ایک باجے کی آپ بیتی


گورنمنٹ کالج کے دنوں میں ہمارے ایک دوست تھے جنہیں موسیقی سے بے پناہ محبت تھی، بچپن سے معروف استادوں سے کلاسیکی موسیقی سیکھ رہے تھے، صبح شام ریاض کرتے ، موسیقی در حقیقت ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔مسئلہ یہ تھا کہ ان کے والد صاحب نجیب الطرفین اتائی تھے، مستزاد یہ کہ انتہائی مذہبی شخص تھے، ابتدا میں تو اپنے خوش گلو فرزند کو گائیکی کی الف بے سکھانے کے لئے خود ایک ’خان صاحب‘ کے پاس لے گئے، خواہش یہ تھی کہ بیٹا خشوع و خضوع سے نعتیں پڑھا کریگا، مگر جلد ہی ”کچھ اور چاہئے وسعت مرے بیاں کیلئے“ والی صورت احوال نظر آنے لگی، بیٹا فنا فی الموسیقی کے درجے پر فائز ہو گیا۔اس دوران ’گمراہ‘ بیٹے کو راہِ راست پر لانے کی بہت کوشش کی گئی مگر دریائے شوق چڑھتا چلا گیا۔ ریاض کرنے پربہت سی پابندیاں عائد کر دی گئیں، لہٰذا کبھی گھڑے میں منہ ڈال کر ریاض کیا جاتا، کبھی چھت پر چڑھ کر، اکثر ”رگی“ میں گایا جاتا اور وہ بھی مندر سپتک میں، محلے کی تمام مساجد کی سب اذانوں کے درمیان ساز و آواز معطل کر دیے جاتے۔ مگر اس’ ’محتاط ڈرائیونگ“ کے باوجود کبھی بڑا حادثہ رونما ہو ہی جایا کرتا تھا۔ ایک دن والد صاحب کسی بات پر بہت برہم تھے، اسی دوران ایک گمک کی تان ان کی مقدس سماعتوں سے ٹکرائی جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا، بزرگ وار غصے سے کانپتے ہوئے پہلی منزل پر واقع ریاض خانے المعروف ’چھوٹا کمرہ‘ میں گرجتے برستے داخل ہوئے، تان پورا کے تونبے کو ٹھوکر ماری مگر تسلی نہ ہوئی، ایک قدم آگے بڑھ کر دونوں ہاتھوں سے ہارمونیم اٹھایا اور کھڑکی سے باہر نیچے سڑک پر پھینک دیا۔طوفان تھمنے کے کچھ دیر بعد ہمارے دوست پنجوں کے بل سیڑھیاں اتر کر باہر گلی میں آئے، اور ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے بکھرے ہوئے باجے کو اکٹھا کرنا شروع کیا، کوئی سر سڑک سے ملا کوئی تھڑے سے،پنچم اور گندھار نالی سے بازیاب ہوئے۔ اگلے ہی دن باجے کی باقیات گوال منڈی میں ایک ساز گر کے پاس لے جائی گئیں، چار پانچ دن بعد باجا جتنا ٹھیک ہو سکتا تھا ہو گیا جسے رات کی تاریکی میں چھوٹے کمرے میں اسمگل کر دیا گیا۔ ریاض خانے میں دھیمے دھیمے سر پھر سے بکھرنے لگے۔ والد صاحب کو بھی خبر ہو گئی مگر گھر کے ماحول کو ہم وار رکھنے کیلئے انہوں نے صرف نظر کو ترجیح دی۔ آنے والے برسوں میں بھی مضروب باجے کی زندگی میں ایسے واقعات دہرائے جاتے رہے۔نہ والد صاحب نے اپنی خُو چھوڑی نہ فرزند نے اپنی وضع بدلی۔ پاکستان کی کہانی بھی کچھ اس سے ملتی جلتی ہے جہاں جمہوریت کا راگ دبی دبی آواز میں گانے کی محدود اجازت دی جاتی ہے، کبھی سیاست دان گھڑے میں منہ ڈال کر سیاسی ریاض کرتے ہیں اور کبھی لے بٹھا کررگی میں آئینی ترانے گنگناتے ہیں، یعنی کنٹرولڈ ریاض کہئے یا کنٹرولڈ جمہوریت، ایک ہی بات ہے۔

کبھی کبھی ضیا الحق جیسے ’ابا جی‘ سے بھی واسطہ پڑ جاتا ہے جو چاہتے ہیں کہ سیاست دانوں کو جمہوریت کا راگ الاپنے کے بہ جائے خود کو صرف ثنا خوانی تک محدود کر لینا چاہئے۔اور اس تمام کنٹرول کے باوجود کئی مرتبہ برہمی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ جمہوریت کا باجا ہی اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیا جاتا ہے۔ کچھ وقت گزرتا ہے تو باجا مرمت کے لئے دوبارہ گوال منڈی کے کاری گر سے ٹھیک کروایا جاتا ہے۔اور پھر سے چھوٹے کمرے سے ڈھولکی کی پولی پولی تھاپ سنائی دینے لگتی ہے۔ پچھتر سال سے یونہی چل رہا ہے۔ پہلی مرتبہ ایوب خان نے باجا اٹھا کر گلی میں پھینکا تھا، بھٹو صاحب نے بچے کھچے باجے کے کالے سفید سر اکٹھے کئے، باجا مرمت کر کے ہلکا ہلکا تان پلٹا شروع ہی کیا تھا کہ ضیاالحق صاحب آن دھمکے، حیف اس باجے کی قسمت۔چار دفعہ جمہوریت کا باجا بجایا گیا، اور باقی وقت کنٹرولڈ جمہوریت۔

یہ جن سیاست دانوں کو روزِ اول سے اس ریاست میں مطعون قرار دیا گیا آخر انہی سے ٹوٹا پھوٹا باجا ٹھیک کروایا جاتا ہے۔ پاکستان میں آج تک اگر کسی طبقے نے مسلسل احتساب کا سامنا کیا ہے تو وہ سیاست دان ہیں ، یہ معاملہ پروڈا اور ایبڈو سے شروع ہو کر، نیب سے گزرتا ہوا، توشہ خانے تک آ پہنچا ہے۔احتساب کی ان چھلنیوں سے جج، جرنیل اور بیوروکریٹ نہیں گزارے گئے، یہ سیاست دانوں کا مقسوم رہا ہے۔ توشہ خانے کی جاری شدہ تفصیلات کا بھی یہی پیغام ہے یعنی اس حمام میں سب سیاست دان ننگے ہیں جو چمچ کانٹے سے گاڑیوں تک سب کچھ سمیٹ کر لے گئے۔ جب کہ باقی سب سادھو ہیں، مہنت ہیں۔یہ ملک آج تک سیاست دانوں نے نہیں چلایا، انہی سادھوﺅں نے چلایا ہے، انہی جوگیوں نے اس ریاست کو اس حال تک پہنچایا ہے۔کنٹرولڈ جمہوریت کا حساب سیاست دان سے مانگنا بھی نادانی ہے، جواب تو کنٹرول قائم رکھنے کے شوقین ہی دے سکتے ہیں۔ اور یہ بھی تو سچ ہے کہ سارے لیڈر آپ ہی کی پیش کش ہیں۔آپ بتائیں یہ ملک اس حال کو کیسے پہنچا؟ ایسا ہمہ گیر زوال، معیشت، معاشرت، سیاست سب کچھ تباہ کر دیا گیا۔کوئی ایک اشارہ بھی حوصلہ افزا نہیں، ملک کے حوالے سے اچھی خبر سنے ہوئے بھی مدت گزر گئی، دوستوں کی ہر محفل ناامیدی کے نقطے پر تمام ہوتی ہے، یہاں سے ہجرت کرنے والوں کا ذکر رشک سے کیا جاتا ہے۔ایسا کیوں ہوا؟ ایسی بے سُری ریاست، ایسا بے تال ملک۔آپ نے سب کچھ آزما کے دیکھ لیا، کنٹرول کر کے بھی دیکھ لیا، باجا گلی میں پھینک کر بھی دیکھ لیا، یہ سب سٹرم پٹرم نسخے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اب ایک دفعہ، صرف ایک دفعہ، ہماری درخواست پر آئین کو بھی آزما کر دیکھ لیں۔ وقت ختم ہو رہا ہے۔ اب کے یہ باجا ٹوٹا تو شاید اسے کوئی بھی نہ جوڑ سکے!

(بشکریہ روزنامہ جنگ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments