کیا عمران خان نے ریاست کو شکست دی ہے؟


لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر زمان پارک میں عمران خان کی گرفتاری کے لئے پولیس ایکشن میں جمعرات صبح 10 بجے تک کا وقفہ کیا گیا ہے۔ اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ٹرائل کورٹ ہی کرسکتی ہے۔ عمران خان کے وکلا نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک بیان حلفی جمع کروانے کی کوشش کی تھی جس میں 18 مارچ کو سیشن کورٹ میں پیش ہونے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کا کہنا ہے کہ ٹرائل کورٹ کے حکم میں کوئی سقم نہیں ہے، درخواست گزار اسی سے رجوع کرے۔

کل عمران خان کے وکلا سیشن کورٹ میں نیا بیان حلفی دے کر وارنٹ گرفتاری معطل کروانے کی کوشش کریں گے۔ دریں حالات ممکن ہے کہ عدالت عمران خان، تحریک انصاف ، اسلام آباد پولیس اور پنجاب حکومت کو موجودہ تصادم سے بچانے کے لئے اس بیان حلفی پر اعتبار کرلے۔ البتہ اگر سیشن کورٹ نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے سے انکار کیا تو لاہور ہائی کورٹ کے پاس تحریک انصاف اور عمران خان کو ریلیف دینے کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں ہوگا۔ اس صورت میں زمان پارک میں ایک بار پھر تصادم اور فساد کی وہی صورت دیکھنے میں آسکتی ہے جس کا مشاہدہ گزشتہ روز اور آج صبح کیا گیا تھا۔

 آج پولیس نے رینجرز کی مدد سے زمان پارک پہنچنے اور عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تھی لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں نے شدید پتھراؤ اور پیٹرول بموں سے جوابی حملہ کرکے پولیس اور رینجرز کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ایس ایل کے میچ میں ٹیموں کی آمد و رفت میں سہولت کے لئے وقفہ کیا گیا تھا تاہم تحریک انصاف کے کارکنوں نے زمان پارک کے باہر اس تصادم میں ’سرخروئی‘ کا یوں جشن منایا جیسے انہوں نے کسی دشمن ملک کی فوج کو شکست دی ہے۔ پی ٹی آئی میڈیا کو یہ خبر فراہم کرتی رہی کہ جوشیلے کارکنوں نے رینجرز کو مار بھگایا۔ تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری سے مزاحمت کو اپنی بڑی سیاسی کامیابی اور حکومت کی ناکامی کے طور پر پیش کررہی ہے۔ زمان پارک میں ہونے والے تصادم میں ریاستی رٹ کے حوالے سے تو سوالات ضرور سامنے آرہے ہیں لیکن یہ کہنا قبل از وقت اور نامناسب ہے کہ اس طریقے سے عمران خان نے اپنی سیاسی قوت کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان میں اونچی آواز میں بولنے، بڑک مارنے اور للکارنے جیسے رویوں کو یہ سوچے سمجھے بغیر طاقت اور کامیابی کی علامت سمجھا جاتا ہے کہ اس رویہ کے دوررس اثرات کیا ہوں گے۔ عمران خان کی سیاسی حکمت عملی بھی فی الوقت ایسی ہی کوتاہ نظری پر استوار ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے حامی زور و شور سے زمان پارک میں کی جانے والی مزاحمت کو گلوری فائی کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ورنہ قانون کے مقابلے میں کھڑے ہونا اور اپنے حامیوں کو گرفتاری سے بچنے کے لیے ہیومن شیلڈ کے طور پر استعمال کرنے کے سیاسی اثرات شدید نقصان دہ ہوسکتے ہیں۔

پولیس و رینجرز پر ’ فتح ‘ کے بعد تقریر کرتے ہوئے حصار بند عمران خان کا کہنا تھا کہ اسٹبلشمنٹ اب بھی حکومت کا ساتھ دے رہی ہے ورنہ یہ حکومت ایک دن نہیں چل سکتی۔ عمران خان ایک طرف حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو مطعون کررہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی عدالتوں سے ریلیف لینے کی تگ و دو بھی کررہے ہیں۔ ابھی تک عدالتوں کی نرم خوئی ہی کی وجہ سے عمران خان کو سہولت بھی ملی ہوئی ہے۔ زمان پارک میں تصادم کے خلاف تحریک انصاف کی پٹیشن میں لاہور ہائی کورٹ کے فاضل جج نے پارٹی ہی کو ریلیف فراہم کیا ہے ۔ سماعت کے دوران اس بات پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی گئی کہ عمران خان معمول کی عدالتی کارروائی سے گریز کرتے رہے ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے سہولت ملنے کے باوجود وہ 13 مارچ کو سیشن کورٹ میں حاضر نہیں ہوئے۔ فاضل جج نے انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران کو بلا کر تو یہ ضرور پوچھا کی شہر میں اتنا ہنگامہ کیوں برپا کیا گیا ہے لیکن تحریک انصاف کے لیڈروں کی سرزنش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ ایک قانونی کارروائی پر عمل درآمد کے لئے آنے والی پولیس پر حملے کرکے کیا ثابت کررہے ہیں؟ کیا اب اس ملک میں قانون اور عدالتیں جتھہ بندی اور گروہی طاقت کی محتاج ہوجائیں گی؟

 البتہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے کی درخواست پر غور کرتے ہوئے واضح کیا کہ عدالت نے عمران خان کو باعزت راستہ فراہم کیا تھا لیکن انہوں نے یہ راستہ اختیار کرنے کی بجائے تصادم کو ترجیح دی۔ فاضل چیف جسٹس نے بعد میں درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ میں ٹرائل کورٹ ہی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کارروائی کو درست اور تحریک انصاف کی طرف سے تصادم کو غلط کہا ہے۔ اس حوالے سے مستقبل قریب میں ہونے والی کارروائی میں یہ آبزرویشن عدالتی فیصلوں کی سمت متعین کرسکتی ہے۔

گرفتاری دینے کی بجائے کارکنوں کو فساد پر آمادہ کرکے عمران خان نے ایک خطرناک مثال قائم کی ہے۔ اس رویہ کو یہ کہتے ہوئے قبول نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی دوسرا لیڈر عوام کو عمران خان کی طرح موبلائز نہیں کرسکتا۔ فساد کے لئے عوامی تائید کی بجائے چند سو لوگوں کو قانون شکنی پر آمادہ کرنا ہوتا ہے۔ عمران خان نے یہی کام کیا ہے۔ منگل کو پولیس زمان پارک پہنچی تو انہوں نے ایک ویڈیو پیغام میں لوگوں کوزمان پارک پہنچنے کی تاکید کی لیکن بعد میں میڈیا سے انٹرویوز میں یہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ وہ گرفتاری کے لئے تیار ہیں۔ اس طرح انہوں نے اپنے ہی اکسانے پر جمع ہونے والے کارکنوں کی غیر قانونی سرگرمی سے لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش کی بلکہ یہ بھی کہا کہ اب یہ مشتعل ہجوم ان کا کہنا بھی نہیں مانے گا۔ عمران خان کی ان باتوں پر صرف اس صورت میں اعتبار کیا جاسکتا تھا اگر وہ خود کو گرفتاری کے لئے پیش کردیتے تاہم جیسا کہ دیکھا جاسکتا ہے وہ بدستور زمان پارک کی رہائش گاہ میں چھپے ہوئے ہیں اور جب بھی پولیس پارٹی کارکنوں کی مزاحمت کے بعد پیچھے ہٹتی ہے تو وہ اس فتح کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لئے خطاب کرنے باہر بھی آجاتے ہیں۔ ایسے میں کارکنوں کے بے پناہ اشتعال کا عذر تراشنے کی اصل وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اگر ان کے خلاف قانونی و عدالتی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے ، پولیس پر حملہ کرنے اور بلوہ کا الزام عائد ہوتا ہے تو وہ اس فساد کا سارا ملبہ کارکنوں کے سر ڈال کر خود کو ’بے گناہ‘ ثابت کرسکیں۔ تحریک انصاف کے کارکنوں کو بھی اپنے لیڈر کے اس دوغلے پن سے آگاہ رہنا چاہئے۔

وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے الزام عائد کیا ہے کہ زمان پارک میں پنجاب پولیس پر حملہ کرنے کے لئے گلگت بلتستان سے پولیس دستے بلائے گئے تھے۔ اسی لئے وفاقی حکومت نے فوری طور سے گلگت بلتستان کے آئی جی کو تبدیل کردیا ہے۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس معاملہ کی تفصیلات تو ابھی سامنے نہیں آئیں لیکن گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے حکومت کے اس دعوے کو مسترد کیا ہے لیکن وہ خود پولیس مقابلہ کے دوران عمران خان سے ملنے کے لئے زمان پارک پہنچے ہوئے تھے۔ اگرچہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کی سکیورٹی پنجاب پولیس کے حوالے ہے۔ لیکن یہ سوال تو بہر حال جواب طلب ہے کہ سول نافرمانی کے ماحول میں وہ عمران خان سے اظہار یک جہتی کے لئے کیوں آئے تھے؟ اس دوران تحریک انصاف کی لیڈر یاسمین راشد کا ایک آڈیو لیک منظر عام پر آیا ہے جس میں وہ عمران خان کا یہ پیغام آگے پہنچا رہی ہیں کہ جو ارکان اسمبلی کارکن لے کر زمان پارک نہیں پہنچیں گے، انہیں پارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ یہ تفصیلات بھی سامنے آنی چاہئیں کہ زمان پارک میں پولیس مقابلہ کرنے والے لوگوں میں کتنے مقامی کارکن تھے اور کتنے لوگ دوسرے شہروں سے پکڑ کر لائے گئے تھے۔

زمان پارک سانحہ سے یہ سوال بہر حال ضرور سامنے آیا ہے کہ کیا ریاست پاکستان اس قدر بے بس اور کمزور ہوچکی ہے کہ ایک عدالتی وارنٹ کی تعمیل کروانے سے بھی قاصر ہے۔ اس سوال کی کئی طریقے سے توجیہ کی جارہی ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کا معاملات پر کنٹرول نہیں ہے۔ اہم اور طاقت ور ادارے یعنی عدلیہ اور فوج اس کا ساتھ دینے پر تیار نہیں۔ اسی لئے عمران خان کی گرفتاری کے لئے آنے والی پولیس بے بس اور کمزور دکھائی دی۔ ریاست کی اس کمزوری سے عالمی سطح پر پاکستان کو خجالت اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایک خبر کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بھی ملک کے داخلی انتشار کی وجہ سے تعطل کا شکار ہے۔ اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ عمران خان نے جان بوجھ کر موجودہ حکومت کو کمزور کرنے کے لئے گرفتاری دینے کی بجائے ’مقابلہ ‘ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ حکومت کو مشکل کا سامنا ہو۔ لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ درحقیقت ملکی مفاد کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ تاہم سیاسی مفادات پر نگاہ رکھنے والے لیڈر قومی مفاد کو ہمیشہ فراموش کرتے آئے ہیں۔

البتہ معاملہ کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت عمران خان کی گرفتاری سے پیدا ہونے والی سیاسی پیچیدگی کو سمجھتے ہوئے کوئی انتہائی قدم اٹھانے سے گریز کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمان پارک پر مقابلہ کرنے والے پولیس دستے غیر مسلح تھے جبکہ زمان پارک میں پی ٹی آئی کے اسلحہ بردار لوگ موجود تھے۔ اس کے علاوہ پولیس نے طاقت کا محدود استعمال کیا حتی کہ لاٹھی چارج سے بھی گریز کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تصادم میں پولیس افسر ہی بڑی تعداد میں زخمی ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کے نام نہاد کارکن پتھروں اور پیٹرول بموں سے حملے کرکے بھاگ جاتے تھے ۔

یوں لگتا ہے کہ عمران خان اشتعال دلا کر حکومت کو کسی بڑی غلطی کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں لیکن فی الحال حکومت نے سوجھ بوجھ سے کام لیتے ہوئے انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا ہے۔ ریاستی کمزوری کی بظاہر علامتوں کے باوجود حکومت کا لچکدار رویہ بہر حال قابل تحسین ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف کو بھی تصادم ترک کرکے سیاسی و قانونی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments