قوم پرست طالبان اور توبہ تائب قوم پرست


دو سال کی مینڈیٹ رکھنے کے باوجود ماؤنٹ بیٹن کو اتنی جلدی تھی کہ تقسیم کے نتیجے میں پیدا ہونے والے دونوں ممالک جڑے ہوئے توام بچوں کی طرح آج تک کسی نہ کسی شکل میں ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، پاکستان کے دو طرفہ بارڈر کے مسائل جس کی ایک صورت ہے۔ جس کی وجہ سے مشرقی بارڈر پر پاکستان کو اعتراض ہے تو مغربی بارڈر پر افغانستان کو۔ میں ہمیشہ پاکستان کی سفارتی پالیسی کا نقاد رہا ہوں لیکن یہ حقیقت ہے کہ عشروں سے افغانستان میں بنی ہوئی صورتحال پاکستان کے مغربی بارڈر کو موثر انداز میں مینیج کرنے کا نتیجہ ہے۔ جس کی وجہ سے ڈیورنڈ لائن نہ ماننے والے لر وبر کے نعرے لگانے والوں کو پہلے دریائے آمو تک پسپائی اختیار کرنی پڑی اور آج پختونخوا میں ایک جھنڈے کی وجہ سے صفائیاں دینی پڑ رہی ہیں۔

آزادی کی جنگ میں کانگریس کے ساتھ بے بہا مصائب برداشت کرنے والے باچا خان نے کبھی بھی آزاد پختونستان یا الگ پختون ملک کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان بنے سینڈوچ ہندوستان کی طرح، ان کا خیال تھا کہ مغربی ہندوستان اور مشرقی ہندوستان یعنی اس وقت کے این ڈبلیو ایف پی اور آج کے ہندوستان کے درمیان پاکستان سینڈوچ بنے رہنے سے ان کی اور پختونوں کی تا ابد اہمیت بنی رہے گی لیکن انہیں اپنی اس سادگی کا احساس بڑی دیر کے بعد ہوا جب ان کی پارٹی، قربانیوں اور پیروکاروں کو کانگریس نے آزادی کے قمار خانے میں آخری چِپس کی طرح آخری داؤ پر لگادیا۔

تب انہوں نے ریفرینڈم میں آزاد پختونستان کی آپشن نہ منوا سکنے پر اس کا بائیکاٹ کر دیا۔ (باچا خان کی سیاسی ناکامیوں پر کسی اور کالم میں بات ہوگی) ۔ بہرحال انہوں نے جب بھی آزاد پختونستان یا پختونستان کا مطالبہ کیا تو وہ کم ازکم آج کے پختونخوا کو افغانستان کے ساتھ الحاق کرنے کے لئے کبھی بھی نہیں تھا۔ انگریز کا دور ہو یا تقسیم کے بعد ان کی جدوجہد انہوں نے کبھی بھی اپنے علاقے افغانستان میں شامل کرنے کی بات نہیں کی۔

باچا خان کے بعد مختلف اوقات میں مختلف قوم پرست لیڈروں نے پختونستان کا نعرہ مختلف طاقتوں سے اپنی اہمیت، مراعات اور پختونوں کو کنفیوز کرنے کے لئے بار بار استعمال کیا جس کی بھاری قیمت بارڈر کے دونوں طرف کے موجود پختونوں کو آج تک ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ لر وبر، آزاد پختونستان اور آمو سے اٹک تک کے نعرے اور دعوے مختلف اوقات میں بارڈر کے دونوں طرف مختلف پختون قوم پرست لیڈروں کے علاوہ مختلف افغان حکومتوں نے پاکستان پر پریشر ڈالنے اور روس و امریکہ سے اپنے لیے آسانیاں مراعات اور مفادات کے لئے استعمال کیے ۔

جب پاکستان میں امریکی اعانت سے اسلامی بنیاد پرستی پنپتی رہی تو افغانستان میں روس کی مدد سے قوم پرستی روبہ ترقی تھی۔ افغانستان کے پختون پاکستان کے پختونوں کو ’غلامی‘ کے طعنے دیتے رہے لیکن یہ کبھی نہیں مانا کہ پاکستان میں موجود پختونوں اور ان کے علاقوں کو انگریز سے ’کالداری‘ (ہندوستانی کرنسی) کے حصول کی غرض سے ان کے مشاہیر نے معاہدے کر کے بیچا تسلیم کیا اور بھول گئے۔

پختونستان کے لولی پاپ کو اتنے خوبصورت ریپر میں لپیٹ کر بیچا جاتا ہے کہ آج تک جس نے بھی خریدا اس نے اسے اپنی عقل کی مناسبت سے خوبصورت سمجھا۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ پختونستان، پختونخوا کا افغانستان کے ساتھ الحاق ہے یا افغانستان کو توڑ کر پاکستانی پختون علاقوں کے ساتھ انضمام ہے؟ اگر افغانستان کے ساتھ الحاق ہے تو وہ علاقہ تو بذات خود گندم سے لے کر تعلیم اور صحت تک کے لئے پاکستان کا محتاج ہے۔ پختونخوا میں موجود روزگار مراعات سہولیات اور امن چھوڑ کر کوئی کیوں افغانستان میں موجود تشدد بدامنی اور ہر لاٹھی والے کی بھینس بننے پر تیار ہو گا؟ یا یہاں بھی خلافت داعش چھری گلا اور انارکی پیدا کرنے کا پروگرام تیار ہے جو شام عراق افغانستان تک پہنچنے کے بعد یہاں بھی اپنی برکات عام کرنا چاہتی ہے؟

پشاور میں سو کے قریب پولیس والوں کے قتل کے خلاف مقتولین کے ساتھ یکجہتی ریلی میں ایک فریق نے لر وبر کے نعرے لگوائے اور دوسرے نے آزاد پختونستان کا جھنڈا لہرا دیا۔ پولیس والوں کی لاشیں اور تعزیت شہر کے بیچوں بیچ دھری کی دھری رہ گئی اور کابل سے سرخ ڈولی اور آمو سے اٹک تک کے دعوے کرنے والوں نے اپنی صفائیاں دینی شروع کر دیں، جس کے کفارے میں پھر علی وزیر کو بھی سوشل میڈیا کے حوالے کیا گیا۔ قوم پرستوں کے پختونستان سے توبہ تائب ہونا ایک طرف پاکستان کی عملی سفارتی سٹریٹیجی کی جیت ظاہر ہوتی ہے تو دوسری طرف قوم پرستوں کی کم ہوتی ہوئی سپیس اور نازک صورتحال کی غمازی کرتی ہے۔

توبہ تائب ہونے کی اصل وجہ آمو سے اٹک تک کا دعویٰ کرنے والے صرف توبہ تائب قوم پرست نہیں بلکہ قوم پرست طالبان بھی اب کرنے لگے ہیں۔ اب قوم پرستی کے تمبو میں عدم تشدد کا میمنہ طالبان کے ساتھ کتنے لمحے جی سکتا ہے؟ خود اندازہ کریں۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ طالبان قوم پرستی کا آخری نعرہ بھی قوم پرستوں سے سے چھیننا چاہتے ہیں یا ہر طرف سے مایوس ہو کر وہ ان کا دست و بازو بن کر ان کو قوت مہیا کرنا چاہتے ہیں اور یا سوات اور وزیرستان کی طرح اٹک تک اپنی رٹ بڑھا کر باقی پختونخوا کو بھی کچھ دنوں کے لئے آمو سے طورخم تک کا ذائقہ چھکانا چاہتے ہیں۔

کبھی پنجاب میں مائیں جن پٹھانوں سے اپنے بچوں کو ڈرایا کرتی تھیں پختون آج گلی گلی ان بچوں کو دہائیاں دے کر امن مانگتے ہیں، جو امن نہیں دراصل امان ہے۔ لیکن بارودی اور کباڑی بننے کے باوجود آج بھی یہ ایک دوسرے کو اپنی ہزار سالہ تاریخ کے مرے ہوئے ڈائنو سارز کی کہانیاں سناتے ہوئے نہیں تھکتے، جبکہ حقیقت میں وہ کڑک مرغیاں بنے رائیونڈ کے تیار کردہ مولویوں کے پیچھے بستر اٹھائے مسجد مسجد پھرتے ہیں۔

سوچیں اگر سوات اور وزیرستان کی طرح بقایا پختونخوا کو سٹریٹیجی کے تحت کچھ وقت کے لئے جز وقتی شکست کی شکل میں طالبان کے حوالے کیا جائے اور باقی پختونخوا بھی وہ ذائقہ چکھ لیں جو سواتیوں اور وزیرستانیوں نے چکھا ہے تو لر وبر اور آمو تا اٹک کے دعویٰ گیروں کے لئے کون سی جائے پناہ بچے گی؟

اٹک تک ’خلافت‘ قائم کرنے والے طالبان اور قوم پرستوں کے بیچنے والے لولی پاپ میں کچھ مشترکہ گرے ایریاز دکھائی دینے لگے ہیں کیا سب اپنا اپنا ماضی بھلا کر ان مشترکات پر مبنی کوئی معاہدہ کر سکتے ہیں جو افغانستان اور پختونخوا میں دیرپا امن اور خوشحالی کا ضامن بنے یا اسی طرح کبھی خود کش کبھی ڈرون اور کبھی نامعلوم کے ہاتھوں آخری بندے کے قتل ہونے تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

شازار جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شازار جیلانی

مصنف کا تعارف وجاہت مسعود کچھ یوں کرواتے ہیں: "الحمدللہ، خاکسار کو شازار جیلانی نام کے شخص سے تعارف نہیں۔ یہ کوئی درجہ اول کا فتنہ پرور انسان ہے جو پاکستان کے بچوں کو علم، سیاسی شعور اور سماجی آگہی جیسی برائیوں میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ یہ شخص چاہتا ہے کہ ہمارے ہونہار بچے عبدالغفار خان، حسین شہید سہروردی، غوث بخش بزنجو اور فیض احمد فیض جیسے افراد کو اچھا سمجھنے لگیں نیز ایوب خان، یحییٰ، ضیاالحق اور مشرف جیسے محسنین قوم کی عظمت سے انکار کریں۔ پڑھنے والے گواہ رہیں، میں نے سرعام شازار جیلانی نامی شخص کے گمراہ خیالات سے لاتعلقی کا اعلان کیا"۔

syed-shazar-jilani has 127 posts and counting.See all posts by syed-shazar-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments