سیاسی گفتگو سے پرہیز کیوں؟


بال سنوارنے نائی کی دکان پر جاؤ تو کرسی پر بیٹھنے سے پہلے یہ عبارت پڑھنے کو ملتی ہے۔ یہاں سیاسی گفتگو کرنا منع ہے۔ ہوٹل میں کھانا کھانے کے لئے جانا پڑے تو آرڈر دینے سے پہلے اس نوٹس پر نظر پڑتی ہے جس پر لال رنگ سے تحریر موٹے الفاظ میں لکھا ہوتا ہے، سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔ گھر میں کوئی فرد سیاسی بات کر کے تو اپنے ہی بڑے اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے یہ طعنہ دیتے ہیں، وڈا سیاستدان بن گیا۔ سکول کالجز اور حتیٰ کہ یونیورسٹیز کا بھی یہی حال ہے۔

مسلمانوں کے مرکز مساجد میں تو بندہ چوں تک نہیں کر سکتا۔ کہا جاتا ہے اللہ کا گھر ہے، دنیاوی باتوں سے اس مقدس گھر کا تقدس پامال ہو گا۔ سیاسی باتیں کرنا تو جیسے یہاں بالکل حرام ہے۔ انتہائی وہاں ہوتی ہے جب پڑھے لکھے اور نامور شخصیات بڑے فخر سے یہ جملہ کہتے ہیں کہ، ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ووٹ پول کرتے ہیں۔

یہ آج تک ایسا کیوں ہوتا چلا آیا ہے؟ معاشرے میں آخر کیوں سیاسی گفتگو کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ کیوں ہر جگہ اس موضوع کو ممنوع بنایا گیا۔ ان مقامات پر جہاں ناچ گانے، بھارتی گانے اور دیگر لغویات پر کوئی روک ٹوک نہیں وہاں بھی سیاسی گفتگو کو زیر عتاب رکھا گیا۔ آخر کیوں؟ کوئی تو وجہ ہوگی؟ ان سوالات کا جواب جاننے کے لئے پہلے حقیقی سیاست کی مختصر تعریف سمجھنا ہوگی۔

سیاست اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کا نام ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی کے مطابق سیاستدان معاشرے کا انجنیئر یا ڈاکٹر ہوتا جو معاشرے کے مسائل اور پیچیدگیوں کا حل تلاش کرتا ہے۔ قانون سازی کے ذریعے الجھے ہوئے معاملات کو سلجھاتا ہے۔ صحیح معنوں میں سیاست عین عبادت ہے۔ نبیوں اور رسولوں کی سیاست کو عبادت کہا گیا۔ بدقسمتی سے پاکستانی سیاست اس کے برعکس ہے۔ سیاستدان اس کو عبادت سمجھنے کے بجائے ذریعے ماش سمجھتے ہیں۔ دولت اکٹھا کرنے کا ایک آسان اور شارٹ کٹ راستہ مانتے ہیں۔ ملک کی موجودہ معاشی سیاسی و انتظامی حالت اور صورتحال دیکھ کر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ سیاستدانوں نے سیاست صرف اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے کی۔

چونکہ ہمارا موضوع، سیاسی گفتگو سے پرہیز سے متعلق ہے اس لیے اسی کا جائزہ لیتے ہیں۔ یاد رہے بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش 75 سال پہلے انگریزوں کے غلام تھے۔ ایسٹ انڈین کمپنی سے شروع ہونے والے غلامی کے اس طویل دور میں انگریزوں کو سیاسی سوچ بوجھ رکھنے والے ہندوستانیوں سے ہر وقت خطرہ لاحق رہتا تھا۔ کیوں سوجھ سمجھ رکھنے والے افراد یا شخصیات عوام کو غلامی کی زنجیریں توڑنے پر اکساتے تھے اور وہ یہ دلیل دیتے تھے کہ یہ ملک ہمارا ہے اور اس پر راج ہم کریں گے۔

اس ملک کے اقتدار پر انگریز کا نہیں ہندوستان میں بسنے والے عوام کا حق ہے۔ چونکہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کسی بھی بندہ یا گروہ کا سیاسی سوجھ بوجھ ہونا ضروری ہے لہذا انگریز نے ہمیشہ سیاسی ادراک رکھنے والے افراد کو نشانے پر رکھا۔ مولانا عبدالکلام آزاد اور مولانا عبداللہ سندھی سمیت دیگر قد آور شخصیات پر کڑی نظر رکھی اور ان کے خطابات کو روکا گیا۔ چونکہ یہ شخصیات عوام کو جائز حقوق کی بات کرتے تھے لہذا عوام کو بھی یہ بات سمجھا دی گئی کہ سیاستدانوں سے دور رہیں۔ سیاست گفتگو سے پرہیز کریں ورنہ ٹھکانہ سیدھا جیل کی کال کوٹھری ہو گا۔

عام ہندوستانیوں ( پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت کے عوام) نے سیاست دانوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے سے پرہیز برتنا شروع کیا تو معاملہ دور تو پہنچ گیا۔ دکانداروں اور ہوٹل مالکان نے انگریزوں کی سزا سے بچنے کے لئے اپنی دکانوں اور ہوٹلوں میں۔ سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں، جیسے نوٹس آویزاں کرنا شروع کر دیں۔ یہ سلسلہ نائی اور نان بھائی کی دکان تک چلتا گیا اور آہستہ آہستہ مساجد اور گھروں میں بھی جا پہنچا۔

انگریز تو چلے گئے لیکن آج پچھتر سال بعد بھی آپ کو اس طرح کے پوسٹر کہیں نہ کہیں ضرور نظر آئیں گے۔ اگر نہیں تو دکاندار بھی سیاسی گفتگو کرنے پر منع کرتا ہے۔ روکتا ہے اور صاف صاف کہتا ہے، بھائی صاحب سودا سلف لے لو اور یہاں سے چلتے بنو۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزوں کی غلامی سے نکل کر ایک اور طویل غلامی کے دلدل میں آ گئے۔ انگریزوں نے اپنے خیر خواہوں کو ہمارے اوپر مسلط کیا، چونکہ ہمارے اپنے حکمران انگریزوں کی طرز سیاست سے واقف ہوچکے تھے لہذا انہوں نے نہ قانون بدلا نہ ہی اقتدار میں رہنے کے لئے سیاسی واردات۔

اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے آزادی ملتے ہی یہ تہیہ کر لیا کہ اقتدار میں رہنا ہے تو عوام کو سیاست سے دور رکھنا ہو گا۔ قومی وسائل اور خزانے پر قابض رہنا ہے تو لوگوں کو سیاسی شعور سے نابلد رکھنا ہو گا۔ یوں سنہ 47 میں ہمارے آقا بدل گئے مگر ہماری قسمت نہیں۔ اور وہ پوسٹرز جوں کے توں چسپاں رہے۔ مساجد جہاں ہمارے پیارے نبی ریاست کے اہم امور کے حوالے سے مشاورت کرتے تھے۔ غزوات کی منصوبے بناتے تھے۔ درس گاہیں جہاں ہمارے خلفائے راشدین شعور اور سمجھ کی باتیں کرتے تھے۔

گھر جہاں خواتین تک کو سیاسی رموز سکھائے جاتے تھے۔ کاروباری مراکز جہاں اپنے حقوق سے متعلق گفتگو کی جاتی تھی۔ ان پر سیاسی گفتگو کرنے سے پرہیز کریں۔ کے نوٹس لگ گئے۔ مقصد صرف ایک ہے۔ عوام کو اقتدار سے دور رکھو۔ چند خاندانوں کے علاوہ باقیوں کو اقتدار کی راہداریوں کی خوشبو تک سونگھنے نہ دو۔ کوٹ کچہری تھانے اور دیگر چھوٹے موٹے معاملات حل کروا کر عوام کو غلامی کی زنجیروں سے جھکڑ کر رکھو۔ اقتدار پر ہمیشہ قابض رہنا ہے تو عوام کو سیاسی شعور کا لفظ تک نہ پڑھاؤ نہ انہیں یہ لفظ سننے دو۔

اب وقت آ گیا کہ لوگ سیاست کو سمجھ جائیں۔ سیاست پر گفتگو کریں اور اپنے حقوق کی بات کریں۔ ہاں البتہ شائستگی برقرار رہے، ۔ رواداری قائم رہے۔ پیار و محبت۔ اخوت و بھائی چارے پر کوئی ضرب نہ آئے۔ ہر بندہ خود کو معاشرے، ملک و قوم کے لئے اہم تصور کرے تاکہ ملک ترقی کرسکے اور یہاں بسنے والے ہر انسان کو وہی حقوق مل سکیں جو اہل اقتدار انجوائے کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments