بندر تماشا خطرناک بھی ہو سکتا ہے


بندر تماشا اب بھی بچوں میں بہت مقبول ہے۔ صرف کچی بستیوں میں ہی نہیں پوش علاقوں کے بچے بھی بندر ناچ دیکھنے کی فرمائش کرتے ہیں اور بندر کی گلاٹیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

بندر پالنے والے جن کو ہمارے ہاں مداری کہتے ہیں وہ چھوٹی عمر سے ہی پالتے ہیں اور اس کو اپنے مخصوص اشاروں پر مختلف حرکات کی تربیت دیتے ہیں جو دیکھنے والوں کے لئے باعث تفنن ہوتی ہیں۔ بندر نچانے والے ہاتھ میں پکڑی چھڑی سے اشارے کرتے ہوئے منہ سے احکامات ایک خاص انداز میں دیے جاتے ہیں جس سے دیکھنے والوں کو یہ لگے کہ بندر ان کی زبان کو سمجھتا ہے حالانکہ وہ چھڑی کے اشارے پر ہی ناچتا ہے۔

بندر کا تماشا انسان کے لئے اس کی عادات اور خصلت سمجھنے کا ایک ذریعہ بھی بنا ہے۔ بندر کو کھانے میں کیا پسند ہے، وہ انسان کی طرح چوکی پر بھی بیٹھ سکتا ہے، وہ گلاٹیاں بھی مار سکتا ہے وہ دیوار پر چڑھ سکتا ہے۔ کھیل تماشا کے دوران بندر کی خوشی اور غصہ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ اپنے مالک پر بھی جھپٹ پڑتا ہے مگر مار کھاتے ہی سیدھا ہوجاتا ہے اور مالک اس کو پیار بھی کرتا ہے کیونکہ وہی اس کی روزی کا ذریعہ ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں بندر سے منسوب کئی محاورے بھی ہیں۔ انگریزی زبان کا یہ محاورہ تو سب کو یاد ہے ”جب مونگ پھلیاں پھینکو گے تو بندر ہی آئیں گے“ ۔ یہ اس موقعے پر کہا جاتا ہے جب کم اجرت پر اچھے اجیر کی توقع کی جاتی ہے۔ کچھ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ بات اب ہمارے سرکاری اداروں میں بھرتی ہونے والوں کا معیار اور اہلیت دیکھ کر سو فیصد ہی صحیح لگتی ہے۔

اردو میں کہے گئے محاوروں میں بندر کے ہاتھ میں ادرک دیکھ کر اس کے پنساری ہونے سے انکار ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس سے ادرک کے سواد کی بھی امید نہیں لگائی گئی۔ یہ سراسر نا انصافی ہے کہ بندر کے لئے ادرک کے سواد کے بارے میں انسان ایسا الزام دھرے۔ بندر کو ادراک جب بھی ملا خالص ہی ملا جبکہ انسان ادرک کا سواد سالن یا چائے میں ہی لینا جانتا ہے۔ کبھی بندر کی طرح سالم ادرک چکھ کر دیکھے تو انسان بھی فوراً اپنا محاورہ واپس لے گا اور بندر سے معافی مانگے گا۔

بندر کو بھی احساس ہے کہ دیکھنے میں اس میں اور انسان میں فرق اس کے جسم پر بالوں کا ہی تو ہے۔ کبھی کسی درخت کے سائے میں بیٹھ کر انسانوں کے بال کاٹنے والا نائی اپنا استرا کھلا چھوڑ کر ادھر ادھر ہو جائے تو بندر کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ بھی انسانوں کی طرح کلین شیو کرے۔ خود اپنی شیو کرتے ہوئے دو چار زخم آ جائیں تو انسان نے الزام لگایا کہ بندر کے ہاتھ میں استرا آ جائے تو خود کو لہو لہان کر دیتا ہے۔ مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ اسی بستی میں ایک قصائی بھی اپنا گوشت کاٹنے والا بغدہ کھلا چھوڑ کر ہمیشہ ادھر ادھر چلا جاتا ہے مگر بندر نے اس کو آزمانے کی کبھی کوشش نہیں کی نہ خود پر نہ دوسروں پر۔

بندر کو بھی سردی گرمی لگتی ہے۔ انسان لکڑی جلا کر خود کو تپش دے سکتا ہے تو بندر کو موقع ملے تو کیوں نہیں۔ اگر کبھی ماچس ہاتھ لگے تو بندر بھی آگ جلانے کی کوشش کرتا ہے۔ فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ بندر آگ بجھانا بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے آگ پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ بدنام ہوا کہ اس کے ہاتھ ماچس لگے تو وہ شہر کو آگ لگا دیتا ہے۔ بستی کی حفاظت تو انسان کا کام ہے بندر کا نہیں تو وہ کیوں آگ بجھانے کی تردد کرے۔

یہ سب باتیں جنگلوں اور مندروں میں رہنے والے بندروں کے بارے میں ہیں جن کے بادشاہ کو ہنومان کا درجہ بھی حاصل ہوا ہے کہ اس نے رام کے ساتھ مل کر لنکا کو آگ لگائی تھی۔ آج رام کے مندر میں ہنومان جی یعنی بندر کی مورتی بھی ایستادہ ہوتی ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے۔ کھٹمنڈو نیپال کے منکی ٹیمپل میں بندر کا جوٹھا بطور پرساد پڑھے لکھے لوگوں کو بھی کھاتے دیکھ کر پوچھنے پر کھانے والوں کو یہ بھی کہتے سنا کہ بڑی اکسیر ہے جس کے کھانے کے لئے وہ میلوں دور سے چل کر آئے تھے۔

ہمارے ہاں بندر پالنا، نچانا اور سدھانا ایک پیشہ ہے۔ پنجاب میں نہروں کے کنارے بستیوں میں رہنے والے لوگ یہ کام نسلوں سے کرتے آرہے ہیں۔ یہ لوگ بھی گھر بار اور نگر سے بے نیاز جوگی ہی تھے جن کی تپسیا یوگ اب یوگا بن کر جدید کارپوریٹ دنیا کی یکسانیت سے اکتائے لوگوں کے لئے روحانی مسرت کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارے ہاں ٹیلہ جوگیاں کی سرزمین جہلم سے سکندر یونانی کے بعد کشور کشاہ جنرل ہی آتے ہیں جن کے بندر صرف فضائیہ اور بحریہ کی بھی بستیاں ہی نہیں بسا رہے ہیں بلکہ سیاسی بساط پر بھی ہاتھی اور گھوڑے بن کر اپنے مالکوں کا حکم ڈگڈگی اور چھڑی کے اشاروں پر بجا لاتے ہیں۔

بندر پالنے اور سدھانے والے بھی ایک خاص قاعدے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بندر کی ہی حفاظت نہیں کرتے بلکہ اس سے خود کی اور دوسروں کو بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ بندر پالنے والوں کا ماننا ہے کہ چاہے جتنی دیر وہ انسانوں میں رہے مگر ہوتا وہ جانور ہی ہے اس لئے حفظ ماتقدم لازم ہے۔ وہ نہ صرف انسانوں سے متاثر ہوتا ہے بلکہ انسان بھی بندر سے متاثر ہوتے ہیں اس لئے حد فاصل ہی بہترین تدارک ہے۔

ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق بندر انسان کا قریب ترین رشتہ دار ہونے کہ وجہ سے اس جیسی صلاحیتوں، اوصاف اور خصلتوں کا بھی دعویدار ہے۔ اگر ارتقاء کے مدارج میں انسان نے پتھر رگڑ کر آگ جلانا سیکھ کر دنیا کی یہ حالت کردی ہے تو سوچنا ہو گا کہ آج کا بندر جس کو ماچس پہلے سے دستیاب ہے وہ اس زمین کا کیا حشر کردے گا؟

بندر کو گھر یا جہاں ان کے مالک رہتے ہیں وہاں کھلی چھوٹ نہیں دی جاتی۔ بندر کو ہمیشہ باندھ کر رکھا جاتا ہے یا اس کی نقل و حرکت محدود کی جاتی ہے۔ بندر کی رسائی تیز دھاری آلات تک بالکل نہیں ہوتی اور نہ ماچس تک اس کی پہنچ ہوتی ہے۔ کبھی بندر کھل جائے یا بھٹک جائے تو اس کو واپس لانے کے لئے عموماً ایک بندریا معاون ثابت ہوتی ہے جو اس کو بہلا پھسلا کر واپس لے آتی ہے۔

بندر پالنے والوں کا کہنا ہے کہ ایک خاص ڈگڈگی اور ایک خاص تھاپ پر ایک مخصوص چھڑی کے ساتھ اس کو سدھایا جاتا ہے۔ جب بندر کا مالک بدل جائے تو ساتھ ڈگڈگی اور چھڑی بھی نئے مالک کو دی جاتی ہے تاکہ وہ تھاپ اور چھڑی کو پہچان کر نئے مالک کے حکم کو بجا لا سکے۔ ڈگڈگی اور چھڑی بدل جائے تو بندر کا تماشا اس سے محظوظ ہونے والے بچوں کے لئے خطرناک بھی ہو سکتا ہے اس لئے بندر کو ہمیشہ ایک ہی چھڑی اور ڈگڈگی پر نچایا جاتا ہے۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan