افسانہ: زنجیر


کل اسے بھرے مجمعے میں داستان سنانا تھی۔ آنے والے کل کو ذہن میں لا کر وہ سوچنے لگا کہ وہاں لوگوں کی کس قدر بھیڑ ہو گی۔ لوگ اسے داد دے رہے ہوں گے۔ تالیوں کا ایک شور ہو گا جو تھمنے کا نام نہیں لے گا۔ اسی کش مکش میں اس نے کاغذ نکالا اور داستان لکھنا شروع کی۔

یہ قصہ ہے اک ایسے بھلے مانس بادشاہ کا جو اپنی زندگی میں ویسا ہی پارسا اور نیک نام تھا جیسے ہمارے تمہارے آج کے بادشاہ ہیں۔ ہاں وہ بالکل ایسا ہی تھا۔ اس کے احکام بھی اسی طرح اپنی رعایا کی بھلائی کے لیے ہوتے تھے جس طرح آج ہمارے بادشاہ کے ہیں۔ وہ بھی ہمارے بادشاہ کی طرح عوام کے سکون کی خاطر دن رات تگ و دو کرتا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس زمانے میں بھی آج کی طرح بعض علاقوں میں کوئی وبا پھیلتی اور آن کی آن میں بے شمار سبزۂ نود میدہ لقمۂ اجل ہو جاتے۔

یا پھر آج کی طرح اس زمانے کی خدا کی بستی میں بھی کئی قابض گروہ لوگوں کے گھروں پر قابض ہو جاتے اور انھیں بے گھر کر دیتے تھے۔ یا پھر بھتے کے عوض ان کے بچے اٹھا کر لے جاتے اور کسی گم نام تاریکی میں ہمیشہ کے لیے گم کر دیتے۔ لیکن ہم سب بخوبی جانتے ہیں کہ اس میں کسی درویش صفت بادشاہ کا بھلا کیا دوش؟ ظاہر ہے ان سب مسائل کو حل کرنے کے لیے ان کے بارے میں علم ہونا ضروری تھا۔ اور بادشاہ سلامت کو اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے کاموں سے اتنی فرصت ہی نہ ملتی کہ وہ لوگوں سے ان کے مسائل پوچھ سکیں یا انھیں حل کرنے کی چارہ جوئی کر سکے۔ سو وہ بادشاہ بھی ہمارے بادشاہ کی طرح اطمینان کے ساتھ حکومت چلاتا اور نیک نام کماتا تھا۔

(قدرے توقف کے بعد اس نے پھر لکھنا شروع کیا۔ ) تو جناب وہ بادشاہ بھی ہمارے بادشاہ کی طرح سادگی سے زندگی گزار رہا تھا۔ حکومت کے معاملات سے اسے بھی اتنا ہی سروکار تھا جتنا ہمارے بادشاہ کو ہے۔ رعایا کی خوش حالی اور ملک کی ترقی اسے بھی اسی طرح عزیز تھی جیسے اس بادشاہ کو ہے۔ اور وہ بادشاہ بھی۔

اس نے ایک دم سے قلم روک لیا۔ اسے لگا جیسے کوئی سرگوشی میں اسے کہہ رہا ہو ”کیوں اپنی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہو؟ اگر خود کو زندہ دیکھنا چاہتے ہو تو داستان بدل ڈالو“ ۔

اسے لگا کہ آج اس نے غلط جگہ سے داستان شروع کر دی ہے۔ بادشاہوں کے تو بہت قصے لکھے اور سنائے جا چکے ہیں۔ آج اسے کچھ نیا لکھنا چاہیے۔

اس نے پھر سے لکھنا شروع کیا۔

یہ قصہ ہے اک ایسے سماج کا جس نے صبر و قناعت سے جینا سیکھ لیا تھا۔ اک ایسا سماج جس کو صبر و رضا کی زندگی جینے میں ایسی مہارت حاصل ہو گئی تھی کہ خواہ کوئی بھی واقعہ اور مسئلہ رونما ہو اس کے صبر و سکون کی حالت کو نہیں بدل سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں بڑے بڑے واقعات رونما ہونے لگے۔ ہر چیز کے دام دو گنا سے چار گنا ہو گئے اور وہاں کے عوام خاموشی سے ضروریات زندگی کی اشیاء خریدتے اور سر جھکائے گھروں کو لوٹ جاتے۔

اس سماج میں وباؤں نے ایسے ڈیرے ڈالے کہ پھر وہاں سے کہیں جانے کا نام ہی نہیں لیا۔ قطار در قطار لوگوں کے جنازے اٹھنے لگے۔ سب نے اسے قدرتی آفات کا نام دیا۔ اور صبر و رضا کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔ وہاں اس شدت سے سیلاب آئے کہ ان کے بچوں اور بوڑھوں کو بہا کر لے گئے۔ ان کے جھونپڑوں کو جڑ سے اکھڑ دیا اور ان کی فصلیں تلف ہو گئیں۔ اس سماج کے باسیوں نے اسے قدرت کی مرضی ہی سمجھا اور سر تسلیم خم کیے چلتے رہے۔

وہاں ہر چیز میں ملاوٹ عام ہو گئی۔ ڈاکٹروں کی غفلت سے اسپتالوں میں ایسے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے جنھیں آسانی سے بچایا جا سکتا تھا، اور پھر ان کے لواحقین چپ چاپ میتیں اٹھاتے اور دفن کر آتے۔ لوگوں نے تقدیر کے سوا کسی کو بھی قصور وار ٹھہرانا چھوڑ دیا۔ لوگ اچانک گھروں سے غائب ہو جاتے اور ان کا کوئی سراغ نہ ملتا۔ ان کے لواحقین در در تلاش کرتے، یا چند روز کسی چوراہے میں دھرنا دیتے اور پھر سب کچھ بھول بھال جاتے۔

یوں سمجھیں کہ لوگوں نے سر اوپر اٹھانا ہی چھوڑ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں پر پے در پے حادثات گزرتے لیکن عوام اپنی زندگی میں مگن رہتے۔ یہاں تک کہ اس سماج کی مسجدوں اور امام بارگاہوں میں دھماکے ہوتے۔ تعلیمی درس گاہوں میں معصوم جانوں کو مسل کر پھینک دیا جاتا۔ بازاروں اور چوراہوں میں بم پھٹتے اور لوگ گاجر مولی کی طرح کٹ کر گر جاتے۔ لیکن چند گھنٹوں بعد ہی عوام نارمل ہو کر دوبارہ اپنی زندگی کے کاموں میں مصروف ہو جاتے۔

یہ بہت تشویش ناک بات تھی۔ لیکن اس کی وجہ اور کچھ بھی نہ تھی، کہ لوگوں نے صبر اور بے نفسی کی زندگی کو اپنا وتیرہ بنا لیا تھا۔ انھوں نے ان سب مسائل اور اذیتوں کے ساتھ سمجھوتا کر لیا تھا۔ اس سماج کے اہل اقتدار پامال اور رسمی انداز میں ان سب چیزوں کی مذمت کرتے۔ اور عوام روح سے عاری ان الفاظ سے مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے۔ اور اس سب کو رضا الہی سمجھ کر خاموش ہو جاتے۔

اس نے ایک دم سے پھر قلم روک لیا۔ اسے لگا پھر سے اس کے کان میں کوئی سرگوشی کر رہا ہے، ”کیوں اپنی جان کے دشمن بنے بیٹھے ہو؟ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو داستان بدل ڈالو“ ۔

اسے لگا اس نے پھر سے داستان غلط جگہ سے شروع کر دی ہے۔ آج کچھ اور لکھنا چاہیے تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments