شاعر اور سرکاری افسر مصطفیٰ زیدی نے خود کشی کیوں کی؟


مصطفیٰ زیدی کی شاعری پڑھ کر مجھے جتنی خوشی ہوتی ہے ان کی خودکشی کی کہانی پڑھ کر میں اتنا ہی دکھی ہو جاتا ہوں۔

جب میرے دوست مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مجھے مصطفیٰ زیدی کیوں پسند ہیں تو میں انہیں مندرجہ ذیل شعر سناتا ہوں اور کہتا ہوں کہ مجھے مصطفیٰ زیدی کی ڈکشن بہت پسند ہے۔ وہ ایک صاحب طرز شاعر تھے۔

میں کس پہ ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
میرا نہیں خیال اردو کا کوئی اور شاعر اپنے شعر میں اس خوبصورتی سے لفظ دستانے استعمال کرے گا۔

mustafa zaidi

مصطفیٰ زیدی اپنی زندگی میں تو مقبول نہیں ہوئے لیکن مرنے کے بعد اپنی شادی شدہ محبوبہ شہناز گل کی وجہ سے بہت بدنام ہوئے۔

یہ علیحدہ بات کہ جب عابدہ پروین ’منی بیگم اور دیگر موسیقاروں نے ان کی غزلیں گائیں تو لوگوں نے انہیں جانا اور پہچانا۔ ان کے جو اشعار زباں زد خاص و عام ہوئے وہ یہ تھے

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی
مضبوط کشتیوں کو کنارا نہیں ملا
ان ہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

میں نے جب ایک ماہر نفسیات کے حوالے سے ان کی زندگی اور خودکشی کے بارے میں پڑھنا شروع کیا تو مجھے احساس ہوا کہ ان کی خودکشی کے کچھ راز ان کے آخری مجموعہ کلام۔ کوہ ندا۔ کے دیباچے میں پوشیدہ ہیں۔ وہ دیباچہ در اصل ایک ایسا تفصیلی خودکش نامہ ہے, DETAILED SUICIDE NOTE ہے جس میں انہوں نے اپنی ادبی اور نفسیاتی خودکشی کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے۔ آئیں ذرا ہم اس دیباچے کا قدرے تفصیلی ادبی مطالعہ و نفسیاتی تجزیہ کریں۔ مصطفیٰ زیدی نے اس دیباچے کا نام رکھا ہے

حرف آخر
اور اس کا پہلا جملہ ہے
’ کوہ ندا میری نظموں کا آخری مجموعہ ہے۔ اس استغنا کی وجہ میرا چھوٹا پن ہے‘

with his German wife and kids

میں کسی اور شاعر کو نہیں جانتا جو جوانی میں ہی اعلان کر دے کہ یہ میرا آخری مجموعہ ہے۔ ’کوہ ندا‘ سے پہلے مصطفیٰ زیدی کئی شعری مجموعے چھپوا چکے تھے۔ جب انہوں نے اعلان کیا کہ یہ۔ حرف آخر ہے اور میری نظموں کا آخری مجموعہ ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ یہ کوئی جذباتی یا ہنگامی فیصلہ نہیں تھا بلکہ وہ اس نتیجے پر بہت غور و خوض سے پہنچے تھے کیا خودکشی کا فیصلہ کوئی عاقل و بالغ انسان سوچ سمجھ کر بھی کر سکتا ہے۔ ماہرین نفسیات کے لیے یہ ایک دلچسپ اور پیچیدہ سوال ہے۔

مصطفیٰ زیدی نے اس دیباچے میں اپنے فیصلے کے محرکات بھی بیان کیے ہیں۔ ہم ان محرکات میں سے چند ایک پر اپنی توجہ مرکوز کرتے ہیں۔

ادبی خودکشی کی پہلی وجہ ان کا وجودی مسئلہ تھا وہ ONTOLOGICAL INSECURITY AND EXISTENTIAL DESPAIR کا شکار تھے اس لیے لکھتے ہیں

’ دنیا کا متمدن حصہ جس بلند شاعری کا طالب ہے وہ میرے بس میں نہیں اور میرا ملک جس قسم کی شاعری کا عادی ہے وہ بھی میرے بس میں نہیں‘

فیض صاحب کے ہمراہ

مصطفیٰ زیدی ساری دنیا گھومے پھرے تھے اور عالمی ادب سے بخوبی واقف تھے۔ وہ عالمی ادب کے معیار کو دیکھتے ہوئے خود کو ایک ناکام شاعر سمجھنے لگے تھے اور پاکستان کے شاعر جس قسم کی روایتی شاعری کر رہے تھے وہ اس کا حصہ بھی نہیں بننا چاہتے تھے۔ اس لیے وہ خود کو ناکام شاعر سمجھنے لگے تھے۔ یہ ان کا وجودی المیہ تھا۔

مصطفیٰ زیدی کی خودکشی نے مجھے ورجینیا وولف ’سلویا پلاتھ‘ رابن ولیمز اور ارنسٹ ہیمنگ وے کی خود کشیاں یاد کروا دیں۔ وہ بھی مختلف انداز کے وجودی المیے کا شکار تھے۔

مصطفیٰ زیدی کی ادبی خود کشی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کے ہمعصروں نے ان کی تخلیقات کو درخور اعتنا نہیں جانا۔ ان کی شاعری کو نہ ہم عصر شاعروں نے اور نہ ہی ہم عصر نقادوں نے سراہا جس سے ان کا دل ٹوٹ گیا۔ رقم طراز ہیں

’ریکگنیشن کے بغیر ہمیشہ ہمیشہ شعر کہتے رہنا ناممکن ہے۔ میں نے کئی ایسے شعرا سے زیادہ اچھے شعر کہے ہیں جنہیں ناقدوں نے ریکگنائز کیا ہے۔ یقیناً میری ذات یا میرے شعر یا دونوں میں کوئی ایسا عیب ہے جو اسے ناقابل اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ دس پندرہ برس تک جھک مارنے کے بعد جب میں نے وزیر آغا کی نئی شاعری پر ایک دبیز کتاب دیکھی جس میں چھوٹے سے چھوٹے شاعر کا ذکر تھا لیکن میرا نام تک نہیں تھا تو میرا دل ٹوٹ گیا‘

( میں نہیں جانتا مصطفیٰ زیدی کی خودکشی کی خبر سن کر وزیر آغا کا کیا رد عمل تھا؟)

mustafa zaidi and Josh Saheb

مصطفیٰ زیدی شاید اس حقیقت سے واقف نہ تھے کہ وہ شاعر ادیب اور دانشور جو اپنے وقت سے بہت آگے ہوتے ہیں انہیں مرنے کے کئی دہائیوں بعد سمجھا اور پہچانا جاتا ہے۔ کبیر داس اور جلال الدین رومی کو دنیا سے رخصت ہوئے صدیاں بیت گئیں اور اب لوگ انہیں بڑے ذوق و شوق سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ مرزا غالب کی شاعری کو بھی جتنی پذیرائی اب مل رہی ہے وہ ان کی زندگی میں کہاں ملی تھی۔ مرزا تو اتنے بددل ہوئے کہ لکھ دیا

نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی

مصطفیٰ زیدی کی خودکشی کی ایک اور وجہ ان کا سرکاری افسر ہونا تھا۔ مشرق میں اگر شاعر غربت اور مفلسی کا مارا ہو اور جتنا مفلوک الحال اور کسمپرسی کا شکار ہو اتنا ہی زیادہ کامیاب سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہ اعلیٰ سرکاری افسر ہو اور متمول زندگی گزار رہا ہو تو اسے دیگر شاعر اور نقاد شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مصطفیٰ زیدی لکھتے ہیں

’ میں شاعری اور سرکاری ملازمت دونوں میں مس فٹ ہوں۔ کچھ دل میں یہ گماں بھی ہے کہ اکثر شاعر مجھے اس لیے ملے ہیں کہ میں سرکاری افسر ہوں اور اکثر سرکاری افسر مجھے اس لیے ملے ہیں کہ ان کی ڈرائنگ روم کی نشستوں میں میرا شاعر ہونا ان کے تفنن طبع کا باعث ہے‘

مصطفیٰ زیدی دو دنیاؤں میں رہتے تھے شاعروں کی دنیا اور سرکاری افسروں کی دنیا اور دونوں دنیاؤں میں آؤٹ سائیڈر تھے، یہ ایک سماجی المیہ تھا جسے ان کی طبع نازک برداشت نہ کر پائی۔

مصطفیٰ زیدی ایک ایسے حق گو انسان تھے جو ایک منافق معاشرے میں زندگی گزار رہے تھے اسی لیے انہیں اپنے دل کے آنسوؤں کو ظاہری مسکراہٹوں سے چھپانا پڑتا تھا۔ وہ لکھتے ہیں

میری روح کی حقیقت میرے آنسوؤں سے پوچھو
میرا مجلسی تبسم میرا ترجمان نہیں ہے
ادب اور نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناتے مجھے مجلسی تبسم کی اصطلاح بہت پسند آئی۔

شہناز گل

مصطفیٰ زیدی ایک عاشق مزاج شاعر تھے۔ انہوں نے زندگی میں کئی ناکام عشق کیے۔ زندگی کے آخری دنوں میں ان کا آخری عشق ایک شادی شدہ عورت شہناز گل کے ساتھ تھا جن کے بارے میں انہوں نے غزلوں کی ایک سیریز لکھی تھی۔ ان ہی غزلوں میں سے ایک میں لکھتے ہیں

فنکار خود نہ تھی میرے فن کی شریک تھی
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی
اس پہ کھلا تھا باب حیا کا ورق ورق
بستر کی ایک ایک شکن کی شریک تھی
اس غزل میں بھی مصطفیٰ زیدی کا انداز اردو کے روایتی شاعروں سے جداگانہ ہے۔

جب شہناز گل کو کوئی اور صاحب ثروت محبوب پسند آ گیا اور وہ رخصت ہونے لگیں تو مصطفیٰ زیدی نے ایک غیر حقیقت پسندانہ خواہش کا اظہار کیا کہ دو نوں شادی کر لیں۔

شہناز گل نے انکار کیا
مصطفٰی زیدی نے اصرار کیا
ان کا اصرار شہناز گل کے انکار کو اقرار میں نہ بدل سکا۔
شہناز گل نے بار بار انہیں بتایا کہ وہ دونوں پہلے سے ہی شادی شدہ ہیں۔
وقت کے ساتھ رومانوی حالات خراب سے خراب تر ہوتے گئے۔

جب محبت میں ناکامی بہت قریب آ گئی تو مصطفیٰ زیدی نے آخری بار ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شہناز گل مان گئیں۔ اس رات مصطفٰی زیدی کی کمرے میں لاش ملی۔ ساتھ ہی کوفی کا ایک مگ بھی تھا جو مسموم تھا۔ شہناز گل بھی دوسرے کمرے میں بے ہوش پائی گئیں۔ حیران اور پریشان کن سوال یہ تھا کہ کوفی میں زہر کس نے ملایا تھا؟

اس سانحے کے بعد مصطفٰی زیدی کی موت ایک معمہ ’ایک بجھارت اور ایک پہیلی بن گئی۔ اس کے ساتھ ان کی سہیلی سے دوستی بھی پہیلی بن گئی۔

مصطفیٰ زیدی کی موت خود کشی تھی یا قتل؟
میرا خیال ہے کہ وہ خودکشی تھی کیونکہ وہ شہناز گل کی جدائی برداشت نہ کر پائے۔

مصطفیٰ زیدی کی موت اس لیے بھی خود کشی لگتی ہے کیونکہ وہ اس رومانوی سانحے سے پہلے بھی کئی بار اقدام خود کشی کر چکے تھے۔ وہ حسیناؤں کی زلفوں کے بہت جلد اسیر ہو جاتے تھے اور جب کوئی حسینہ انہیں چھوڑ کر چلی جاتی تھی تو وہ اتنے دلبرداشتہ ہوتے تھے کہ اقدام خودکشی کر لیتے تھے۔

مرزا حامد بیگ نے مصطفیٰ زیدی کی زندگی کے بارے میں سوانحی تحقیق کرنے کے بعد ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام “مصطفیٰ زیدی کی کہانی” ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مصطفیٰ زیدی کی زندگی کے مختلف ادوار میں اقدام خودکشی کے متعدد واقعات کا ذکر کیا ہے۔

مصطفیٰ زیدی شعوری طور پر اپنی پری وش محبوباؤں سے فلرٹ کرنے کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر ایک عرصے سے اپنی محبوبہ موت سے بھی فلرٹ کرتے رہتے تھے۔ اسی لیے لکھتے ہیں

اب جی حدود سود و زیاں سے گزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا

مصطفیٰ زیدی کی خودکشی یا قتل میں کس کس رقیب رو سیاہ اور کس کس ظالم و جابر سرمایہ دار کا ہاتھ تھا جو ان کی محبوبہ کو خریدنا اور چھیننا چاہتا تھا یہ آج تک ایک معمہ ہے۔ اسی کی پیشین گوئی انہوں نے اپنے اس شعر میں کی تھی

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments