حاکم وقت سے منصف کا یارانہ نکلا


رات کی سیاہ چادر ہولے ہولے اپنا سفر پورا کر کے دھندلکے میں داخل ہوتی ہے تو فجر کا وقت ہونے لگتا ہے۔ عین اسی وقت ایک دیوانہ، پروانہ اور خان کا عاشق مستانہ آوازیں لگانے لگتا۔ ”خان صاحب آئی لو یو۔“ خان صاحب آئی لو یو۔ ”وہ ایک سادہ لوح انسان تھا۔ سرتاپا محبت اور سچائی کی کنکھاتی مٹی سے بنا ہوا۔ ایک مجذوب جو عشق کی آگ میں جل رہا تھا۔ نیک دل معصومیت سے بھر پور ذہن کا مالک انسان تھا وہ۔ عاشق مستانہ کی طرح وہ دن اور رات اپنے معشوق کے در پر پڑا رہتا تھا۔

1983 میں پیدا ہونے والا علی بلال عرف ظل شاہ 1992 سے جب وہ فقط 9 برس کا تھا تب سے وہ عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں میں جاتا رہا۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ ایک سپیشل چائلڈ تھا۔ صبح فجر کی ٹھنڈی اوس بھی اس کے جذبوں کو منجمد نہیں کرتی تھی۔ وہ اپنے دل میں موجزن محبت کے دریا سے اپنا منہ دھوتا تھا۔ زندگی سے بھرپور مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر سجائے وہ مجذوب یہی کہتا رہا عمران خان کے لیے جان بھی قربان ہے۔ اپنے ماں باپ کی پہلوٹھی کی اولاد تھا۔ اپنے خاندان کے سدا بہار پھولوں کی کیاری کا وہ گلاب تھا جس کی خوشبو سے ان کا چمن مہکتا تھا۔ مگر مارنے والے ظالموں نے اتنے مجمعے میں سے صرف اسے بیہمانہ طریقے سے مارا کہ ساری زمین ہی لال ہو گئی۔ راحت اندوری مرحوم کا ایک شعر یاد آ رہا ہے۔

جدھر سے گزرو دھواں بچھا دو
جہاں بھی پہنچو دھمال کر دو
تمہیں سیاست نے حق دیا ہے
ہری زمینوں کو لال کر دو

ظل شاہ کی معصومیت کی وجہ سے بہت سے لوگ اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ پی ٹی آئی کے کارکن زمان پارک میں ہمہ وقت اپنے لیڈر کی حفاظت کے لیے جمع رہتے تھے۔ وہیں ظل شاہ بھی بزرگ عورتوں کو پانی وغیرہ پلایا کرتا تھا۔ سب کی آنکھوں کا تارا تھا۔ ظل شاہ کی ماں کی گود تو اجڑ گئی۔ بوڑھے باپ کی کمر ٹوٹ گئی۔ بھائی کا بازو ٹوٹ گیا۔ بلاشبہ یہ ایک ریاستی قتل ہے۔ ہر طرح سے ریاست اس کی ذمہ دار ہے۔ ظل شاہ نے نجانے کب ایک فلم ظل شاہ کے کردار پر اپنا نام رکھا اور اپنی معصومیت کی وجہ سے خوب شہرت اور محبت حاصل کی۔

ظل شاہ اپنی ویڈیوز میں بتاتا رہا کہ 25 مئی کو بھی اس کی بازو ٹوٹی تھی۔ اس کے ماتھے پر شیل لگا تھا۔ مگر وہ دلیر بچہ ڈٹا رہا۔ ماں باپ روکتے تھے مگر نہیں رکتا تھا۔ اس کے بوڑھے والد نے کہا تھا کہ اسے روکنا محال ہی نہیں ناممکن تھا۔ آٹھ مارچ جو خواتین کا عالمی دن تھا۔ اس دن پی ٹی آئی نے اپنی ریلی نکالنی تھی ٹھیک اسی دن لاہور میں دفعہ 144 لگا دی گئی۔ عورتوں پر خوفناک شیلنگ کی گئی۔ عوام پر لاٹھی چارج کی گئی۔

بدبودار کیمیکل والا پانی ہماری اپنی ہی عورتوں پر پھینکا گیا۔ کل رات میں خود اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ زمان پارک گئی۔ منظر نامہ ہی عجیب تھا وہاں۔ خاص و عام سب ایک ہی صف میں کھڑے تھے۔ نون لیگ والے جس کو برگر کلاس کہتے ہیں وہ بھی ڈٹ کر کھڑے تھے۔ افسوس موجودہ حالات و واقعات ایسے ہیں کہ ہم بری طرح پھنس چکے ہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے لیے پولیس کا آپریشن جاری ہے۔ ادھر نون لیگ نے اپنی کرپشن کے سارے کیسز معاف کروا لیے۔

نیب قوانین میں ترامیم بھی کروا دی گئیں۔ اقتدار کے گھناؤنے کھیل میں معصوم کارکن باقی ماندہ کارکنوں کے جذبات کے الاؤ کو دہکانے کا ایندھن ثابت ہوتے ہیں۔ ظل شاہ بھی اپنے عشق کا سودا اپنی قیمتی جان دے کر ثابت کر گیا کہ سودا اک ای ہندا اے یعنی عشق میں سر دینا پڑتا ہے۔ قابل مذمت بات یہ ہے کہ خدا کے خوف کی پرواہ کیے بغیر اس کی لاش پر سیاست کی جا رہی ہے۔ کہتے ہیں اگر کسی دلیر آدمی کو مار دو تو کم از کم اس کی دلیری کو قبول تو کرو۔

مانو تو سہی کہ وہ گمنام سپاہی کی طرح تاریک راہوں میں مارا گیا۔ پاکستان کو اس وقت سیکورٹی سیاسی اور معاشی بحرانوں کا سامنا ہے۔ اب رینجرز لاہور میں پہنچ چکی ہیں۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ کیا لاہور کو کراچی بنانے کی سازش شروع ہو چکی ہے۔ کالم لکھتے ہوئے بہت سی باتیں ذہن میں گردش کرتی رہتی ہیں۔ ریاست اور سب سے بڑی ایک سیاسی جماعت کو آپس میں لڑوایا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ پر تا حال شیلنگ جاری ہے۔

مریم نواز کہتی رہتی ہیں کہ ترازو کے پلڑے برابر ہوں یعنی نواز شریف جو ابھی تک Convicted ہے اور اپنی منی ٹریل نہیں دے سکا اسے معاف کیا جائے۔ اس کو عمر قید کی سزا دی جائے تو پھر الیکشن اگلے دن ہی کروا لیں۔ ظاہر ہے مریم سیدھے لفظوں میں فرما رہی ہیں کہ ہم بھی چور تم بھی چور حساب برابر۔ لاہور ہائیکورٹ نے اس وقت زمان پارک میں جاری آپریشن کو روکنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ بات ظل شاہ سے شروع ہوئی تھی کہ وہ معصوم عمران خان سے ملنے کی ایک سیلفی بنانے کی وہ تمنا لیے جو حسرت میں بدل گئی دنیا سے بے وقت ہی چلا گیا۔

وہ تو اس جھنجھٹ سے آزاد ہو گیا۔ اب اس کی محبتوں کا بوجھ خان صاحب پر اور اس کے قتل کا بوجھ ریاست پر آن پڑا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب ریاست اس معاملے کو کیسے سلجھاتی ہے۔ پر ہمیں قوی یقین ہے کہ یہ قتل کا کیس بھی ظل شاہ کی میت کی طرح منوں مٹی تلے دب جائے گا کہ اس ملک کا قانون یہی کرتا رہا ہے۔ آخر میں کسی شاعر کا ایک قطعہ پیش خدمت ہے :

قاتل کی یہ ہے دلیل منصف نے مان لی
مقتول خود گرا تھا خنجر کی نوک پر
پھر وہی بات وہی قصہ پرانا نکلا
حاکم وقت سے منصف کا یارانہ نکلا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments