت قدم اٹھایا ہے۔ ایران جہاں یمن میں حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے وہیں سعودی عرب ان باغیوں کے خلاف فضائی حملے کرتا ہے۔ مگر ان تمام تر تنازعات کے باوجود اب ان دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے عزم کا غیرمتوقع اعلان کیا ہے۔

ریاض امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات میں روایتی قربت کے لیے جانا جاتا ہے جس کے ایران اور چین دونوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہیں۔ یہ معاہدہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مغرب کی جانب سے چین کو الزامات کا سامنا ہے کہ بیجنگ نے روس یوکرین جنگ کے سلسلے میں خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں جبکہ چین یوکرین کی جنگ پر بات چیت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے اس معاہدے کو ’مذاکرات کی فتح‘ ، ’امن کی جیت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ معاہدہ ایک ایسے خطے میں چین کی سفارتی فتح ہے جس کی جغرافیائی سیاست پر امریکہ کا غلبہ ہے اور ایک ایسے وقت میں اہم خوشخبری ہے جب دنیا ’انتشار کا شکار ہے۔

‘ پاکستان کی موجودہ حکومت کی عالمی سیاسی بساط سے بے مہری کا اصل سبب اپنے ذاتی مسائل اور مفاد ات ہیں، امریکی دباؤ کے زیر سایہ چین سے دوری کی پالیسی بھی چینی حکمرانوں کی نظر میں پاکستان کی اہمیت میں نسبتاً کمی کا باعث ہے۔ سفارتی تعلقات کی عدم موجودگی میں گزشتہ سات برسوں کے دوران ایران اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کم کروانے کے معاہدے تک پہنچنے کی متعدد کوششیں کی گئیں جن میں سے ایک مثبت کوشش پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے دونوں ممالک کا خصوصی دورہ تھا۔

جس پر عالمی میڈیا کی جانب سے خصوصی کوریج کی گئی، جرمن نشریاتی ادارے نے سوال اٹھایا کہ کیا عمران خان تہران اور ریاض کے درمیان ثالثی کر سکتے ہیں؟ جبکہ دی پرنٹ نے اس خبر کو یوں بیان کیا کہ عمران خان ایران سعودی امن قائم کرنا چاہتے ہیں۔ الجزیرہ نے اپنی خبروں میں نمایاں طور پر نشر کیا کہ پاکستان کے عمران خان ایران سعودی مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کے لیے تہران میں ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایران اور سعودی عرب کے حالیہ ثالثی کے معاہدے میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا بھی اہم کردار رہا ہے تو ہرگز غلط نہ ہو گا۔

خلیج میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے کے لیے اسلام آباد کے اقدام کے تحت پاکستان اور ایران کے رہنماؤں نے تہران میں مذاکرات کیے ۔ عمران خان اور حسن روحانی نے خلیج میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے اور علاقائی دشمنوں ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالثی کے لیے پاکستانی اقدام کے تحت ایرانی دارالحکومت تہران میں بات چیت کی۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کا تہران اور سعودی عرب کا دورہ امن پیشرفت کا پہلا قدم تھا۔

گزشتہ سال دسمبر میں شی جن پنگ نے دورہ سعودی عرب کے دوران مشرق وسطیٰ کے رہنماؤں کو ساتھ اکٹھا کیا تھا، جس کے بعد سعودی مقامی اور عرب میڈیا میں کافی قیاس آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔ گزشتہ ماہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا دورہ کیا تھا جس نے عرب میڈیا کی خاص توجہ حاصل کی تھی۔ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کو حیران کرنے والے سعودی عرب اور ایران کے ’غیرمتوقع‘ معاہدے کا مطلب کیا ہے؟ اس پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کر بی نے کہا ہے کہ ’بائیڈن انتظامیہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایسے کسی بھی اقدام کی حمایت کرتی ہے، دیکھنا ہو گا کہ سعودی عرب، ایران معاہدے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں گے یا نہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان حالیہ معاہدے کے بعد ہم یہ فرض کر رہے ہیں کہ وہ خطے کی اصل سیاسی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ دونوں جانتے ہیں کہ وہ ایک خطرناک علاقے میں رہ رہے ہیں اور بہتر ہے کہ اگر وہ یہاں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو باہمی دشمنی چھوڑ دیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کاغذ پر کیا گیا یہ معاہدہ زمینی سطح تک کہاں تک پہنچ پاتا ہے۔ اس معاملے میں چین کا عمل دخل بہت دلچسپ ہے۔ یہ معاہدہ چین کے اعلیٰ سفارتکار کی ثالثی میں کیا گیا ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

تاہم خلیجی خطے سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو خطے میں امریکہ کی کم ہوتی ہوئی دلچسپی کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا۔ لیکن سعودی عرب اور خطے کے کچھ دوسرے ممالک محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی سلامتی کی ضروریات کے لیے اب فقط امریکہ پر انحصار نہیں کر سکتے۔ حالانکہ امریکہ اب بھی وہ ملک ہے جو سعودی عرب اور عرب امارات کی سلامتی کا ضامن ہے اور ہتھیاروں کے معاملے میں اہم سپلائر بھی ہے۔ لیکن اب عرب ممالک اپنے سفارتی تعلقات کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے اس فیصلے کے حوالے سے نتن یاہو حکومت کو نشانہ بنایا ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اس فیصلے کو اسرائیل کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ انھوں نے اس تبدیلی کو وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت کی ناکامی قرار دیا ہے۔ اسرائیل کے اپوزیشن لیڈر یائر لپید نے کہا کہ ’سعودی عرب اور ایران کے درمیان معاہدہ اسرائیلی حکومت کی خارجہ پالیسی کی مکمل اور خطرناک ناکامی ہے۔ ‘ اسرائیل کی ملحمۃ الکبریٰ کے قیام سے قبل ہی پورے خطے پر اپنی دسترس قائم رکھنے کی کوششوں کو ایران اور سعودی عرب کے اس اقدام سے خاصی حد تک دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو نے چینی ثالثی میں کرائے گئے اس معاہدے پر سابقہ حکومت اور امریکی صدر جو بائیڈن کو قصوروار ٹھہرایا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس سفارتی اقدام سے علاقائی امن و استحکام کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments