یہ عمران خان کی کامیابی نہیں، نظام عدل کی ناکامی ہے


مریم نواز اور رانا ثنا اللہ کے یہ بیانات کھسیانی بلی کھمبا نوچے، کی حیثیت رکھتے ہیں کہ عمران خان کو گرفتار کرنا تو پانچ منٹ کا کام تھا لیکن ہم یا تو اسے گرفتار کرنا نہیں چاہتے تھے یا ہم خوں ریزی سے بچ رہے تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ عمران خان نے اسلام آباد کی ایک عدالت کے وارنٹ گرفتاری کی بھد اڑا کر نہ صرف حکومت وقت کی اتھارٹی کو زمین بوس کیا ہے بلکہ عدالتی وقار و اختیار کی قلعی بھی کھول دی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اس معاملہ کو دو روز قبل ٹرائل کورٹ کا ڈومین قرار دیتے ہوئے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے سے انکار کر دیا تھا اور عمران خان کے وکلا سے کہا تھا کہ وہ ریلیف لینے یا یقین دہانی کروانے کے لئے ٹرائل کورٹ جائیں کیوں کہ بلا ضمانت وارنٹ گرفتاری کے فیصلہ میں کوئی سقم نہیں ہے۔ گزشتہ روز ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ظفر اقبال نے معاملے کی سماعت کرتے ہوئے وارنٹ گرفتاری معطل کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے قانون کے مطابق فرائض ادا کرنے کی کوشش کرنے والی پولیس کے کام میں رکاوٹ ڈال کر اور اس کے خلاف بدترین طاقت کا مظاہرہ کر کے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے، اس کی روشنی میں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں رہے۔

جج ظفر اقبال نے اپنے فیصلہ میں لکھا کہ ’درخواست گزار اس مقدمہ میں چار بار استثنا ملنے کے باوجود عدالت میں پیش نہیں ہوا۔ پولیس کے خلاف بدترین طاقت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ان حالات میں درخواست گزار کی یہ درخواست منظور نہیں کی جا سکتی کہ گرفتاری کے وارنٹ معطل کر دیے جائیں۔ بیان حلفی کی بنیاد پر وارنٹ معطل نہیں ہوتے۔ خاص طور سے درخواست گزار نے امن و امان کی جو صورت حال پیدا کی اس کی روشنی میں وہ قاعدے کے مطابق بعض عمومی حقوق سے بھی محروم ہوچکے ہیں۔ قانون طاقت ور یا کمزور سب کے لئے یکساں ہے۔ اپنے رویہ سے سرکاری خزانے اور املاک کو شدید نقصان پہنچانے کے بعد ایک حلف کی بنیاد پر وارنٹ گرفتاری کو معطل کرنے کی درخواست مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ عمران خان کے طرز عمل کی وجہ سے غریب ملک کو محض ایک وارنٹ کی تعمیل کے لئے کروڑوں روپے صرف کرنے پڑے۔ ان حالات میں حقائق اور قانون کی روشنی میں اس درخواست کو منظور نہیں کیا جا سکتا‘ ۔

تاہم ٹرائل کورٹ کے اس حکم اور اس میں دیے گئے جواز کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے نہ صرف یہ درخواست آج فوری سماعت کے لئے منظور کی بلکہ اس یقین دہانی پر کہ عمران خان 18 مارچ کو عدالت میں پیش ہوں گے، وارنٹ گرفتاری معطل کر کے، عمران خان کو ریلیف فراہم کیا تاکہ وہ پولیس کی حراست کی بجائے اپنی ’مرضی‘ سے سیشن کورٹ میں پیش ہوں۔ جسٹس عمر فاروق نے عمران خان کے وکلا کو یہ تنبیہ ضرور کی کہ اگر اس بار بھی انہوں نے جل دینے کی کوشش کی تو ان کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ قائم ہو گا۔ لیکن وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد روک کر عدالت نے نہ صرف خود ہی ایک ہی روز پہلے دیے گئے اپنے ہی حکم سے رجوع کر لیا بلکہ اسلام آباد پولیس اور زمان پارک میں تحریک انصاف کے کارکنوں کے حملوں میں زخمی ہونے والے پچاس ساٹھ پولیس افسران کی توہین بھی کی۔ اب ان لوگوں کو کون کیسے بتائے گا کہ وہ جس عدالتی نظام کی تعمیل کے لئے زمان پارک میں عمران خان کے مشتعل حامیوں کے پتھراؤ اور تشدد کا سامنا کرتے رہے تھے، وہ خود سب کے لئے قانون یکساں ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود طاقت ور کے مقابلے میں ’نرمی‘ دکھانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم اس حد تک تو قابل فہم ہے کہ اس حکم کے ذریعے مزید تصادم روکنے اور زمان پارک میں گرفتاری کی نئی کوشش کی صورت میں رونما ہونے والے کسی سانحہ کی پیش بندی کا اہتمام کیا گیا ہے۔ یوں اس فیصلہ کو مصلحت پر مبنی سمجھ کر درست کہا جاسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عدالتی نظام مصلحتوں یا سیاسی ضرورتوں کے مطابق کام نہیں کرتا بلکہ اس میں شواہد اور ثبوتوں کی بنیاد پر قانون کی روشنی میں فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ کے فاضل جج اپنے ریمارکس اور فیصلوں میں تو ضرور قانون کی بالادستی کا گن گاتے ہیں لیکن عملی طور سے طاقت ور کے سامنے سرنگوں ہونے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ یہی صورت حال لاہور ہائی کورٹ میں بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج نے بدھ کو ایک روز کے لئے پولیس کو عمران خان کی گرفتاری کے لئے پیش قدمی سے روک دیا تھا۔ اگلے روز کسی مزید سماعت کے بغیر اس حکم میں ایک دن کی توسیع کردی گئی۔ آج صبح پولیس کو 3 بجے سہ پہر تک گرفتاری سے روک دیا گیا۔ اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کا تازہ حکم موصول ہو گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج بھی عمران خان کے وکیلوں کو یہی یاد دلاتے رہے کہ قانون سب کے لئے برابر ہے لیکن عملی طور سے وہ اس مساوات کا مظاہرہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ متعدد مقدمات میں حفاظتی ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کے لئے شام چھ بجے تک عمران خان کے پیش ہونے کا انتظار کیا گیا اور فاضل جج قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی بجائے ایک خود پسند لیڈر کی انا کی تسکین کا باعث بنے۔ یہ وہی عدالتیں ہیں جہاں اس ملک کے عام شہری کو داد رسی کے لئے پہروں ہی نہیں بلکہ مہینوں اور سالوں انتظار کرنا پڑتا ہے لیکن عمران خان آنے پر آمادہ ہوں تو انہیں ہجوم کے ہمراہ اپنی گاڑی کو ہائی کورٹ کے اندر لانے سے روکنا بھی ضروری خیال نہیں کیا جاتا۔

اسلام آباد سیشن کورٹ میں عمران خان کی پیشی توشہ خانہ کیس میں فرد جرم عائد کرنے کے لئے ضروری تھی۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد مقدمے کی کارروائی آگے بڑھتی اور عمران خان کو بری کرنے یا سزا دینے کا فیصلہ ہوتا۔ عمران خان نے یہ آسان طریقہ اختیار کرنے کی بجائے بحران پیدا کیا اور طاقت کے زور پر عدالتی احکامات کو ماننے سے انکار کیا۔ لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعتوں کے دوران کسی جج نے اس ہلڑ بازی، پولیس کے خلاف تشدد اور صریحاً قانون شکنی کا نوٹس لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ فاضل جج اسی نکتے پر غور کرتے رہے کہ کسی طرح ہنگامہ فرو کیا جائے۔ یعنی عمران خان کو محفوظ اور باعزت راستہ دے کر نظام قانون کی رسوائی کا اہتمام کر لیا جائے۔ اس تناظر میں حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ملک میں قانون کی عملداری کے حوالے سے کوئی خوشگوار خبر نہیں ہے۔ اعلیٰ عدلیہ سے یہ پیغام سامنے آیا ہے کہ طاقت کے مقابلے میں جج حضرات قانون کو موم کی ناک بناتے دیر نہیں لگاتے۔ مستقبل میں اگر دوسرے سیاسی لیڈر بھی یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں تو عدالتوں کے پاس انہیں بھی محفوظ راستہ دینے کے سوا کیا آپشن ہو گا؟

زمان پارک میں تحریک انصاف کی مزاحمت کو دو حوالوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک یہ کہ اس میں ریاست رٹ قائم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ پاکستانی عوام نے ایک مقبول لیڈر کو ’ناجائز‘ گرفتاری سے بچانے کے لئے اسلام آباد و پنجاب پولیس ہی کو ناکوں چنے چبانے پر مجبور نہیں کیا بلکہ رینجرز کو بھی ’عوام کے جوش و خروش‘ کے سامنے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ بحث کے دونوں زاویے نامکمل ہیں۔ اس سانحہ کو ریاست کی ناکامی سے تعبیر کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ ریاست نے پوری دلجمعی سے طاقت کا استعمال کرنے سے گریز کیا۔ گرفتاری کے لئے جمع ہونے والی پولیس فورس غیر مسلح تھی اور اسے طاقت کے محدود استعمال ہی کی اجازت دی گئی تھی۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے اب دعویٰ کیا ہے کہ ’ہماری ترجیح عمران خان کی گرفتاری نہیں بلکہ اسے عدالت میں پیش ہونے پر مجبور کرنا تھا۔ یہی ہماری حکمت عملی رہی ہے۔ اب ہمیں یقین ہے کہ وہ 18 مارچ کو اسلام آباد سیشن کورٹ میں پیش ہو گا۔ کیوں کہ وہ اب یہ لکھ کر بھی دے رہا ہے اور چلا چلا کر کہہ بھی رہا ہے کہ پیش ہو جاؤں گا۔ ہم کسی ناخوشگوار صورت حال سے بچنا چاہتے تھے ورنہ عمران خان کو گرفتار کرنا کوئی مشکل نہیں تھا‘ ۔ وزیر داخلہ کی اس بات کو تسلیم کرنا ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہ زمان پارک تصادم سے پہلے یہی دعوے کرتے رہے تھے کہ حکومت جب چاہے گی عمران خان کو پکڑ لیں گے لیکن جب ایک عدالت نے یہ موقع فراہم کیا تو حکومت اس حکم پر عمل نہیں کر سکی۔ لیکن اسے ریاست کی ناکامی بھی نہیں کہا جاسکتا۔ عدالتوں کی مسلسل مداخلت اور کمزور فیصلوں نے حکومت کو کمزور اور عمران خان کے بے جا گھمنڈ میں اضافہ کیا ہے۔ اس سے نظام عدل پر عام شہری کا یقین مزید کمزور ہوا ہے۔

زمان پارک تصادم کو تحریک انصاف کی سیاسی بالادستی یا عوامی طاقت کی فتح کہنا بھی ممکن نہیں ہے۔ یہ عوامی طاقت کا مظاہرہ نہیں تھا بلکہ ایک سیاسی لیڈر نے اپنے حامیوں اور ارکان اسمبلی کے ذریعے چند سو لوگوں کو جمع کر کے خود کو قانون سے ماورا قرار دینے کی کوشش کی۔ اس ڈھونگ کا پول اب نہیں تو چند ماہ یا سال میں کھل ہی جائے گا۔ عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لئے ہی عمران خان نے لانگ مارچ کی صورت میں اسلام آباد پر چڑھائی کی تھی لیکن عوام کی عدم شرکت کی وجہ سے اسے ادھورا چھوڑ کر زمان پارک سے پروپیگنڈا مہم کا آغاز کیا تھا۔ سیاسی کامیابی کے دعویدار لیڈر کو حراست سے خوفزدہ ہونے کی بجائے حوصلہ مندی سے قانون کا سامنا کرنا چاہیے اور نعروں کی بجائے قانونی جواز اور شواہد کی بنیاد پر خود کو بے گناہ ثابت کرنا چاہیے۔

دوسری طرف عمران خان کی مقبولیت سے بدحواس حکومت ان کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کر کے کسی بھی طرح اپنے لئے سیاسی سپیس حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اتحادی پارٹیاں جیسے انتخابات سے گریز کا راستہ اختیار کر رہی ہیں، اس سے ان کی بدحواسی اور پریشانی کو سمجھنا مشکل نہیں۔ اس ملک کی سیاسی پارٹیاں اگر واقعی جمہوریت پر عمل کرنا چاہتی ہیں تو انہیں قانونی طور سے عمران خان کی پکڑ کرنے کی بجائے، سیاسی میدان میں ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ یہ ممکن ہے کہ انتخابات میں تحریک انصاف کامیاب ہو جائے لیکن شفاف انتخابات میں اپوزیشن پارٹی کو جیتنے کا موقع دے کر حکمران جماعتیں جمہوری روایت سے وابستگی کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ سیاسی و جمہوری نظام میں ایک انتخاب میں کامیابی یا ناکامی کوئی معنی نہیں رکھتی بلکہ عوامی مسائل کے لئے جد و جہد کا تسلسل اہم ہوتا ہے۔

حکومتی رہنما اگر مریم نواز کی طرح تحریک انصاف کو دہشت گرد گروہ قرار دینے کی خواہش پال رہے ہیں تو اس سے ملک کے حالات تو دگرگوں ہوں گے ہی لیکن ان سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کا رہاسہا اعتبار بھی ختم ہو جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments