کیا برقعہ پشتونوں کا روایتی لبادہ ہے؟


پتہ نہیں کیوں برقعے کو پشتونوں کے ساتھ اس طرح جوڑا گیا ہے جیسے یہ ان کی ہی اختراع ہو یا ان ہی نے اس روایت یا رسم کو ساری دنیا میں پھیلایا یو۔ حالانکہ اس کا مذاق بھی جب اڑایا جاتا ہے تو شٹل کاک جیسے ناموں سے پکار کر پشتوں کے ساتھ جوڑنے اور اس کا تمسخر اڑانے کی حتی الوسع کوشش کیا بلکہ پورے جتن کیے جاتے ہیں جس کے بعد مزید بولنے کے بجائے ندامت یا شرمندگی جیسے محسوسات گھیر لیتے ہیں۔

فلموں، ڈراموں تھیٹر اور دیگر میلوں جھمیلوں میں پشتوں عورت کو دکھانے کا اس سے پسندیدہ جہاندیدہ اور ندیدہ لباس ڈائریکٹرز کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا۔ اور یہ اس طرح کی علامت بنا دی گئی ہے کہ پھر کچھ بولنے کی نہیں بلکہ دیکھنے کی حد تک رہ جاتا ہے۔ ستر، پردہ پوشی، حیا اور خود کو ڈھانپنا کوئی معیوب عمل نہیں لیکن اگر اس کو توہین آمیز انداز میں پیش کیا جائے تو پھر اس طرح کا بااخلاق عمل بھی بداخلاقی کے زمرے میں شمار کیا جاتا ہے خاص کر ان لوگوں کے لئے جو اس کا تمسخر اڑاتے ہیں۔

کسی بھی روایت کو پرکھنے کے لئے کسی بھی زبان، ادب اور کلچر کے کلاسک کو جانچا جاتا ہے۔ اور کسی بھی زبان ادب اور کلچر کا کلاسک یا فوک لور اس کی اصل کسوٹی یا اصل پیمانہ ہوتا ہے۔

پشتو ادب کا سب سے پرانا کلاسک یا فوک لور پشتو ٹپہ ہے جو ہزاروں سال پرانا سینہ بہ سینہ آتا ہوا آج کے تحریری دور میں تحریری شکل میں زندہ و تابندہ ہے۔ پشتو ادب کے ٹپوں میں کہیں بھی برقعے کا ذکر نہیں ملتا۔ کہیں بھی باضابطہ یا بے ضابطہ پردے کا تذکرہ نہیں جس میں برقعے کا برملا ذکر ملتا ہو یا برقعے کو مثال کے طور پر یا تاکیداً استعمال کیا گیا ہو۔

البتہ چادر، آنچل، دوپٹہ، گھونگھٹ، پلو کا ذکر ملتا ہے۔
جیسے
پلو پہ زان پسے راکا گی
خداوندہ خدایا! میلمنہ بہ د چا وینہ
یہ جو اپنا پلو خود کے پیچھے سرکا کے چل رہی ہے
اے خداوند کریم! یہ کس کی مہمان ہوگی

یعنی خود کے پیچھے پلو سرکانا اور مہمان کے تذکرے سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ کسی باہر گاؤں یا دوسری جگہ سے آئی ہوئی ہے ورنہ ایک ہی گاؤں میں روایتاً ایک دوسرے سے پردے کا رواج نہیں تھا۔

اس طرح
د سادر ٹال دے لیونے کرم
د پیچکی کونڈو دے ورک د ملکہ کڑمہ
تیرے جھولتے ہوئے چادر نے مجھے دیوانہ بنا دیا
اوپر سے جو زلفوں ( بینگ ) میں کنڈے ( کلپ ) لگائے ہیں اس نے وطن چھوڑنے پر مجبور کر دیا

اس کا مطلب یہ ہوا کہ چادر میں جھولتے ہونے جانا اور زلفوں یا بینگ کے کنڈے یا بال پن نظر آنا روایتاً پردے کی بات نہیں ہو رہی ورنہ چادر پوری اوڑھ کر بالوں یا بینگ کے کنڈوں یا بال پنوں کا نظر آنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔

یا یہ کہ
مدام بہ زہ درسرہ نہ یم
چے بہ دے زلفے د خنڈانو خلاصومہ
ہمیشہ میں تیرے ساتھ نہیں ہوں گا
کہ میں تیری زلفوں کو درختوں کے شاخوں سے چھڑاتا رہوں گا
جانان پہ ٹوقو نہ پوہیگی
ما پہ خورو زلفوں وہو مرور شونہ
جانان مذاق کو بھی نہیں سمجھتا
میں ان کو بکھرے ہوئے بالوں سے مار رہی تھی اور روٹھ گیا
یعنی اگر ادھر پردہ یا برقعہ ہوتا تو زلفوں کا شاخوں میں پھنسنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا یا

دوسرے ٹپے میں اگر برقعے میں ڈھانپے ہوئے بال ہوتے تو محبوب کو نہ بکھرے ہوئے بالوں سے مذاقاً مار پڑتی اور نہ وہ روٹھتا۔

اس طرح ایک اور ٹپہ ہے
بیا بہ نرے جامے او نہ کڑم
باران لمدہ کڑم جانان ٹولہ اولیدمہ
یعنی پھر میں کبھی بھی باریک لباس نہیں بناؤں گی یا پہنوں گی
بارش میں، میں بھیگ گئی اور جانان نے مجھے سراپا دیکھ لیا

اب اگر برقعے کی روایت ہوتی یا چلو چادر بھی ہوتی جو اس ٹپے سے ظاہر ہے کہ چادر بھی نہیں تھی جس کی وجہ سے محبوبہ کو احساس ہے کہ پھر باریک لباس زیب تن نہیں کروں گی اگر بارش ہو، یہ نہیں کہا ہے کہ پھر برقعے یا چادر کے بغیر بارش میں نہیں نکلوں گی بلکہ فقط باریک لباس پہننے کی غلطی کے احساس کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ جو برقعہ یا با الفاظ دیگر شٹل کاک جو پشتونوں کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے یہ ان کا روایتی پردے کا لبادہ نہیں بلکہ یہ ان پر مذہبی سخت گیری یا مذہبی تقلید کے طور پر تھوپ دیا گیا ہے۔ جس سے سامراج ان کو دنیا میں آسانی سے جگ ہنسائی کا سبب بنا سکتا تھا، بناتا رہا ہے اور ہنوز بنا رہا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments