جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
میری سب کتابوں کو چاٹ گیا۔ بڑا موذی تھا۔ خدا نے پردہ ڈھک لیا۔ افوہ! جب اس کی لمبی لمبی مونچھوں کا خیال کرتا ہوں، جو وہ مجھ کو دکھا کر ہلایا کرتا تھا تو آج اس کی لاش دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ بھلا دیکھو تو قیصر ولیم کی نقل اتارتا تھا۔
اس جھینگر کی داستان ہرگز نہ کہتا، اگر دل سے عہد نہ کیا ہوتا کہ دنیا میں جتنے حقیر و ذلیل مشہور ہیں، میں ان کو چار چاند لگا کر چمکاؤں گا۔
ایک دن اس مرحوم کو میں نے دیکھا کہ حضرت ابن عربی کی فتوحات مکیہ کی ایک جلد میں چھپا بیٹھا ہے۔
میں نے کہا کیوں رے شریر! تو یہاں کیوں آیا؟ اچھل کر بولا ذرا اس کا مطالعہ کرتا تھا۔
سبحان اللہ بھائی کیا خاک مطالعہ کرتے تھے۔ بھائی یہ تو ہم انسانوں کا حصہ ہے۔
بولا واہ! قرآن نے گدھے کی مثال دی ہے کہ لوگ کتابیں پڑھ لیتے ہیں مگر نہ ان کو سمجھتے ہیں نہ ان پر عمل کرتے ہیں، لہٰذا وہ بوجھ اٹھانے والے گدھے ہیں جن پر علم و فضل کی کتابوں کا بوجھ لدا ہوا ہے۔
مگر میں نے اس مثال کی تقلید نہیں کی۔ خدا مثال دینی جانتا ہے تو بندہ بھی اس کی دی ہوئی طاقت سے ایک نئی شان پیدا کر سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان مثل ایک جھینگر کے ہے جو کتاہیں چاٹ لیتے ہیں، سمجھتے بوجھتے خاک نہیں۔ یہ جتنی یونیورسٹیاں ہیں سب میں یہی ہوتا ہے۔ ایک شخص بھی ایسا نہیں ملتا جس نے علم کو علم سمجھ کر پڑھا ہو۔
جھینگر کی یہ بات سن کر مجھ کو غصہ آیا اور میں نے زور سے کتاب پر ہاتھ مارا۔
جھینگر پھدک کر دوسری کتاب پر جا بیٹھا اور قہقہہ مار کر ہنسنے لگا۔ واہ خفا ہو گئے، بگڑ گئے۔ لا جواب ہو کر لوگ ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔ لیاقت تو یہ تھی کہ کچھ جواب دیتے۔ لگے ناراض ہونے اور دھتکارنے۔
ہائے کل تو یہ تماشا دیکھا تھا۔ آج غسل خانہ میں وضو کرنے گیا تو دیکھا بے چارے جھینگر کی لاش کالی چیونٹیوں کے ہاتھوں پر رکھی ہے اور وہ اس کو دیوار پر کھینچے لیے جاتی ہیں۔
جمعہ کا وقت قریب تھا۔ خطبہ کی اذان پکار رہی تھی۔ دل نے کہا جمعے تو ہزاروں آئیں گے۔ خدا سلامتی دے، نماز پھر پڑھ لینا۔ اس جھینگر کے جنازے کو کندھا دینا ضروری ہے۔ یہ موقعے بار بار نہیں آتے۔
بیچارہ غریب تھا۔ خلوت نشین تھا۔ خلقت میں حقیر و ذلیل تھا، مکروہ تھا، غلیظ سمجھا جاتا تھا۔ اسی کا ساتھ نہ دیا تو امریکہ کے کروڑ پتی راک فیلر کے شریک ماتم ہو گے؟
اگرچہ اس جھینگر نے ستایا تھا، جی دکھایا تھا لیکن حدیث میں آیا ہے کہ مرنے کے بعد لوگوں کا اچھے الفاظ میں ذکر کیا کرو۔ اس واسطے میں کہتا ہوں :
خدا بخشے بہت سی خوبیوں کا جانور تھا۔ ہمیشہ دنیا کے جھگڑوں سے الگ، کونے میں کسی سوراخ میں، بوریہ کے نیچے، آبخورے کے اندر چھپا بیٹھا رہتا تھا۔
نہ بچھو کا سا زہریلا ڈنک تھا، نہ سانپ کا سا ڈسنے والا پھن، نہ کوے کی سی شریر چونچ تھی، نہ بلبل کی مانند پھولوں کی عشق بازی۔ شام کے وقت عبادت رب کے لیے ایک مسلسل بین بجاتا تھا اور کہتا تھا کہ غافلوں کے لیے صور ہے اور عاقلوں کے لیے جلوۂ طور ہے۔
ہائے آج غریب مر گیا۔ جی سے گزر گیا۔ اب کون جھینگر کہلائے گا۔ اب ایسا مونچھوں والا کہاں دیکھنے میں آئے گا۔ ولیم میدان جنگ میں ہے ورنہ اسی کو دو گھڑی پاس بٹھا کر جی بہلاتے کہ مری مٹی کی نشانی ایک یہی بے چارہ دنیا میں باقی رہ گیا ہے۔
ہاں تو جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے چیونٹیاں تو اس کو اپنے پیٹ کی قبر میں دفن کر دیں گی۔ میرا خیال تھا کہ ان شکم پرستوں سے اس توکل شعار فاقہ مست کو بچاتا اور ویسٹ منسٹر ایبے یا قادیان کے بہشتی مقبرہ میں دفن کراتا۔ مگر جناب یہ کالی چیونٹیاں بھی افریقہ کے مردم خور سیاہ وحشیوں سے کم نہیں۔ کالی جو چیز بھی ہو ایک بلائے درماں ہے۔ اس سے چھٹکارا کہاں ہے۔
خیر تو مرثیے کے دو لفظ کہہ کر مرحوم سے رخصت ہو۔
جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
قیصر کا پیارا ہے اسے توپ پہ کھینچو
اے پروفیسر، اے فلاسفر، اے متوکل درویش، اے نغمہ ربانی گانے والے قوال! ہم تیرے غم میں نڈھال ہیں اور توپ کی گاڑی پر تیری لاش اٹھانے اور اپنے بازو پر کالا نشان باندھنے کا ریزولیوشن پاس کرتے ہیں۔ خیر اب تو چیونٹی کے پیٹ کی قبر میں دفن ہو جا مگر ہم ہمیشہ ریزولیوشنوں میں تجھے یاد رکھیں گے۔
- جھینگر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے - 17/03/2023
- مس چڑیا کی کہانی - 04/04/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).