شولڈر ڈسٹوشیا ؛ کچھ اور باتیں !


قارئین کا خیال ہے کہ شولڈر ڈسٹوشیا کا موضوع تشنہ رہ گیا، مزید لکھنا چاہیے تھا۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہم سناتے ہیں سچی کہانیاں اور طبی معلومات بیچ بیچ میں ٹانک دیتے ہیں تاکہ معاشرہ عورت کے درد کو جان سکے۔ کچھ لوگوں نے لکھا، ایکس رے یا الٹرا ساؤنڈ سے یہ کیفیت پہلے سے پتہ چل جانی چاہیے، کچھ نے لکھا کہ ڈاکٹر سے باقاعدگی سے چیک اپ کرواتے تو یہ نہ ہوتا۔
ایسا نہیں ہے۔

شولڈر ڈسٹوشیا ایک ایسی صورت حال ہے جس کے بارے میں کوئی بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ ہو گا کہ نہیں؟
ایکس رے سے ہڈی چھوٹی ہونے کا علم متروک طریقہ ہے۔ اب درد زہ ہی ہڈی چیک کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے اگر سر کولہے کی ہڈی سے گزر جائے تو ہڈی ٹھیک، اگر نیچے نہ آئے تو ہڈی تنگ۔ اس لیے اب ایکس رے سے ہڈی کی جانچ نہیں کی ہوتی۔

ہڈی کی جانچ کے لیے ویجائنا میں دو انگلیاں ڈال کر بھی معائنہ کیا جاتا ہے جس کی تفصیل ہم پھر کبھی لکھیں گے۔

لیکن شولڈر ڈسٹوشیا کا مسئلہ یہ ہے کہ سر تو آرام سے نکل آئے گا اور پھنس جائیں گے کندھے۔ اس کا مطلب یہ کہ یا تو کندھے بہت چوڑے تھے یا بچے کا جسم پیٹ میں گھوم کر کندھوں کو درست پوزیشن میں نہیں لا سکا۔

کندھے بڑے ہونے کا ایک رسک فیکٹر ماں کو ذیابیطس ہونا ہے۔ ذیابیطس کے ساتھ اگر بچہ وزن میں چار کلو سے اوپر ہو جائے تو مناسب نہیں کہ نارمل ڈلیوری کروائی جائے۔

دوسرا فیکٹر سر پیدا ہونے کے بعد بچے کے جسم کی حرکت ہے جو کندھوں کو ایک خاص پوزیشن میں لے کر آتی ہے۔ کس بچے میں یہ حرکت نہیں ہو گی، کوئی نہیں بتا سکتا۔ بعض اوقات درمیانے وزن کے بچوں کے کندھے بھی پھنس جاتے ہیں۔

شولڈر ڈسٹوشیا میں پھنسے بچے کو پیدا کروانے کے لیے مختلف تکنیکس وضع کی گئیں ہیں جن میں ویجائنا میں ہاتھ ڈال کر کندھوں کو ہلانے کی کوشش، ویجائنا میں ہاتھ ڈال کر بازو باہر کھینچنا اور کچھ اور طریقے۔

لیکن مسئلہ ہے ان سب میں اور وہی ہمارے دل کا روگ بھی۔
ڈاکٹرز۔ اناڑی ڈاکٹرز جو جگہ جگہ میٹرنٹی ہوم کھول لیتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ انہیں کام کتنا آتا ہے اور وہ ان سب باتوں کے لیے انتہائی نا تجربہ کار ہیں۔

ارے بھائی، عورت کی زندگی اور جسم ہے کوئی سائیکلوں کی دکان تو نہیں جہاں مرمت کے ساتھ کام بھی سیکھا جائے گا۔

گائناکالوجسٹ صرف دائی ہونے کا نام نہیں جیسا مستنصر حسین تارڑ صاحب نے ہمارے متعلق کہا۔ آبسٹرٹرکس اور گائناکالوجی ایک سائنس ہے جسے بخوبی جاننے والا ہی ماں اور بچے کو سب دیکھے ان دیکھے خطروں سے بچا سکتا ہے۔

اب المیہ دو طرفہ ہے کہ لوگوں کے خیال میں ڈلیوری تو کوئی کام ہی نہیں، دائی جیسی عورت بھی کروا لیتی ہے۔ دوسری طرف ایم بی بی ایس ڈاکٹر جگہ جگہ میٹرنٹی ہوم کھول کر بیٹھ جاتے ہیں، تجربہ زیرو۔

کیا ڈرائیونگ مینول پڑھ کر گاڑی چلائی جا سکتی ہے؟ یا جہاز اڑایا جا سکتا ہے؟
ایم بی بی ایس کتابیں رٹ کر پاس کرنے کا نام ہے آج کل۔ جب تک مریضوں میں برسہا برس نہ گزارے جائیں، ہزاروں کے حساب سے مریض دیکھ کر مختلف امور مشاہدے میں نہ آئیں، کیسے سیکھیں گے ڈاکٹر؟

مثال کے طور پہ اگر کسی ڈاکٹر کے مشاہدے میں شولڈر ڈسٹوشیا ہے ہی نہیں، اسے ڈلیور کروانے کی پریکٹس نہیں، مختلف تکنیکس کا اندازہ نہیں، کیسے کرے گی وہ؟

ڈاکٹر کی طرح دائی کا کام بھی اس وقت تک چلتا ہے جب تک کوئی پیچیدگی نہ ہو اور جب کیس بگڑ جائے تو لے جاؤ بھائی شہر کے بڑے ہسپتال یا کسی سیانی ڈاکٹر کے پاس۔ اب یہ کسے علم کہ کون سی عورت پیچیدگی کا شکار ہو گی اور کون سی کسی مشکل کے بنا اس مشکل سے گزر جائے گی۔

صاحب! سسٹم تو ہم بدلنے سے قاصر ہیں لیکن یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ علم و آگہی سے آپ کو لیس کر دیں۔ آپ کا کام یہ ہے کہ ڈاکٹرز کے سامنے ٹرمنالوجی کا ذکر کر کے انہیں حیران کریں۔ دوسرے کوشش کریں کہ ان معاملات میں تجربہ کار ڈاکٹر ملے، زندگی کے سفر میں ساتھی کی صحت سے زیادہ کچھ اہم نہیں۔

ڈاکٹرز کو بھی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ سیکھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ جو چیزیں نہیں آتیں، انہیں پڑھیے۔
اگر مریض سمجھ میں نہیں آ رہا تو ریفر کیجیے کسی بڑے ہسپتال کو۔ اپنی فیس کے لیے کسی کی جان سے مت کھیلیے۔ ضمیر پہ جو بوجھ بنے گا وہ آپ کو جینے نہیں دے گا۔

دور دراز علاقوں میں رہنے والی عورت کے لیے ہمارا دل تڑپتا ہے۔ اکیسویں صدی اور زچگی میں موت۔ شرم سے ڈوب مرنا چاہیے مگر کس کو؟

آخری بات، آپ لوگوں کی بھی برابر کی ذمہ داری ہے ان سب معاملات میں۔ بچوں کی تعداد مناسب رکھیں کہ ہر حمل عورت کے جسم کے لیے امتحان اور ہر زچگی عورت کے لیے موت کا دروازہ ہے۔ قسمت اس کی کہ دروازے کے اس طرف رہے گی یا اس طرف۔
ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
یار زندہ صحبت باقی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments