عارف خٹک کا دوسرا ناول: یہ پالا ہے


”یہ پالا ہے“ عارف خٹک کے دوسرے ناول کا نام ہے۔ ان کا پہلا ناول چند سال پہلے ”چھٹکی“ کے نام سے چھپا۔ وہ ایک ایسے طالب علم کی داستان زیست ہے جو کرک کے ایک نہایت پسماندہ گاؤں سے اٹھ کر تعلیم کی غرض سے روس چلا جاتا ہے اور وہاں سے اس کی محبت کی داستان شروع ہوجاتی ہے جو خوشیوں، سرمستیوں، غموں، مایوسیوں، سماجی و نفسیاتی مراحل اور نشیب و فراز سے ہو کر بہت فلسفیانہ، متصوفانہ اور علامتی انداز میں منطقی انجام تک پہنچتی ہے۔

عارف خٹک اس وقت سوشل میڈیا کا مقبول لکھاری ہے اور ان کی فین فالونگ بہت زیادہ ہے اس کی وجہ ان کی نٹ کھٹ اور بے باک تحریریں ہیں جو وہ ہمیشہ پشتون تہذیب سے کشید کرتا ہے اور نتیجے کی پروا کیے بغیر بن داس لکھتا چلا جاتا ہے۔ ان کا ناول ”یہ پالا ہے“ چند ماہ پہلے یعنی 2022 ء کے اواخر میں سنگی پبلشنگ ہاؤس ہری پور سے چھپ کر منظر عام پر آیا۔ گزشتہ ناول کی طرح اس ناول کا منافع بھی ”باب العلم سکول ہری پور“ کے بچوں کے لیے وقف کر دیا گیا ہے۔

انھوں نے یہ ناول اپنے والد، اپنے گاؤں میں تعلیم، صحت، پانی و بجلی سے محروم بچوں اور پدرسری معاشرے میں سرجھکا کر احکامات بجا لانے والی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے نام سے منسوب کیا ہے۔ 203 صفحات پر مشتمل یہ ناول دراصل ایک دس سالہ چرواہے میر کی آپ بیتی ہے۔ اس ناول کو پانچ ابواب ”پری“ کنگن ”بیوپار“ جنم جلی ”اور“ مذہب اور خدا ”میں تقسیم کیا گیا ہے۔ یہ پانچ ابواب ناول کی فضا بنا کر کہانی کو منطقی انجام تک پہنچاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پانچوں الگ الگ فسانے بلکہ افسانے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ واقعاتی اور کرداری بنیادوں پر جوڑے گئے ہیں، اگر ان میں سے فقط ایک ہی باب کا مطالعہ کیا جائے تو وحدت تاثر کی بنیاد پر اس سے طویل افسانے کا حظ اٹھایا جاسکتا ہے۔

دس سالہ میر پورے سارے گاؤں کی بھیڑ بکریوں کو قریبی پہاڑوں میں چراتا ہے اور اس کے بدلے گھر والوں کو روکھی سوکھی روٹی، بچا کچھا سالن، اترن لباس اور ٹوٹے چپل وغیرہ ملتے ہیں۔ ”پالا“ اس کے گاؤں کا نام ہے جو پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے اور اس سے متصل ساتھ چھوٹے بڑے گاؤں ہیں، اس کے ساتھ منزلیے، بودنیے کے پہاڑوں کا سرسبز اور طویل سلسلہ شروع ہوتا ہے جو وزیرستان اور افغانستان تک پھیلا ہوا ہے۔ انہی پہاڑوں میں یہ معصوم و متحیر چرواہا مال مویشی چراتا ہے اور اپنی معصوم، حیرت زدہ خود کلامی، سہمی ہوئی نگاہوں اور داخلی احساس سے انسانی رویوں، غربت و کسمپرسی، خوشیوں، رسم و رواج اور سماجی زندگی کو اپنے ہی مشاہدے کے کینوس پر سجا کر قاری کے سامنے رکھتا ہے۔

اس ناول کا مرکزی کردار ہی یہی چرواہا ہے۔ یہ ناول پڑھتے ہوئے پاولو کویئلو کے ناول ”الکیمسٹ“ کا چرواہا ضرور یاد آتا ہے لیکن دونوں میں بڑا فرق ہے وہ چرواہا کتابوں سے سیکھتا ہے اور یہ چرواہا براہ راست زندگی، انسانوں کے رویوں اور باہمی معاملات، دیہاتی زندگی کی اونچ نیچ اور فطرت کے رنگوں سے سیکھتا ہے۔ وہ چرواہا جواب دیتا ہے اور یہ چرواہا سوال اٹھاتا ہے۔ وہ بھیڑوں سے گفتگو کرتا ہے اور یہ فطرت سے ہم کلام ہو کر اپنے باطن میں جھانکتا ہے۔

یہ ناول دراصل چرواہے میر کے روز و شب، غربت و مفلسی، بے بسی اور مجبوری کا داستان الم ہے اور ان عوامل کی وجہ سے اس کی شخصیت اور نفسیات پر مرتب ہونے والے اثرات کا نوحہ ہے۔ یہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں خیر و شر کا فطری فسانہ ہے اور اس چھوٹے سے گاؤں کے روزن سے پشتون تہذیب و ثقافت اور سماجی نفسیات کا مشاہدہ ہے۔ کس طرح میر کا خاندان عسرت و تنگی سے گزرتا ہے اور اس کا بڑا بھائی بکریاں چراتے ہوئے پہاڑ سے گر کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور پھر میر اس دائرے میں حرکت کرتا نظر آتا ہے۔

غیرت کے نام پر جھاڑیوں میں ایک لڑکی کا قتل اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ میر معمولی لغزشوں اور ناکردہ گناہوں پر اپنے والد، نمبردار کے بیٹوں اور گاؤں والوں گالیاں، جھڑکیاں سنتا اور مار کھاتا رہتا ہے۔ گاؤں کے بچے اس کے لباس اور پوٹے چپلوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور خیرات و شادی بیاہ میں اس کو کوئی اپنے ساتھ بٹھانے پر تیار نہیں ہوتا۔ یہ تمام رویے میر کی احساس کمتری، بے بسی، احساس تنہائی میں اضافہ کرتے ہیں اور وہ اپنے اندر پناہ لے کر کبھی شکوے کرتا ہے تو کبھی کڑھتا رہتا ہے۔

گاؤں میں نمبردار کی اجارہ داری ہے اور مولوی عبدالقدوس نے خود کو نمبردار کے لیے وقف کر دیا ہے۔ سوات سے بیاہی جانے والی نمبردار کی دوسری بیوی تاج بی بی کو ناپاک سمجھا جاتا ہے۔ خود اس کے گھر والے اور گاؤں والے اس سے کوئی رسم و راہ نہیں رکھتے اور وہ عدم تحفظ، عدم شناخت اور احساس تنہائی میں مبتلا رہتی ہے اور ایک دن اس کو رات کے اندھیرے میں دفنا کر غائب کر دیا جاتا ہے۔ سب جانتے ہوئے بھی انجان بن جاتے ہیں کیوں کہ نمبردار کے خلاف جانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔

نمبردار ایک بیوہ خاتون کے بیٹوں کو جائیداد کے لیے قتل کر دیتا ہے مگر اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میر کا سفر اسی جبری و استحصالی ماحول میں جاری رہتا ہے اور اس میں بانسری بجاتا میر پہاڑوں سے ہم کلام ہو کر اپنی حالت کو تقدیر سمجھتا ہے۔ حیران و پر پریشان میر اچھے برے میں تمیز کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ناول میں پشتون معاشرے میں روایتی پردہ داری اور مرد وعورت میں تفریق سامنے آتی ہے جو گھروں میں روا رکھی جاتی ہے۔

بچے کی پیدائش پر ہوائی فائرنگ اور مبارک بادی کا سلسلہ چل پڑتا ہے اور بچی کی پیدائش پر ماتمی ماحول بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ غریب بچے دعا کرتے ہیں کہ گاؤں میں لڑکے زیادہ پیدا ہوں تاکہ انھیں مٹھائی (ٹانگری) کھانے کو ملے۔ عورتوں میں سماجی گھٹن، عورت کی سماج میں حیثیت، نظریہ عورت اور عورت کا استحصال مختلف چھوٹے بڑے واقعات کے ذریعے سامنے آتا ہے۔ میر کی کم سن بہن جس کے چہرے سے بچگانہ معصومیت ابھی تک نہیں گئی وہ بارہ سال کی عمر میں اپنے سے تین گناہ بڑے شخص سے بیاہی جاتی ہے اور اس کے عوض رقم وصول کر کے دکان کھولنے کا منصوبہ بنتا ہے۔

پشتونوں کے بعض علاقوں میں عورت کی کم سنی میں شادیوں اور اس کے عوض باقاعدہ ”بیوپار“ کی نشان دہی کرائی گئی ہے۔ میر کی کم سن بہن اس کے شوہر کو ایک بچی دے کر دوران زچگی دنیا سے منہ موڑ لیتی ہے۔ بارہ سالہ بچی کس طرح حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہے اور ایک دس سالہ بچے کا داخلی احتجاج کس نہج پر ہوتا ہے، اس کی عکاسی خوب صورت انداز میں کی گئی ہے۔ ان جیسے پے درپے واقعات اور سانحات کے نتیجے میں میرے کے اندر بغاوت، داخلی احتجاج، احساس تنفر اور احساس محرومی پختہ تر ہوتا جاتا ہے۔

ناول میں زن، زر، زمین کے لیے ہونے والے جھگڑوں، مکاریوں، دغا بازیوں اور ان تمام میں نمبردار کے کردار اور مولوی عبدالقدوس کی شراکت اور دوغلے پن کو صراحت کے ساتھ موضوع بنایا گیا ہے۔ ایک نے سفید پوشی کا ڈول ڈالا ہے اور دوسرے نے مذہب کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ ناول یہی استحصالی رویے، قتل و غارت، ضعیف الاعتقادی، سادہ لوحی، ماؤں کے المیوں کو لے کر جب اختتامی مراحل میں داخل ہوتا ہے تو اکیسویں صدی کے سب سے بڑے المیے دہشت گردی، انتہاپسندی اور مذہبی شدت پسندی کے مسائل سامنے آتے ہیں۔

افغانستان جنگ کے اس المیے سے یہ چھوٹا سا گاؤں ”پالا“ بھی محفوظ نہیں رہتا اور مسجدوں میں اجنبیوں کا آنا معمول بن جاتا ہے۔ مولوی عبدالقدوس کی سرگرمیاں پرا سرا ر اور مشکوک بن جاتی ہیں اور نمبردار اس کا ہمنوا بن جاتا ہے، یوں دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ بنتا ہے اور لاؤڈ اسپیکروں سے جنگی ترانے بجنے شروع ہو جاتے ہیں، ہر نماز کے بعد افغانستان جنگ پر پرجوش تقریروں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لوگ حسب توفیق عطیات دیتے ہیں اور جوان شہادت کے جذبے سے افغانستان بھیجوائے جاتے ہیں۔

اس کے بعد شہیدوں کے گھروں میں مبارک باری کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور لاپتہ جوانوں کے گھر ماتمی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پالا کا پورا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ مولوی عبدالقدوس کا حلقہ اثر بڑھ جاتا ہے اور نمبردار بھی اس سے دبنے لگتا ہے۔ وہ چمکتی کاروں میں مسلح گارڈز کے ساتھ گھومتا پھرتا نظر آتا ہے اور مقامی پولیس بھی اس کا احترام کرتی ہے۔ وہ مدرسے کے لاؤڈ اسپیکر سے عصری تعلیم کو کفر اور بے حیائی کے مترادف قرار دیتا ہے اس کے برعکس سبکدوش صوبیدار عبدالرشید کی بیٹی رفعت بی بی بچوں کو اپنے گھر میں عصری تعلیم دیتی ہے جو مولوی عبدالقدوس کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

صوبیدار کا پڑھا لکھا بیٹا افغانستان میں اپنے گاؤں کے کچھ گرفتار جوانوں سے ملتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ان جوانوں کو فی کس پانچ لاکھ روپے کے حساب سے افغانستان جنگ کے لیے بیچا گیا ہے یوں وہ پالا کی صورت حال پر بین الاقوامی اخبار میں مضمون چھپوا دیتا ہے اور پھر پالا میں فوجی آپریشن ہوتا ہے اور مولوی عبدالقدوس کے مدرسے سے اسلحے سمیت بہت سے اجنبی گرفتار ہوتے ہیں اور نمبردار کے گھر سے جدید اسلحہ برآمد ہوتا ہے۔ میر پر قلم کی اہمیت اور طاقت آشکار ہوتی ہے اور وہ اگلے دن پہاڑوں پر جانے کی جگہ سکول کی راہ لیتا ہے۔ یہاں بہت جذباتی انداز میں ناول ختم ہوجاتا ہے۔

اس ناول کے دو اہم کردار میر کی دادی اور سکول کا ماسٹر رحیم داد ہیں۔ میر کی اصل اور واحد دوست اس کی دادی ہے۔ میر اپنی غربت و مفلسی پر سوال اٹھاتا ہے تو دادی یہ کہہ کر خوش کر دیتی ہے کہ ہمارے گھر میں تو نمبردار کے گھر سے بھی زیادہ روٹیاں اور سالن آتے ہیں۔ میر کو جب اس کے حلیے کی وجہ سے لڑکے تنگ کرتے ہیں تو دادی اس کو پہاڑوں کا شہزادہ قرار دے کر اس کی ناخوش گواری دور کر دیتی ہے۔ میر اپنی تنہائی سے اکتاتا ہے تو دادی اسے بانسری سیکھنے پر اکساتی ہے۔ میر باغیانہ خیالات کا اظہار کرتا ہے تو دادی کبھی سمجھا کر، کبھی ڈرا کر تو کبھی ڈانٹ کر قابو کر لیتی ہے۔

دوسرا اہم کردار ماسٹر رحیم داد کا ہے جو مقامی سکول میں پڑھاتا ہے اور وہ میر کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو جانتا ہے اس لیے ہر ملاقات میں میر کو سکول کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ میر سوال اٹھاتا ہے اور ماسٹر جی بہت شفقت سے اس کے جوابات فراہم کرتا ہے، میر کے کردار میں جو ارتقا ملتی ہے وہ اس کے اپنے مشاہدات کے ساتھ ان دو کرداروں کی تربیت پر منحصر ہے۔ ناول نگار نے دس سالہ بچے کے کردار کو ان دو کرداروں کے ذریعے فنی مہارت سے آگے بڑھایا ہے۔

ناول میں پشتون معاشرے میں رائج غلط اعتقادات اور بدعتوں کو آشکارا کیا ہے۔ ناول عورتوں میں پایا جانے والا گھٹن، غریبوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویوں، تعلیم، صحت اور پانی سے محروم علاقوں، دوغلے پن، مذہب کے نام پر بیوپار، سماجی زندگی اور اٹک کے اس پار خان ازم، گاؤں کے مسائل اور خیر و شر کی تفریق پر محیط ہے لیکن اس میں لمحہ فکریہ یہی ہے کہ نئی صدی میں انسان کے مسائل ختم نہیں ہوئے بلکہ پرانی صدی کے مسائل سمیت نئے مسائل نے جنم لیا جس میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے جس نے خوف کے مہیب سائے ہر طرف پھیلا دیے ہیں۔

جہاں تک اس ناول کی پیش کش ہے تو ناول نگار فلیش بیک تکنیک، واحد متکلم کی تکنیک، خودکلامی اور مکالماتی تکنیک کی آمیزش سے ناول بنا گیا ہے، یہی اکیسویں صدی کی زیادہ برتی جانے والے تکنیک ہیں۔ عارف خٹک کو کہانی بننے کا طریقہ آتا ہے۔ وہ زبان و بیان پر کافی عبور رکھتے ہیں اور بڑی چابکدستی سے انھوں نے اس کہانی کو نشیب و فراز سے گزارا ہے یہی وجہ ہے کہ مختلف چھوٹے بڑے واقعات کے رونما ہونے کے باوجود کہانی پر ان کی گرفت مضبوط نظر آتی ہے۔

ان کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ایک بہت چھوٹے گاؤں سے اس کہانی کو اٹھایا ہے اور غیر محسوس طریقے سے اس کو اس صدی کے سب سے بڑے المیے سے جوڑا ہے اور اس المیے کے تمام کردار اس چھوٹے گاؤں ہی میں دکھائے ہیں جو کہ خیر و شر کی علامتیں ہیں۔ دوسرا قابل غور پہلو یہ کہ ایک دس سالہ ان پڑھ چرواہے کو راوی بنا کر اس کی آنکھ سے حالات و واقعات دکھانا اور اس پر تجزیہ دینا بذات خود ایک بہت بڑا رسک ہے جو کہ ناول نگار نے لیا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہا ہے۔

ارضیت اور مقامیت نے ناول کو نہ صرف دلچسپ بنایا ہے بلکہ اس کو انفرادیت بھی بخشی ہے۔ ناول میں دیہی ماحول، منزلیے، بودنئے کے پہاڑوں کی عمدہ فطرت نگاری اور منظر نگاری ملتی ہے۔ اس ناول کا اسلوب سلیس اور رواں دواں ہے، لفظیات میں مقامی الفاظ و تراکیب کی خوب صورت پیوندکاری کی ہے۔ اس کے مکالمے مختصر، چست ہیں البتہ کہیں سپاٹ پن اور کہیں کہیں واعظانہ، ناصحانہ اور اصلاحی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک طرف دس سالہ چرواہا اور دوسری طرف اس کی تربیت کرنے والے ماسٹر جی اور دادی ہیں۔

ان دونوں کرداروں کے پیشے اور عمروں کو ذہن میں رکھ کر یہ فطری لگتا ہے البتہ ناول میں بعض وضاحتوں کی ضرورت نہیں تھی، ناول نگار کو اپنے قاری پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اسلوب میں تخلیقی جملوں کی کمی ضرور محسوس ہوتی ہے اور خاص کر بعض جگہوں پر پشتو کے روزمرہ و محاورے کو براہ راست اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔ کئی جگہوں پر نامناسب الفاظ و تراکیب و القابات کو مناسب لفظوں میں ادا کیا جاسکتا تھا۔ ناول نگار جگہ جگہ جذباتیت کا شکار نظر آتا ہے خاص کر میر کے کردار پر اکثر حاوی ہوجاتا ہے اور وہ یہ بھول جاتا ہے کہ یہ دس سالہ معصوم بچہ ہے۔

بہرحال بہتری کے امکانات تو موجود رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس مشینی دور میں بھی ادب کا ارتقائی سفر جاری ہے اور موضوعاتی، اسلوبیاتی او تکنیکی سطح پر نئے تجربات سامنے آرہے ہیں۔ خوش آئند ہے کہ خیبر پختون خوا میں جہاں ناول کی طرف رجحان بہت کم رہا ہے وہاں عارف خٹک نے دو اچھے ناول دے کر اس جمود کو توڑنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments