ہم کیسا ملک بنانا چاہتے ہیں؟


بچپن سے نصابی کتابوں میں پڑھتے اور غیر نصابی باتوں میں سنتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ والدین کے ساتھ جب بھی شہر سے گاؤں تک کا مختصر سفر کرتے تو واقعی اس بات کا یقین ہونے لگتا۔ آبادیاں کم اور کھیت زیادہ دیکھنے کو ملتے۔ گرما ہوتا تو جگہ جگہ گندم کی کٹائی، بھرپائی ہو رہی ہوتی۔ لوگ پسینہ بہاتے، لو کے دنوں میں فصل کو سنبھالنے میں لگے ہوتے۔ پوری فضا میں تھریشر چلنے، اور اس کے ذروں کا راج ہوتا۔ حلق میں چبھتے۔ لیکن گھر کی خواتین، بچے، جوان، مرد اور بوڑھے ہمت اور جوش سے لگے ہوتے۔

سرما ہوتا تو مونجی (سرمئی چھلکے سمیت چاول) کی مہک ہر سو پھیلی ہوتی۔ سوندھی، سوندھی۔ بھری بوریاں، ہر صبح پھیلائی جاتیں، خشک ہوتیں اور شام میں اکٹھی ہوتیں۔ بوریاں مشینوں تک جاتیں۔ مونجی سے چاول بنتے۔ بھڑولوں میں اسٹور ہوتے۔

ساتھ ہی ساتھ ٹھٹھرتی سردیوں میں کپاس کی فصل چنی جاتی۔ کھلیان عورتوں اور بچیوں سے بھرے ہوتے۔ جو ایک ایک سفید پھول چنتیں، اپنی کمر پر دوپٹے سے بندھی گٹھڑی میں اکٹھا کرتیں۔ بھر جاتیں تو اپنے اپنے بنائے ڈھیر میں ڈال کر اسے خالی کرتیں اور پھر سے اس کو کپاس سے بھرنا شروع کر دیتیں۔ شام کو اس ڈھیر کے بدلے پیسے یا جنس ملتا۔ سارا سال خواتین کپاس چننے کا انتظار کرتیں کہ یہ خالصتاً عورتوں کی آمدنی ہوتی۔

پھر جگہ جگہ مکئی کے ڈھیر بھی دیکھنے کو ملتے۔ پیلے، زرد۔ سوکھتے، بھنتے۔ مکئی کا آٹا پسوایا جاتا۔ ساگ کے ساتھ لطف لیا جاتا۔ گنے کے ٹرک اور ٹرالیاں سڑکوں پر ہجوم بپا رکھتیں۔ گڑ، شکر بنانے کے ’ویلنے‘ ہر جگہ لگے ہوتے۔ مل بیٹھنے کے علاوہ عملی تعلیم کا مظاہرہ بھی ہوتا رہتا۔ ساری اجناس وافر ہوتیں۔ ہر گھر میں مفت پہنچتیں۔ بے فکری سے کھائی جاتیں۔

گنا، گنڈیریاں، ساگ، شکر قندی، مکئی، بھٹہ، شکر، گڑ کم ہی خرید کر استعمال ہوتے۔ سوغات کی صورت بھیجے جاتے۔

زراعت اور لائیو اسٹاک کے مضامین میٹرک سے ہی نصاب کا حصہ ہوتے۔ کاشت کاری سے محبت خون میں شامل ہوتی۔ تعلیم کا جز بنتی۔ زرعی آلات، ہل، ٹریکٹر ٹرالیاں، بیشتر مشینری لوکل ہی بنتی۔ تو لگتا کہ واقعہ ایک ایسا ملک ہے جس کی آبادی کے روزگار کا مجموعی انحصار زراعت سے وابستہ ہے۔ نصاب، تعلیم، زرعی زمین کی حفاظت، چھوٹے، بڑے کپڑے، جننگ (پینجے ) ، ہوزری، چاول وغیرہ یعنی اس کو چلانے والے کارخانے ایک مکمل دائرہ تھا جس میں سب ایک دوسرے کو مضبوط کرتے۔

یہ تو تھی تیس پرانے قصے۔ جب جو پڑھتے تھے اس کے کئی شواہد بھی اپنے ارد گرد، نظام میں نظر آتے تھے۔ اب تین دہائیاں گزرنے کے بعد ہمارے بچے بھی اپنی کتابوں میں یہی پڑھتے ہیں کہ ’ان کا ملک ایک زرعی ملک ہے‘ ۔ تو بڑا عجیب لگتا ہے۔ کیونکہ اتنے عرصے میں اس ملک میں زرعی زمین کو کوڑیوں کے داموں میں بیچا گیا۔ بلا تفریق باغوں، کھیتوں اور لہلہاتی فصلوں کی نسل کشی کی گئی۔ پوش، قانونی، غیر قانونی آبادیاں آباد کرنے کے لئے تیزاب ڈال ڈال کے زمینوں کی زرخیزی کو بنجر کیا گیا۔

اب اکتالیس جامعات زراعت میں بی۔ ایس۔ سی آنرز کی ڈگری دیتی ہیں۔ لیکن وہاں سے ڈگری یافتہ طلبا عملی زراعت اور لائیو اسٹاک سے نا بلد ہی ہوتے ہیں۔ ان میں زیادہ ان جامعات کا رخ ہی تب کرتے ہیں جب ’میرٹ‘ پر کسی اور بہتر فیلڈ میں داخلہ نہیں ہوتا۔ اور زراعت کی بنیادی تعلیم تو کبھی انھوں نے حاصل ہی نہیں کی ہوتی۔ کیونکہ ایسے تمام مضامیں اب جدید پاکستان کے پرائمری، مڈل اور سیکنڈری نصاب کا حصہ نہیں۔ تمام چھوٹی فیکٹریاں آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مر گئیں کہ ان کی ترویج کے لئے نہ پالیسی رہی، نہ تعلیم۔

مالٹے، آم، گنڈیریاں، پالک، دھنیا، گڑ، شکر حتی کہ بیر، بھی جب کم ہوئے تو مہنگے داموں بازار میں بکنے لگے۔ مفت دینے، لینے اور کھانے کی عیاشی رخصت ہو گئی۔ جو لان، کاٹن، کھدر کا عمدہ کپڑا ہر کسی کے لئے سستا میسر تھا۔ وہ عنقا ہونے لگا۔ اور ان عوامل کی بدولت پیداوار میں آٹھ سے دس فیصد کمی آ رہی ہے۔ کاشت کاری کے رقبے میں اوسطا پانچ ہیکٹر سے اڑھائی ہیکٹر پر جا رہا ہے۔ اور وہ تمام تعلیم یافتہ جو والدین کی خون پسینے کی کمائی سے ڈگریاں لیتے ہیں، ان کے ساتھ ملک میں بے کار رہتے ہیں کہ لوکل ضرورت نہیں ہوتی۔

اب الجھن یہ ہے کہ ہمارے ملک کی اقتصادی بنیاد کیا ہے؟ اگر زرعی رکھنی ہے تو اس کے لئے مربوط تعلیمی، عملی نظام بنانا ہو گا۔ زرعی زمین کو خدا ماننا پڑے گا۔ جس کی قربانی کی کسی صورت اجازت نہ ہو۔ بہتر پیداوار کے طریقے پڑھانے اور اپنانے ہوں گے۔ اسی سے ملتے کارخانے لگانے ہوں گے۔ تاکہ یہاں کا پڑھا لکھا، اپنی زمین کے لئے کارآمد ہو اور اسے کمانے کے دھکے نہ کھانے پڑیں۔ اور اگر یہ بنیاد بدلنی ہے تو بھی اس کے لئے سوچنا ہو گا۔ بالکل اسی طرح موثر منصوبے بنانے ہوں گے۔ اور اس پر کام ابھی سے کرنا ہو گا۔ کیونکہ ہم پہلے ہی مجرمانہ تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments