سہاگن کا ایک اور دن


بینش روز ہی الارم لگا کر سوتی تھی لیکن اکثر الارم بجنے سے کچھ ہی دیر پہلے اس کی آنکھ کھل جاتی۔ آج صبح بھی یہی ہوا۔ ابھی دس منٹ باقی تھے جی تو چاہا ایک نیند کا جھونکا اور لے لے لیکن الارم سے صاحب کی نیند ٹوٹنے کے خیال سے الارم بند کیا۔ کمر میں حائل صاحب کا بازو احتیاط سے ہٹایا اور بستر سے اٹھ گئی۔

باتھ روم جا کر منہ دھویا اور پھر لپک کر کچن جا پہنچی۔ چائے کا پانی چڑھایا۔ دو انڈے آملیٹ کے پھینٹے۔ میز پر ناشتے کے برتن لگائے اور بیڈ روم کی طرف دوڑی۔ کھڑکی کے پردے ہٹائے اور میاں کے منہ سے چادر ہٹا کر بولی۔

” اب اٹھ بھی جائیے جناب، سورج سر پر آن پہنچا ہے“
” سورج؟“ عامر نے آنکھیں ملیں۔ اس کا ہاتھ تھاما ”مجھے تو سر پر چاند نظر آ رہا ہے“
” باتیں مت بنائیے۔ اب اٹھ جائیے دفتر سے دیر ہو جائے گی۔“ اس نے ہنستے ہوئے ہاتھ چھڑایا۔
” بہت ظالم ہو تم بینش رومانس بھی نہیں کرنے دیتیں۔“

عامر باتھ روم کی طرف لپکا۔ بینش نے الماری سے عامر کے پہننے کے لیے کپڑے نکالے۔ اور دوبارہ کچن کی طرف دوڑی۔ چائے کا پانی کھول چکا تھا پتی ڈالی۔ دوسرے چولہے پر آملیٹ فرائی کیا۔ ٹوسٹ پلیٹ میں رکھے۔ جلدی سے چائے کی ایک پیالی اور ایک پاپا ساس کو دیا۔ ان کی دعائیں لیں۔ وہ پورا ناشتہ ذرا دیر میں کرتی تھیں۔ دیور کو آواز دی ”عاصم اٹھ جاؤ ناشتہ تیار ہے۔ اور اپنے میلے کپڑے بھی لے آؤ آج مشین چلاؤں گی“

عامر تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آ گیا۔ بینش نے ساتھ لے جانے کے لیے لنچ پیک کیا۔ شوہر کو کام پر رخصت کر کے وہ سیدھی کمرے میں بھاگی۔ بستر ٹھیک کیا۔ باتھ روم سے میلے کپڑوں کی ٹوکری اٹھائی۔ ہمیشہ کی طرح عامر نے گیلا تولیہ زمین پر پھینکا تھا۔ ”کتنی دفعہ کہا ہے تولیہ زمین پر نہ پھینکیں سنتے ہی نہیں“ وہ بڑبڑائی۔ پھر دیور کے کمرے کے باہر ڈھیر اٹھایا تو جینز کی جیب سے ایک لائٹر نکل کر فرش پر گرا۔ اوہ تو جناب یہ شوق بھی کرنے لگے۔ ؑعامر کو بتاؤں یا چپ رہوں۔ چپ ہی رہنا مناسب ہے۔ جوان لڑکا ہے اس سے بگاڑ نہیں لے سکتی۔

کپڑے مشین میں ڈال کر کچن میں آئی تو عاصم ناشتہ کر رہا تھا۔ ”بھابی کچھ پیسے ہوں تو دے دو پلیز۔ سخت کڑکی چل رہی ہے“

” پاکٹ منی اڑا ڈالی اتنی جلدی؟“
” تو اور کیا مہنگائی دیکھ رہی ہیں آپ؟“

بینش کمرے سے کچھ نوٹ نکال کر لائی ”یہ لو۔ اب اور مت مانگنا اور ہاں یہ دھواں اڑانے کے لیے نہیں ہیں“ اس نے لائٹر بھی عاصم کے پھیلے ہوئے ہاتھ پر رکھ دیا۔ وہ ایک لمحے کو گڑبڑایا پھر بولا۔ ”ارے یہ ایک دوست کا ہے۔ مجھے ملا تو میں نے جیب میں رکھ لیا۔ آج ہی لوٹا دوں گا اسے“

اب گھر میں صرف وہ اور ساس تھیں۔ ”امی ناشتے میں کیا لیں گیں؟ پراٹھا بنا دوں؟“
”بنا دو اور اپنے لیے بھی بنا لو۔“

بینش نے میلے کپڑے مشین میں ڈال کر مشین چلا دی اور پھر جلدی جلدی دو پراٹھے ہلکے تیل سے بنائے۔ ساس کے لیے ایک انڈا بھی تل لیا۔ عامر حسب معمول تھوڑا سا آملیٹ چھوڑ گیا تھا وہی اپنے لیے اٹھائے ساس کے پاس آ بیٹھی۔ دونوں ٹی وی پر ڈرامے کی قسط دیکھنے لگیں۔ اتنے میں گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹانے والی شمسہ بھی آ گئی اور وہ بھی ڈرامہ دیکھنے لگی۔ ڈراما تمام ہوا تو بینش نے ناشتے کے برتن اٹھائے۔

” چلو شمسہ اٹھو بہت کام پڑا ہے۔ امی آج کیا بناؤں؟“
”پالک گوشت بنا لو۔ دوچار روٹیاں اور تھوڑی سی کھچڑی بھی۔“

کھانا ان کے ہاں رات کا ہی اہتمام سے بنتا تھا۔ دوپہر میں تو وہ اور ساس ہوتیں، رات کا بچا سالن ہوتا۔ وہ دو تین تازہ روٹیاں ڈالتی اور دونوں مل کر کھاتے۔

شمسہ نے جھاڑو سنبھالا پھر بینش اس کے ساتھ لگ کر ڈسٹنگ کرواتی رہی۔ اسی لمحے نند کا فون آ گیا۔ تھوڑی دیر اس سے باتوں میں لگی۔ وہ ابھی پچھلی اتوار ہی بچوں سمیت ہو کر گئی تھی اب پھر آنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

” بینش سچی امی کے لیے دل بہت اداس ہوجاتا ہے۔ وہ ٹھیک تو ہیں نا؟ دوائیں لے رہی ہیں باقاعدگی سے؟“

”جی بجو وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ دوائیں میں وقت پر دے دیتی ہوں۔ بات کرواتی ہوں آپ کی“ فون ساس کو پکڑا کر کچن میں بھاگی۔ گوشت دھویا۔

شمسہ نے کچن صاف کر کے پیاز لہسن کاٹا۔ آتا گوندھا اور چلی گئی۔ ساس نے بھی بیٹی سے گفتگو تمام کی۔ اتنے میں سبزی والا آ گیا۔ بینش کا فلیٹ تیسری منزل پر تھا۔ ٹوکری لٹکا کر پالک۔ میتھی اور ٹماٹر خریدے۔

”لاؤ پالک میں کاٹ لوں“ ساس کے آگے پالک، چھری اور پرات رکھی اور خود مشین سے دھلے کپڑے نکال کر بالکونی میں ٹانگنے میں لگ گئی۔

دوپہر ہو گئی۔ ساس کو دوا دینے کے بعد اس نے کل کا آلو قیمے کا سالن نکلا۔ اسے گرم کیا اور تین روٹیاں ڈالیں۔

لاونج میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر دونوں نے کھانا کھایا۔ اب ساس کچھ دیر سوئیں گی۔

” تم بھی کمر ٹیک لو بیٹا۔“ پھر کچھ سوچ کر بولیں۔ ”اچھا سنو سردیاں آنے والی ہیں۔ گرم کپڑوں اور رضائیوں وغیرہ کو دھوپ لگوا لو۔“

”جی بہتر“ وہ اسٹور کی طرف لپکی۔ لحافوں والی پیٹی کو کھولا۔ اتنے میں ساس نے آواز لگائی۔ وہ پھر باہر لپکی۔

”بیٹا آج رہنے دو۔ شمسہ بھی جا چکی ہے۔ کل اس کے ساتھ مل کر کر لینا۔ تم اکیلی تھک جاؤ گی۔“ بینش نے پیٹی بند کی اور پلنگ پر لیٹ کر کمر ٹکا لی اور اسی لمحے دودھ والا آ گیا۔ دودھ لے کر ابلنے رکھا اور نظریں جما دیں۔ ایسے میں عامر کا فون آیا۔ وہ دودھ پر نظریں جمائے فون سنتی رہی۔

”کھانا کیا بنا رہی ہو آج؟“
”پالک گوشت اور کھچڑی“
”اوں یہ نہیں یار۔ میرا دل تو کوفتے کھانے کو چاہ رہا ہے“
دودھ میں ابال آ چکا تھا۔ اس نے چولہا بجھایا
” اچھا جناب کوفتے بن جایں گے۔ کب تک آئیں گے؟ ’
سات آٹھ تک آ جاؤں گا۔ تمہارے لیے کیا لاؤں؟ ”
” بس اپنا آپ“ گھسا پٹا سا جملہ بول کر وہ خود بھی بے مزا ہوئی لیکن جملہ ہے پر اثر۔ صاحب خوش ہوئے۔
فون بند کر کے وہ ساس کے پاس پہنچی۔ وہ اونگھ میں تھیں۔ ”امی“ اس نے نرمی سے پکارا۔ وہ اٹھ گئیں۔

”امی عامر کا فون آیا ہے کوفتوں کی فرمائش کر رہے ہیں۔ فریزر سے قیمہ نکالوں تو بہت وقت لگ جائے گا میں بازار جا کر تازہ قیمہ خرید لاتی ہوں۔“

”نہیں تم مت جاؤ، میں لے آتی ہوں۔ یہ عامر بھی بس“

ساس نے چپل پہنی، دوپٹہ لیا اور نکل گیں۔ بینش نے پالک گوشت کل پر رکھا اور کوفتوں کا مصالحہ تیار کیا۔ قیمہ آ گیا تو کوفتے بنائے۔ ساس اس کی پھرتی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ ”سدا سہاگن رہو“ ۔ اپنے بیٹے کی درازی عمر کی اس دعا پر بینش مسکرا دی۔

اب شام ہو چکی تھی۔ بینش نے گھڑی دیکھی۔ ساڑھے پانچ ہو چکے تھے۔ کھچڑی بھی کینسل ہو گئی۔ کوفتوں کے ساتھ تو روٹی چاہییے۔ شمسہ آٹا گوندھ گئی تھی۔ پھرتی سے روٹیاں ڈالیں۔ اسے یاد آیا کہ عاصم کئی دنوں سے کھیر کی فرمائش کر رہا ہے۔ فریج میں دودھ دیکھا تو لگا کہ بس تھوڑی سی ہی کھیر بن سکتی ہے سو بنا لی۔

کوفتوں کا سالن تیار ہو گیا۔ روٹیاں بھی بن گیں۔ جلدی سے تھوڑا سا سلاد بنایا۔ بالکونی میں کپڑے سوکھ چکے تھے انہیں اتارا۔ ساس نے کہا لاؤ میں تہہ لگا دوں۔ استری والے الگ کر کے باقی ان کے سامنے رکھے، ۔ میز پر پلیٹیں لگائیں، گلاس رکھے۔ عاصم آ گیا۔ ”بھابی زور کی بھوک لگی ہے۔ کھانا دیجئیے“

” تمہارے بھائی آ جائیں تو ساتھ کھائیں گے“ کچھ ہی دیر میں عامر بھی آ گیا۔ ”کوفتوں کی خوشبو نیچے گلی تک آ رہی ہے“

بینش ہنس دی۔ کھانا بہت ہی خوشگوار ماحول میں کھایا گیا۔ ساس نے جی کھول کر تعریف کی اور عامر نے فرمائش پوری کرنے پر شکریہ ادا کیا۔ بینش کھیر کا چھوٹا سا ڈونگا لے آئی۔ ”دودھ زیادہ نہیں تھا بس اتنی ہی بن سکی۔ عاصم یہ تمہاری فرمائش ہے“

عاصم نے تشکرآمیز نظروں سے اسے دیکھا ساس اپنا خوشحال گھرانا دیکھ کر طمانیت سے مسکرا دیں۔

” بینش نے آ کر مجھے بہت آرام دیا ہے“ وہ مسکرا دی۔ اس کی شادی کو ابھی صرف تین ماہ ہی ہوئے تھے پر لگتا تھا کہ برسوں سے اس گھر کے طور طریقے جانتی ہے۔

بینش نے آخری نوالے سے پلیٹ صاف کی اور سر جھکائے جھکائے مضبوط آواز میں بولی۔
”میری چھٹی ختم ہو رہی ہے۔ اگلے ہفتے جوائن کرنا ہے“ بینش ایک کالج میں بیالوجی کی لیکچرار تھی۔
میز پر بیٹھے سب ہی لوگ چونک پڑے۔ ساس کے چہرے پر پریشانی عیاں تھی۔
”تو تم کام پر جاؤ گی؟“
” جی“ اس نے مختصر جواب دیا۔
”پھر گھر کا کیا ہو گا؟“ ساس فکرمندی سے بولیں۔
” امی کیا ہو گا؟ بھابی کے آنے سے پہلے بھی تو گھر چلتا تھا نا اب بھی چلے گا“
دیور کی طرفداری سے بینش کو حوصلہ ملا۔

”امی شمسہ کی تنخواہ بڑھا دیں گے۔ وہ میرے آنے تک یہاں رہے گی۔ کالج کی چھٹی دو بجے ہوتی ہے میں تین بجے تک گھر آ جاؤں گی۔ ہانڈی رات کو ہی بنا دیا کروں گی۔ روٹیاں آ کر ڈال لوں گی“

” تم کیا کہتے ہو عامر؟“ ساس نے بیٹے سے سوال کیا۔ ان کے لہجے میں اضطراب تھا۔
” امی جو بینش چاہے وہ کر سکتی ہے۔ یہ اس کی مرضی اور چوائس ہے“
” پھر شاید ہم گاڑی بھی لے سکیں۔ میری تنخواہ سے قسطیں ادا کرتے رہیں گے“
گاڑی کا سن کر سب کے چہرے کھل اٹھے۔
” بھائی گاڑی آ جائے تو بائیک مجھے دے دینا“ عاصم نے التجا کی۔
” اگر پٹرول ڈلوا سکو تو ٹھیک ہے“ عامر ہنسا۔
”میں ایک دو ٹیوشن لے لوں گا۔ پیٹرول ڈلوا لوں گا“
”ٹھیک ہے۔ ڈن“

میز سمیٹنے، برتن اٹھانے میں عامر اور عاصم نے مدد کی۔ کچن کی صفائی میں اسے ایک گھنٹہ اور لگ گیا۔ آج تو اسے شاور لینے کا بھی وقت نہیں ملا۔ اپنے آپ سے اسے ادرک لہسن اور مسالوں کی بو آ رہی تھی۔ دو مگ چائے کے بنائے اور کمرے میں آئی عامر اسے دیکھ کر محبت سے مسکرایا۔ ”آؤ ہمارے پاس بھی آ بیٹھو“

”عامر میں پسینے میں ڈوبی ہوں“

عامر محبت پر آمادہ تھا۔ اس کا ساتھ دیا۔ وہ شاور لینے گیا تو وہ آہستگی سے پلنگ سے اتری۔ اسٹور میں اس کے جہیز کا ایک چھوٹا سا اٹیچی کیس تھا جو بڑے سوٹ کیس کے پیچھے پڑا تھا۔ اس میں اس کا شادی کا جوڑا تھا۔ دوپٹے کے ایک گوشے کا گوٹا ادھڑا ہوا تھا۔ اس کے اندر خلا سا بن گیا تھا۔ احتیاط سے اس میں انگلیاں ڈال کر ایک چھوٹی سی تصویر نکالی۔ اسے دیکھا۔ آنکھوں میں دو موٹے آنسو بہے باقی اس نے پی لیے۔

”آج کا دن بھی گزر ہی گیا“ ۔ اس نے تصویر دوبارہ اسی احتیاط سے دوپٹے کے گوشے میں چھپا دی۔

(مرکزی خیال ماخوذ)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments