عام آدمی!


میری پیدائش دنیا میں ہونے والے عام تر عوامل میں سب سے زیادہ عام عمل ہے۔ میں کھربوں الیکٹرون کی ان دیکھی عام سی گردشوں کی طرح کسی گردش کے نتیجے میں دنیا میں آیا ہوں۔ مجھے پیدا کرنے میں کامیاب ہونے والے دو افراد بھی میری طرح عام ہیں۔ اور میں اس کائنات میں رونما ہوتی ان گنت تخلیقات میں سے ایک عام سے تخلیق ہوں۔ میں وقت کی ہر خاموش ساعت کی خاموشی میں خاموشی سے بھی زیادہ خاموش پیدا ہوتا ہوں اور اتنی ہی خاموشی سے میں مار دیا جاتا ہوں۔

نہ مجھے پیدا کرنے والوں کو میرے پیدا ہونے پہ کوئی خوشی ہوتی ہے اور نہ مرنے پہ۔ میری زندگی کسی عام سے مقصد سے بھی زیادہ عام ہے۔ میں ہی ہوں جو اردگرد کے ماحول میں پائی جانے والی عام سی اشیاء سے زیادہ عام ہوں اور سستا بھی۔ اس دنیا میں موجود ہر چیز چاہے وہ ہوا پانی یا مٹی ہی کیوں نہ ہو، ان سب میں سے سب سے زیادہ سستا میں ہی ہوں۔ بچپن سے ہی میری غلامی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ آنکھ کھولتے ساتھ میں مصائب کے پہاڑ سے نبرد آزما کروا دیا جاتا ہوں۔

میرا مذہب کیا ہو گا، روٹی کب اور کتنی ملے گی، کس سکول سے تعلیم حاصل کروں گا یا نہیں کروں گا، اگر کروں گا تو کتنی حاصل کروں گا سب پہلے سے ہی طے شدہ ہوتا ہے اور میں بس اس طے شدہ گردش میں چکر کاٹنا شروع کر دیتا ہوں۔ میرے کپڑے، جوتے، نام، نسب، اشیائے خورد و نوشت، رہن سہن اور سوچنے سمجھنے کے سب انداز بہت ہی سطحی اور عام ہوتے ہیں جو کہ مجھ جیسے دوسرے عام انسان ہی مجھے سکھاتے اور دیتے ہیں۔ میرا ویسے تو کوئی خاص دین دھرم نہیں ہوتا ماسوائے اس کے جو مالکوں کی طرف سے نافذ کر دیا جائے۔

میرے گھر گھٹن زدہ، معاشرے تعفن زدہ اور خیالات مسترد خیالات ہوتے ہیں۔ میرا ویسے تو جینے کا کوئی خاص مقصد ہوتا بھی نہیں مگر یہ کہ میں بہت سارے خاص لوگوں کے مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنی آخری سانس تک بر سر پیکار رہتا ہوں۔ مجھ سے ملنا ویسے تو کسی کی خواہش نہیں ہو گی مگر یہ کہ اپنے استعمال کے لیے کچھ خاص لوگ روزانہ مجھے گلی کوچوں میں سڑتے ہوئے پکڑتے ہیں اور استعمال کے بعد وہیں پھینک کر چلے جاتے ہیں۔ میری کوئی پہچان ہے نہ تعارف۔

کوئی خاص قبیلہ ہے نہ مسلک۔ کوئی قوم ہے نہ خاندان۔ باوجود اس کے میرے پاس دوسروں کے بتائے ہوئے بہت سے نعرے ہیں، میں اپنے مالک سے وابستگی کے لحاظ سے کئی فرقوں میں بٹا ہوا ہوں۔ میں اتنا عام ہونے کے باوجود بھی روپوش زندگی گزارتا ہوں۔ رات گئے تک کام کرنے کے باوجود میری روٹی پوری ہوتی ہے نہ چین کی نیند نصیب ہوتی ہے۔

دنیا میں پائے جانے والے انسانوں میں سب سے زیادہ تعداد میری یعنی عام آدمی کی ہے۔ میں جھوٹ بولتا ہوں، چوری بھی کرتا ہوں، کرپٹ بھی ہوں، تمیز و تہذیب سے ماورا ہوں، کم تولنا مکاری اور فریب میرا شیوہ ہے، الغرض کوئی بھی کام سیدھے اور صاف طور سے انجام نہیں دیتا اس لیے نہیں کہ یہ سب خرافات میری سرشت کا حصہ ہیں بلکہ اس لیے کیوں کہ مجھے یہ سب کرنا ہی سکھایا گیا ہے اور یہ سب کرنے پہ مجبور کر دیا گیا ہے اور میں بدستور کیے چلے جا رہا ہوں۔

میں ہی انقلاب لے کر آتا ہوں، تبدیلی کے جھنڈے، خدا کی حاکمیت کے نعرے، انصاف کی بالادستی کے ترازو، برابری کے دعوے، بندگی کے ثبوت کے لیے طویل رکوع و سجود، علم و آگہی کی مہمات اور آزادی کی تحریکوں کا روئے رواں بھی میں ہی ہوں۔ میں بطور ”عام آدمی“ اپنے عام سے معاشرے میں ایک ایسا سیاہ دھبہ ہوں جسے دھوتے میری کئی نسلیں گزر گئیں مگر دھبہ جوں کا توں ہے۔ مجھے اپنے گھر میں کوئی عزت دیتا ہے نہ میں ہی اپنے جیسے دوسرے عام انسانوں کی عزت کرتا ہوں۔

میں بس عام ہوں اور یہی میری شناخت ہے اس میں مزید مرد عورت۔ بچے بوڑھے غریب امیر اور ان پڑھ پڑھے لکھے جیسی کوئی تقسیم ہم میں کارگر نہیں ہوتی لیکن اس عام شناخت کو مسخ کرنے کے لیے میں نے اپنے کئی مالک بنا رکھے ہیں جو دراصل میرے ہی وسائل کو مجھ پہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے استعمال کرتے ہیں اور ایسے کرتے ہیں کہ کتوں کی ریس کی طرح مجھے بھی روزانہ ایک ٹکڑے کے لیے کئی میل بھاگنا پڑتا ہے۔

خاص افراد سے مراد وہ تمام عام انسان ہیں جو غلام گردش کے پہلے دائرے سے نکل کر دوسرے، تیسرے یا چوتھے دائرے میں محو گردش ہیں اور اپنی اپنی گردش میں وہ خود عام لیکن اپنے سے نچلے درجے کی گردش کے خدا ہیں۔ یعنی میرے عام معاشرے کے کونسلر، ایڈمنسٹریٹر، پولس افسران، جج، جرنیل، سیاستدان، جاگیر دار، مذہبی پیشوا وغیرہ جو کہ مجموعی طور پر سرمایہ داروں کے غلام ہیں۔

وسائل کی ساری تقسیم ہمارے لیے ہی ترتیب دی گئی ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ یہ سب خاص لوگ وسائل پیدا کرنے کے لیے بھی ہمیں ہی استعمال کرتے ہیں۔ جمہوریت، قانون، عدالتیں ویسے تو ہمارے لیے ہی بنائے گئے ہیں مگر کوئی عام سی ایف آئی آر کٹوانے کے لیے بھی ہمیں اپنے خاص مالکوں کے ساتھ وفاداری ثابت کرنا پڑتی ہے۔ میرے جیسے عام انسان روزانہ بھوک، افلاس اور پیاس سے مر جاتے ہیں اور میں کسی نا معلوم وجہ سے زندہ بچ جانے کی خوشی میں اپنے پروردگار کا شکر بجا لا کر سو جاتا ہوں۔

ویسے تو رہنے کے لئے میرا کوئی خاص گھر نہیں ہوتا ہو بھی تو میں اس میں رہنا نہیں چاہتا اور اگر بوجہ مجبوری رہنا پڑ رہا ہو تو میں کڑھتا رہتا ہوں اور خواہش کرتا ہوں کہ کاش میرا خاص مالک مجھے کسی سکیم کے تحت کوئی ایک آدھ مرلے کا گھر بنا کر دے دے۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا میں بنائے گئے سارے محل، عظیم الشان عمارتیں، بلند و بانگ گنبدوں کی مزین مسجدیں، بھاری بھرکم بنیادوں کے مندر اور گرجے، پر رونق جامعات سب کچھ میں نے ہی بنایا ہے اور میرے پیدا کیے ہوئے وسائل سے بنایا گیا ہے۔

ویسے تو مجھے تعلیم سے کوئی خاص دلچسپی نہیں مگر مالکوں کی نظر میں آنے کے لیے میں اپنا خون نچوڑ کر تعلیم حاصل کرتا ہوں، پرچے دیتا ہوں اور طرح طرح کے میرٹوں کی چھاننی سے گزر کر نوکری حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہوں۔ اس سے مزید میرا تعلیم سے کوئی واسطہ ہے نہ مجھے کوئی خاص لگاؤ۔

میری افزائش نسل کا واحد مقصد خدمت خاص ہے اور میں یہ خدمت انجام دینے میں ہی اپنی کامیابی سمجھتا ہوں۔ دنیا میں موجود تمام تر مخلوقات میں سے صرف زندہ رہنے کی جد و جہد کرنے والوں کی فہرست میں میرا پہلا نمبر ہے اور دلخراش موت کے گھاٹ اتارے جانے والوں میں آخری نمبر۔ مجھ سے ملنا سب سے زیادہ آسان ہے اتنا آسان کہ آپ کو بس آئینہ دیکھنا ہے اور آپ مجھے سامنے پائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments