انڈیا کا وہ گاؤں جہاں 75 سال میں کوئی لڑکی پہلی بار کالج پہنچی


نینا
نینا اپنی دس بہنوں کے ساتھ
جب میں نینا سے پہلی بار ملی تو مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ وہ اپنے والد کو اتنا سخت جواب دے سکتی ہیں لیکن ضد ہی ایسی تھی کہ انھیں کالج جانا تھا۔

نینا نے بتایا کہ جب ان کے والد نے انکار کر دیا تو وہ بھی ضد پر آ گئیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں بضد تھی کہ میں پڑھنا چاہتی ہوں اور میں صرف پڑھوں گی۔ میں نے کہہ دیا کہ اگر میں کچھ غلط کروں تو آپ میری گردن کاٹ دینا۔‘

وہ جانتی تھی کہ وہ گاؤں کی پہلی لڑکی نہیں جو کالج جانے کا خواب دیکھ رہی تھیں لیکن وہ یقینی طور پر پہلی لڑکی تھیں جس نے اپنے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کا عزم کیا تھا۔

وہ نہ صرف اپنے اور اپنی دس بہنوں کے لیے بلکہ اپنے گاؤں کی پنچائیت کی تمام لڑکیوں کے لیے بھی ایک نئی راہ بنا رہی تھیں۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی سے 100 کلومیٹر دور ریاست ہریانہ کے ضلع کرنال کی دیوی پور گرام پنچائیت میں تقسیم ہند کے 75 سال بعد بھی لڑکیوں کو کالج جانے کا موقع نہ مل سکا۔

خاندان، گاؤں اور نظام کے خلاف جدوجہد کے بعد یہاں لڑکیوں نے کالج جانے کا حق کیسے حاصل کیا یہ ایک انوکھی داستان ہے؟

یہ نینا اور ان کی پنچائیت کی 14 لڑکیوں کی مسلسل جدوجہد اور ہمت کی کہانی ہے۔

’آزادی‘ کی جانب پہلا قدم

گاؤں کی دوسری لڑکیوں کی طرح نینا نے بھی کسی نہ کسی طرح سکول کی تعلیم مکمل کی لیکن کالج جانے کا مطلب زیادہ آزادی تھی، جو گھر والوں کے لیے ناگوار تھی اور یہ بغیر کسی شرط کے نہیں مل سکتی تھی۔

نینا کہتی ہیں کہ ’مجھے گھر سے تاکید کی گئی تھی کہ کسی سے زیادہ بات نہ کروں، فون کا بالکل استعمال نہ کروں۔ گھر سے کالج اور پھر کالج سے سیدھے گھر آؤں۔‘

دوسری جانب پورے گاؤں کے پاس انھیں کالج نہ بھیجنے کی ٹھوس وجہ تھی۔

دیوی پور سے کالج جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ گاؤں سے کالج کے راستے میں ایک پل ہے جسے عبور کرنا ان کے لیے بڑا چیلنج تھا۔

پل

دیوی پور گاؤں کی جانب جانے والی سڑک پر موجود پل

وہ پل جسے عبور کرنا مشکل تھا

گاؤں کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ ’لوگ بسوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اپنی لڑکیوں کو کالج بھیجنے سے گریزاں تھے۔ انھیں ٹرانسپورٹ کے لیے چار کلومیٹر پیدل جانا پڑتا تھا۔ لڑکیاں بھی خوفزدہ تھیں۔ لڑکے پل پر بدمعاشی کرتے تھے۔‘

ہر روز اس پل پر لڑکیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہوتا۔ ان پر کیچڑ پھینکا جاتا تو بعض اوقات لڑکے اینٹیں مار کر چلے جاتے۔ گندے تبصرے تو گویا عام اور روزمرہ کی بات تھی۔

لیکن لڑکوں کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہیں تھی اور ہر گھر میں یہ خواہش برقرار تھی کہ ان کے ہاں لڑکا ہی ہو۔

نینا کے چچا کے دو بیٹے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ اگر میرے بھائی کے گھر بیٹا ہو گیا تو وہ میرے برابر ہو جائے گا۔‘

ایک خط!

نینا کی کالج جانے کی ضد کو دیکھ کر کچھ اور لڑکیوں نے بھی ہمت جمع کی اور فیصلہ کیا کہ اگر بس گاؤں تک پہنچ جائے تو یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔

لڑکیوں نے مل کر گاؤں کے لوگوں سے ملاقات کی اور ان کے سامنے یہی بات رکھی۔ ان لڑکیوں نے مل کر گذشتہ سال مئی میں کرنال کی چیف جوڈیشل مجسٹریٹ جسبیر کور کو ایک خط لکھا۔

سی جی ایم جسبیر کور کے لیے یہ حیران کن تھا کہ اس گرام پنچائیت کی لڑکیاں آج تک کالج نہیں گئیں۔

صنفی مساوات پر کام کرنے والی ایک تنظیم ’بریک تھرو‘ کے ذریعے لڑکیاں ان کے پاس آئیں تو انھوں نے اگلے ہی دن بس چلانے کا حکم دیا۔

جیوتی دلت سماج سے آتی ہیں

جیوتی کا تعلق کرنال ضلع کے گڑھی کھجور گاؤں کی دلت برادری سے ہے

’کیا لڑکیوں کو نشہ کرتے دیکھا ہے‘

سی جی ایم جب خود دیوی پور گاؤں گئیں تو انھوں نے دیکھا کہ بس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچ بھی ایک مسئلہ تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے گاؤں والوں سے پوچھا کہ انھوں نے کتنی لڑکیوں کو باہر نشہ کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ گاؤں والوں نے کہا کہ انھوں نے نہیں دیکھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کتنی لڑکیوں کو سکول سے بھاگتے ہوئے دیکھا ہے؟ گاؤں والوں نے کہا نہیں دیکھا۔‘

’پھر میں نے گاؤں والوں سے پوچھا کہ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ کالج جانے سے لڑکیاں خراب ہو جائیں گی؟ گاؤں والوں نے میری بات مانی اور لڑکیوں کو بس کے ذریعے کالج بھیجنے پر راضی ہو گئے۔‘

انھوں نے پل پر ہونے والے واقعات کو روکنے اور لڑکیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے پی سی آر کا انتظام کروایا جو اب دن میں دو بار پورے علاقے کا چکر لگاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے کالج میں لڑکیوں کا حلف: ’کبھی پیار نہیں کروں گی اور نہ ہی لو میرج کروں گی‘

دنیا میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے 10 بہترین شہر کون سے ہیں؟

انڈیا: ’ہولی ہے تو کیا ہمارے ساتھ زبردستی کریں گے‘

نینا کی جدوجہد میں جیوتی کا کردار

آج بس سروس شروع ہونے کے بعد نینا کے ساتھ دیوی پور گرام پنچائیت کے چار گاؤں کی 15 لڑکیاں کالج جانے کے قابل ہو گئی ہیں۔

ان لڑکیوں کے کالج تک پہنچنے میں سب سے بڑا کردار جیوتی کا ہے۔ جیوتی کا تعلق کرنال ضلع کے گڑھی کھجور گاؤں کی دلت برادری سے ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب میں نے 12ویں پاس کرنے کے بعد کالج جانے کا فیصلہ کیا تو مجھے اپنے گھر والوں کا تعاون ملا لیکن میں 12ویں کے بعد واحد لڑکی تھی جس نے شہر جا کر کالج میں داخلہ لیا، میری عمر کی لڑکیوں کی شادیاں کر دی جاتی تھیں۔‘

گریجویشن کے دوران جیوتی کے ذہن میں یہ بات بار بار اٹھنے لگی کہ آخر لڑکیاں 12ویں کلاس کے بعد کالج کیوں نہیں جا پاتی ہیں؟

کالج کے دوران انھوں نے ایک غیر سرکاری تنظیم ونیترا فاؤنڈیشن میں شمولیت اختیار کی۔ انھوں نے گاؤں کے ’ہریجن چوپال‘ میں ایک تعلیمی مرکز شروع کیا۔

جیوتی

جیوتی نے اپنا سینٹر سکول میں منتقل کر دیا

’اب یہ میڈم بن کر ہماری بچیوں کو پڑھائے گی‘

نام نہاد اونچی ذات والے اس بات پر برہم تھے کہ ایک دلت لڑکی اب ’میڈم‘ بن کر ان کی لڑکیوں کو پڑھا رہی ہے۔

جیوتی کہتی ہیں کہ ’راجپوت لڑکے مجھ پر تبصرے کرتے تھے۔ وہ شام کو شراب پی کر سینٹر میں آتے اور بدتمیزی کرتے۔ وہ کہتے کہ تم پڑھانے والی کون ہوتی ہو؟ اسی لیے میں نے اس تعلیمی مرکز کو گاؤں کے سرکاری سکول میں شفٹ کر دیا تاکہ ہمارا کام بند نہ ہو۔‘

فی الحال وہ کرنال ضلع کے آٹھ گاؤں میں لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے جوڑنے کے لیے بریک تھرو کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔

گڑھی کھجور کی شننو دیوی نے کبھی کالج یا سکول کا منہ نہیں دیکھا لیکن ان کی پوتی سلونی آج جیوتی کی مدد سے بی اے کر رہی ہیں۔

اپنی پوتی کی جیتی ہوئی ٹرافی کو دیکھتے ہوئے شننو کہتی ہیں کہ ’اگر وہ خود پڑھے گی تو آنے والی نسل بھی سدھرے گی، جہاں شادی ہوگی وہاں تبدیلی لائے گی، اگر وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے تو کم از کم اسے کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘

لیکن صرف بس سروس کا شروع ہونا مسئلے کا حل نہیں۔

دیوی پور کے ایک بزرگ کا کہنا ہے کہ بس چلنے سے لڑکیاں کالج تو جا رہی ہیں لیکن گاؤں والے چاہتے ہیں کہ اندھیرا ہونے سے پہلے ان کی لڑکیاں گھر واپس پہنچ جائیں۔

صرف ایک بس ہی ان کے گاؤں جاتی ہے جس کی واپسی کا وقت شام 6 بجے ہے۔ ان لڑکیوں کو گھر جلدی پہنچنے کے لیے ہر روز کچھ کلاسز چھوڑنی پڑتی ہیں۔

دیوی پور گرام پنچائیت کے موجودہ سرپنچ کرشن کمار نے کہا کہ ’ہم نے بس کے اوقات کے مسئلہ کو لے کر انتظامیہ سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن ابھی تک کوئی حل نہیں نکلا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لڑکیاں کالج جائیں اور کامیاب ہوں۔ جب سے دیوی پور میں بارہویں جماعت تک سکول بنا، لوگوں نے لڑکیوں کو سکول بھیجنا شروع کر دیا۔ پہلے ہم انھیں صرف دسویں جماعت تک پڑھایا کرتے تھے۔‘

کالج جانے والی لڑکیاں

اب بھی ایک طویل جنگ ہے

تاہم سی جی ایم جسبیر کور نے ہمیں بتایا کہ وہ ان لڑکیوں سے دوبارہ ملیں گی اور بس کے مسئلے کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ان تمام کوششوں کے باوجود آج بھی صرف 15 لڑکیاں ہی کیوں کالج جا سکیں جبکہ بہت سی لڑکیوں کے لیے یہ اب بھی ایک خواب ہے۔

جنوری کی ایک سرد صبح نینا اور اس کی بہن راکھی نیلی اور سفید یونیفارم میں کھڑی بس کا انتظار کر رہی ہیں۔

راکھی کہتی ہیں کہ ’آج ہم کالج جا رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ کل ہماری چھوٹی بہنیں کالج جائیں۔ گاؤں کی دوسری لڑکیاں بھی جائیں۔ تعلیم سب سے اہم ہے، ہے ناں؟‘

کچھ دیر بعد بس آئی اور دونوں لڑکیاں کالج کے لیے روانہ ہو گئیں۔

پیچھے رہ جانے والوں کو آج بھی پچھتاوا ہے۔ کومل، جو صرف دسویں جماعت تک ہی پڑھ سکیں، کہتی ہیں کہ ’نینا کو دیکھ کر مجھے کالج جانے کا احساس ہوا لیکن اس وقت ہمارے گھر والے راضی نہیں ہوئے۔‘

ہم نے قریب کھڑی کاجل سے جب یہی سوال پوچھا تو وہ اپنی بات مکمل کرتے ہوئے تقریباً رو پڑیں۔

جسبیر کور کہتی ہیں کہ ’تبدیلی راتوں رات نہیں آتی اور زبردستی نہیں کی جا سکتی لیکن مجھے امید ہے کہ کالج جانے والی لڑکیوں کی تعداد 15 تک محدود نہیں رہے گی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments