زمان پارک میں حکومت ہار رہی ہے یا کپتان کو پھنسایا جا رہا ہے؟


زمان پارک میں کیا ہو رہا ہے؟ پولیس کل سے محاصرہ کیے ہوئے ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ وہ عمران خان کو عدالتی حکم پر گرفتار کرنا چاہتی ہے۔ لیکن پولیس غیر مسلح ہے۔ اور میڈیا کے مطابق عمران خان کے گھر میں مسلح افراد موجود ہیں۔ بعض کا تعلق گلگت بلتستان کی پولیس سے بتایا جاتا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے ڈنڈا بردار پنجاب اور اسلام آباد پولیس پر بندوقیں تان لی تھیں اور فائر کرنے کی دھمکی دی تھی۔

پنجاب اور اسلام آباد پولیس کچھ آگے بڑھتی ہیں۔ ہتھیار کا استعمال تو دور کی بات ہے، وہ لاٹھی چارج تک کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔ آنسو گیس کے شیل اور واٹر کینن چلاتے ہیں، پھر زیادہ سے زیادہ عمران خان کے گھر کے گیٹ کو ہاتھ لگا کر واپس پلٹ جاتے ہیں۔ حکومت کرنا کیا چاہتی ہے؟ اس کا کیا ارادہ ہے؟ تاثر تو یہ ابھر رہا ہے کہ کپتان جیت رہا ہے اور ریاست ہار رہی ہے۔ آج پھر پولیس واپس ہو گئی ہے۔ کہتی ہے کہ پی ایس ایل کا میچ ہو جائے، پھر واپس آئیں گے۔ ہو کیا رہا ہے؟

کل تو مقدمہ کسی عدالت نے نہیں سنا، مگر آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیشی ہوئی۔ وہاں چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق صاحب کے کمنٹ دلچسپ ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے تحریک انصاف کے وکیل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں جو ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہو رہا ہے؟ ایک سیاسی جماعت کے کارکنان پولیس پر حملے کر رہے ہیں، پولیس پر حملہ ریاست پر حملہ ہے۔ پولیس والے لاہور میں ریاست کی طرف سے ڈیوٹی کر رہے ہیں، حملہ کرنے والے بھی ہمارے ہی بچے ہیں۔ لاہور میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کا اپنا کیا دھرا ہے۔

آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا تھا کہ زمان پارک لاہور میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے پولیس پر پتھراؤ کیا گیا، پیٹرول بم مارے گئے، پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی، ڈی آئی جی بھی زخمی ہو گئے۔ طوفان بدتمیزی جاری رہا تو گرفتاریاں ہوں گی اور مقدمے کیے جائیں گے۔ ہم رکاوٹ کو دور کریں گے اور عدالتی حکم پر عمل درآمد یقینی بنائیں گے، پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگانے پر دہشتگردی کا مقدمہ بنتا ہے، اگر کسی خاص کے لیے عدالتی حکم پر عمل نہیں ہو گا تو یہ عدالتی نظام پر سوالیہ نشان ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس اور کارکنوں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک 64 افراد زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد شہزاد بخاری بھی شامل ہیں، زخمیوں میں 54 پولیس اہلکار اور 8 شہری شامل ہیں۔ مظاہرین نے پولیس کی واٹر کینن بھی جلادی، پولیس گاڑی کو نقصان پہنچایا، ٹریفک وارڈنز کی موٹرسائیکلیں جلا دیں، ریسکیو 1122 کا فائر ٹینڈر آگ بجھانے پہنچا تو کارکنوں نے اسے بھی آگ لگادی۔ عمران خان نے صبح ساڑھے 4 بجے کے قریب جاری ویڈیو بیان میں کارکنوں کو زمان پارک پہنچنے کی ہدایت کی۔

اب دیکھیں کہ اس سے پہلے کیا ہوا تھا؟ لاہور میں تحریک انصاف کے کارکن ظِل شاہ کی موت سے متعلق ’حقائق چھپانے‘ کے الزام میں عمران خان فواد چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد اور فرخ حبیب پر مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’عمران خان، ڈاکٹر یاسمین راشد، فواد چوہدری، فرخ حبیب اور دیگر ملزمان نے‘ ثبوت و حقائق چھپا کر ’ارتکاب جرم کیا ہے۔ ‘

عمران خان کی اسلام آباد کی عدالت میں توشہ خانہ کے کیس میں پیشی تھی۔ بظاہر ہلکا پھلکا کیس تھا۔ زیادہ سے زیادہ کچھ مدت کے لیے الیکشن لڑنے پر پابندی لگا دی جاتی۔ ایسی پابندی سے کیا فرق پڑتا ہے؟ ایسی پابندیاں سیاست دانوں کو کچھ نہیں کہتیں۔ وہ کچھ مدت بعد پہلے سے زیادہ طاقتور ہو کر سامنے آ جاتے ہیں۔

اب اس تازہ پیش رفت اور بظاہر حکومتی اور ریاستی ناکامی کے بعد کیا ہوا ہے؟ اب سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، بلوہ، دہشت گردی اور اس قسم کے مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ اوپر زخمیوں کی تعداد دی گئی ہے۔ چونسٹھ افراد میں سے 54 پولیس اہلکار ہیں۔ کپتان کے کسی حامی کا ڈنڈا، پتھر یا گولی پولیس اہلکاروں کی جان لے لیں تو قتل کا مقدمہ کس پر قائم ہو گا؟ کپتان پر! وقت جیسے جیسے گزر رہا ہے، ویسے ویسے اس بات کے امکانات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ کپتان کا کوئی جوشیلا کارکن طیش میں آ کر ہوش کھو بیٹھا یا غیر ارادی طور پر کچھ کر بیٹھا تو اس کے جرم کا ذمہ دار صرف وہی قرار نہیں پائے گا۔

اچھا خیر آپ کو ہماری بات پر تو یقین نہیں آئے گا، مگر یہی بات ڈاکٹر یاسمین راشد کی صدر مملکت عارف علوی سے ہونے والی ایک مبینہ بات چیت میں سامنے آئی ہے۔ اس ریکارڈنگ میں ڈاکٹر یاسمین راشد یہ کہتی ہیں (انگریزی الفاظ کے ترجمے اور چند غیر ضروری الفاظ حذف کرنے کے بعد :

”یہاں سچویشن بہت خراب ہو گئی ہے۔ پٹرول بم پھینکنا شروع کر دیے ہیں لوگوں نے۔ ہمارے ورکروں نے۔ اس سے پہلے کہ کوئی خون خرابہ ہو جائے، میرا خیال ہے کہ آپ کو کسی سے بات کرنی چاہیے اور مداخلت کرنی چاہیے۔ اس وقت تو سچویشن یہ ہے کہ کچھ مر جائیں گے لوگ ابھی۔ کوئی پولیس والے مر جائیں گے۔ سچویشن اتنی بری ہو جائے گی کہ الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔ جو مقصد تھا ہمارا۔ میرا خیال ہے آپ کو یہ کرنا چاہیے کہ خان صاحب کو کہیں کہ بہترین طریقہ یہ ہے کہ گیو ان (شکست تسلیم کر لیں) ، اور کسی دوسرے دن لڑیں۔ میرا تو یہ خیال ہے، باقی آپ جو بہتر سمجھیں۔ انہوں نے باز تو آنا نہیں۔ اس وقت رینجرز بھی وہاں ہے، پٹرول بم چل رہے ہیں وہاں۔ اور ابھی ان کی واٹر کینن کو آگ لگ گئی تھی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب صورت حال بد سے بد تر ہو رہی ہے۔“

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments