شہباز حکومت کو بھی کسی ”سائفر کہانی“ کی ضرورت ہے؟


موضوع آج کے لئے میں نے کچھ اور سوچ رکھا تھا۔ پیر کی صبح مگر آنکھ کھلی تو ایک مہربان نے واٹس ایپ کے ذریعے ایک سوال بھیج رکھا تھا۔ اس پر غور کرنا لازمی تصور کیا۔ سوال یہ تھا کہ نظر بظاہر یکے بعد دیگرے آئی ایم ایف کو ایک پریس ریلیز اور امریکی افواج کی ہمارے خطے سے متعلق امور کے لئے مختص سینٹ کوم کے کمانڈر کے ذریعے یہ ”وضاحت“ دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ان کا درد سر نہیں۔ ٹھوس معلومات تک رسائی کے بغیر مذکورہ سوال کا تسلی بخش جواب ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق ”ڈاٹ سے ڈاٹ“ ملائیں تو ایسے بیانات کے منظر عام پر آنے کی وجوہات البتہ سمجھی جا سکتی ہیں۔

عمران حکومت کے قیام سے کئی ماہ قبل ہی اسلام آباد کے ”باخبر“ کہلاتے حلقوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئی تھیں کہ ہمارے ایٹمی پروگرام سے مبینہ طور پر ”اکتایا“ امریکہ بے چینی سے اس وقت کا انتظار کر رہا ہے جب پاکستان غیر ملکی قرضے ادا کرنے کے قابل نہ رہے۔ صورتحال وطن عزیز کو ”دیوالیہ“ بنانے لگے تو پیغام آ سکتا ہے کہ ”ملک بچاؤ یا ایٹمی پروگرام“ ۔ اس پیغام سے گھبرا کر پاکستان خود کو ”دیوالیہ“ سے بچانے کے لئے ایٹمی پروگرام کی ”قربانی“ دے سکتا ہے۔

ذاتی طور پر اسلام آباد کے ”باخبر“ کہلاتے حلقوں میں پھیلتی یہ سرگوشیاں مجھے ”سازشی کہانی“ ہی سنائی دیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے ہرگز خوش نہیں ہیں۔ وہ اسے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد دباؤ بڑھا کر قابو میں لا سکتا تھا۔ کمیونسٹ روس مگر دسمبر 1979 ء میں افغانستان پر قابض ہو گیا۔ اسے وہاں گھیر کر شکست سے دو چار کرنے کے لئے امریکہ کو پاکستان کی ”جغرافیائی اہمیت“ ایک بار پھر یاد آ گئی۔ ہمارے ایٹمی پروگرام کو نظرانداز کرتے ہوئے ”افغان جہاد“ کی بھرپور سرپرستی کا آغاز ہو گیا۔ جنرل ضیاء کی مارشل لائی حکومت اس سے مستحکم اور خوش حال ہوئی۔ ایٹمی پروگرام کو جدید تر بنانے کا عمل بھی اس کے دوران نہایت لگن سے جاری رہا۔ امریکہ اس میں ہوئی پیش رفت کی بابت ہمیشہ باخبر رہا۔ اسے سنجیدگی سے روکنے کی ضرورت مگر محسوس نہ کی۔ کبھی کبھار اپنے ملک میں موجود پاکستان کی جانب سے ”اسلامی بم“ بنانے کی کاوشوں کی مخالف لابیوں کی تسلی کے لئے امریکی انتظامیہ کی جانب سے اگرچہ تنبیہ دیتے بیان جاری کر دیے جاتے۔

وسیع تر تناظر میں ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان کی سرحد کے بہت قریب آئے اور ایٹمی اسلحے کے حوالے سے امریکہ کے مقابلے میں ”سپر طاقت“ بنے کمیونسٹ روس کو ڈرانے کے لئے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو زندہ رکھنا بھی مقصود تھا۔ وہ اگر جاری نہ رہتا تو روسی افواج پاکستان میں مبینہ طور پر افغان ”دہشت گردوں“ کے ”تربیتی کیمپوں“ اور ”پناہ گاہوں“ کو مسمار کرنے ہمارے ملک پر بھی حملہ آور ہو سکتی تھیں۔ براہ راست حملے کے علاوہ ایسے ”کمانڈو ایکشن“ بھی لئے جا سکتے تھے جو امریکہ نے 2011 ء میں اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں کیا تھا۔ اس کے علاوہ یاد یہ بھی رکھنا ہو گا کہ ”افغان جہاد“ کے دوران ہمارا ازلی دشمن خود کو ”غیر جانبدار“ رکھتے ہوئے بھی کمیونسٹ روس کی مسلط کردہ کارمل اور نجیب حکومت کا ”دوست“ رہا تھا۔ اسے بھی پریشان ر کھنے کو امریکہ ہمارے ایٹمی پروگرام نظرانداز کرتا رہا۔ اس پروگرام کی ”دہشت“ اسے محض اس وقت محسوس ہوئی جب سوویت یونین افغانستان میں ناکام ہونے کے بعد خود بھی پاش پاش ہو کر ”روس“ تک سکڑ گیا۔

”دیوالیہ“ کے امکانات کو ”ایٹمی پروگرام“ سے منسلک کرتے ہوئے سازشی کہانیاں گھڑنے والے یہ حقیقت بھی یاد نہیں رکھتے کہ سری لنکا نے کبھی ایٹمی قوت بننے کا خواب بھی نہیں دیکھا۔ اس کے باوجود گزرے برس واقعتاً دیوالیہ ہو گیا۔ وجہ اس کی وہاں کے حکمرانوں کی معاشی پالیسیاں تھیں۔ ”تامل بغاوت“ پر وحشیانہ انداز میں قابو پانے والا ستیا راجہ پکسا فوج چھوڑ کر سیاست میں آیا تو کئی برسوں تک وہاں کا مقبول ترین حکمران رہا۔ وہ متشدد نسل پرست تھا۔ اپنی مقبولیت کے زعم میں عوام کو خوش رکھنے کے لئے غیر ملکوں سے بھاری بھر کم قرضہ لیتا رہا۔ ان قرضوں سے اس نے ایسے ”میگا پراجیکٹ“ چلائے جن کی ٹھوس معاشی افادیت موجود ہی نہیں تھی۔ اپنے وسائل کو ذہانت سے استعمال کرتے ہوئے خوش حال بنانے کے بجائے وہ غیر ملکی سیاحوں کے ہجوم ہی سے ملک میں معاشی رونق لگانے میں مصروف رہا۔ کرونا نے سیاحت پر مبنی دھندے تباہ و برباد کر دیے۔ اس تباہی کے باوجود موصوف نے فیصلہ کیا کہ سری لنکا کے کاشت کار کیمیائی کھاد استعمال نہ کریں۔ زمین کو ”قدرتی اور روایتی“ انداز اختیار کرتے ہوئے ہی ”زرخیز“ بنانے کی کوشش کریں۔ ”ماحول دوستی“ کے بہانے ہوئی اس کاوش نے وہاں کی رہی سہی زراعت کا بھٹہ بھی بٹھا دیا۔ بالآخر اس کا ملک غیر ملکی قرضوں کی اقساط دینے کے قابل بھی نہ رہا۔ دیوالیہ ہو گیا۔ پاکستان کے دیوالیہ ہو جانے کے امکانات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں بھی فقط اپنے ”ایٹمی پروگرام“ پر توجہ دینے کے بجائے دیگر ٹھوس وجوہات تلاش کرنا ہوں گی۔

بات لمبی ہو جائے گی۔ مجھے تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنا ہے جو پیر کی صبح اٹھتے ہی اپنے واٹس ایپ پر دیکھا تھا۔ میری دانست میں ہمارے ”ایٹمی پروگرام“ کے بارے میں آئی ایم ایف اور امریکہ کی سنٹرل کمانڈ کے سربراہ کے جو بیانات آئے ہیں ان کی وجہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کا وہ دھواں دھار خطاب ہے جو انہوں نے سینٹ کی گولڈن جوبلی تقریب کے دوران فرمایا تھا۔ جوش خطابت میں انہوں نے یہ تاثر اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ آئی ایم ایف کا گزشتہ دو برسوں سے پاکستان کے خلاف اپنایا سخت گیر رویہ ہمارے ایٹمی پروگرام اور لانگ رینج میزائل بنانے کی صلاحیت پر قابو پانے کی کوشش بھی ہے۔ آئی ایم ایف اس کی وجہ سے اصرار کرنے کو مجبور ہوا کہ وہ فقط پاکستان کی ”معاشی پائیداری“ کی بابت فکر مند ہے۔ اس تناظر میں خواہش مند ہے کہ ہم ”طلب و رسد“ کے حقائق پر مبنی فیصلے کریں۔ اپنے عوام کو بجلی، پیٹرول اور گیس کی کم از کم وہ قیمت ادا کرنے کے عادی بنائیں جو انہیں پیدا کرنے یا غیر ملکوں سے درآمد کرنے کے لئے ادا کی جاتی ہے۔

اسحاق ڈار صاحب کو جذبات سے مغلوب ہو کر ایسا دھواں دھار خطاب فرمانے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔ خطاب فرما دیا تو ترنت جواب بھی آ گیا ہے۔ بات یہاں ختم ہو جانا چاہیے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے لیکن مجھے شبہ ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کو اطمینان دلانے میں ناکام ہو جانے کے بعد شہباز حکومت بھی عمران حکومت کی طرح کسی ”سائفر کہانی“ کی تلاش میں ہے۔ یہ لکھنے کے بعد مگر دل سے فوراً دعا یہ بھی ابھری ہے کہ میرا خدشہ قطعاً غلط اور بے بنیاد ہو۔

بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments