پروین شاکر کی شاعری میں تانیثی شعور! اردو کی ممتاز شاعرہ، انگریزی زبان کی استاد، ایک قابل اور با اصول سول سرونٹ، کالم و مضمون نویس، بے بدل ٹی وی کمپیئر اور ایک انتہائی ہر دلعزیز شخصیت پروین شاکر نے شاعری میں ہمہ جہت رجحانات کو فروغ دیا اور انہی میں سے ایک جہت تانیثی شعور بھی ہے۔ اس شعور کو ان۔ کے کلام۔ میں جا بجا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کی پہلی کتاب خوشبو میں خواتین کے عالمی سال کے حوالے سے ایک نظم درج کی گئی ہے جس کا عنوان ناٹک ہے۔ ناٹک کے اصطلاحی معنی ایک کہانی جو مکالموں اور اداکاری کے ذریعے تماشائیوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔

(خواتین کا عالمی سال)
رت بدلی تو بھنوروں نے تتلی سے کہا
آج سے تم آزاد ہو
پروازوں کی ساری سمتیں تمھارے نام ہوئیں
جاؤ
جنگل کی مغرور ہوا کے ساتھ اڑو
بادل کے ہمراہ ستارے چھو آؤ
خوشبو کے بازو تھامو، اور رقص کرو
رقص کرو
کہ اس موسم کے سورج کی کرنوں کا تاج تمھارے سر ہے
لہراؤ
کہ ان راتوں کا چاند، تمھاری پیشانی پر اپنے ہاتھ سے دعا لکھے گا
گاؤ
ان لمحوں کی ہوائیں تم کو، تمھارے گیتوں پر سنگیت دیں گی
پتے کڑے بجائیں گے
اور پھولوں کے ہاتھوں میں دف ہو گا!
تتلی، معصومانہ حیرت سے سرشار
سیہ شاخوں کے حلقے سے نکلی
صدیوں کے جکڑے ہوئے ریشم پر پھیلائے۔ اور اڑنے لگی
کھلی فضا کا ذائقہ چکھا
نرم ہوا کا گیت سنا
ان دیکھے کہساروں کی قامت ناپی
روشنیوں کا لمس پیا
خوشبو کے ہر رنگ کو چھو کر دیکھا
لیکن رنگ، ہوا اور خوشبو کا وجدان ادھورا تھا
کہ رقص کا موسم ٹھہر گیا
رت بدلی
اور سورج کی کرنوں کا تاج پگھلنے لگا
چاند کے ہاتھ، دعا کے حرف ہی بھول گئے
ہوا کے لب برفیلے سموں میں نیلے پڑ کر اپنی صدائیں کھو بیٹھے
پتوں کی بانہوں کے سر بے رنگ ہوئے
اور تنہا رہ گئے پھولوں کے ہاتھ
برف کی لہر کے ہاتھوں، تتلی کو لوٹ آنے کا پیغام گیا
بھنورے شبنم کی زنجیریں لے کر دوڑے
اور بے چین پروں میں ان چکھی پروازوں کی آشفتہ پیاس جلا دی
اپنے کالے ناخنوں سے
تتلی کے پر نوچ کے بولے۔
احمق لڑکی
گھر واپس آ جاؤ

ناٹک ختم ہوا! اسی طرح کے تاثر کی نظمیں کتوں کا سپاسنامہ، پوسٹ ڈنر آئٹم، مسفٹ⁦، اختیار کی ایک کوشش، ہمارا المیہ یہ ہے، ناٹک، نک نیم، ورکنگ وومن، بدتر ازگنہ، اے جگ کے رنگ ریز، لیڈی آف دی ہاؤس، اونٹ کا حافظہ رکھنے والے اور ایک معقول نکاح، خود کلامی، بھٹ، بے یقینی کی ایک نظم، انہونی کی ایک دعا، اور ایسی ہی بے شمار نظمیں ہیں لفظ تانیثیت عربی کا لفظ ہے تانیثیت سے مشتق انگریزی متبادل ) فیمینزم ) لاطینی اصطلاح ) Femina کا مترادف ہے

معنی و مفہوم تحریک نسواں۔

نظریہ حقوق نسواں اور نسوانیت کے ہیں اس تحریک کی ابتداء 1871 میں ہوئی جس کا مقصد خواتین کے خلاف ہونے والے ناروا سلوک کو روکنا تھا ان کا استحصال اور ان کے ساتھ جنسی جبر اور فرسودہ روایات کو ان کے ساتھ وابستہ کر کے ان سے وہ حق چھیننا جو مذہب، قانون، ریاست اور سماج نے اسے اسے تفویض کر رکھے ہیں۔ خاندانی رشتوں کے علاوہ معاشرتی اقدار تک کی اس قدر آگہی پیدا کرنا ہے کہ اجتماعی شعور بیدار ہو سکے۔ عورت بھی مردوں کی طرح اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی جدوجہد میں کامیابی سے ہمکنار ہو سکے۔

ہمارے معاشرے میں مرد خواتین کو اپنا محکوم، تابع، حقیر اور کمزور سمجھ کر اس کا حق چھینتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جنسی، نفسیاتی، عقلی، طبقاتی اور نسلی بنیاد پر استحصال کا شکار ہو رہی ہے۔ اس نظریے کی رو سے تانیثیت کا موقف اس عورت کو ) Deconstruct) کرنا ہے جو اپنی ذات ہی سے بے خبر نہیں تھی بلکہ اس سماجی تہذیبی منظرنامے نے اسے ایک مجہول حقیقت میں تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اسے مردوں کی طرح کام کرنے کے باوجود ان سے کم اجرت ملنا اپنی ذات سے متعلق فیصلے کر نا جس میں تعلیم، روزگار، شادی اور اپنی استعداد کے مطابق اپنے لئے پروفیشنل لائف کا انتخاب کرنا شا مل ہے عورت عقلی، فکری، اور تخلیقی سطح پر کم تر یا کمزور نہیں ہوتی اسے مراعات اور خوشگوار ماحول میسر نہیں وہ یا تو ایک تلذذ کی شے ہے یا پھر اسے اپنے سے بزعم خود برتر جنس کی غلامی کرنی ہے۔ پروین نے ظلم اور جبر کے اس نظام کو نہ صرف تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ تمام عمر اپنے قلم سے اس رویے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتی رہیں تو برمن بلا شدی

کچے ذہن اور کچی عمر کی لڑکیاں
اپنی خوبی میں
مائع جیسی ہوتی ہیں
جس برتن میں ڈالی جائیں
اسی شکل میں کیسے مزے سے ڈھل جاتی ہیں
کیسا چھلکنا، کیسا ابلنا اور کہاں کا اڑنا!
اور اک میں ہوں۔ پتھر اور شوریدہ مزاج!
اس سے اس قوت سے ٹکرانا چاہوں کہ
ظرف تہی کی گونج سے اس کا بھرم کھل جائے!
میں نے آئینے کو کب جھٹلایا ہے!
ہاں۔ گہنے مجھ پر بھی اچھے لگتے ہیں
لیکن جب بھی مجھ کو ان کا مول کبھی یاد آتا ہے تو
کنگن بچھو بن جاتے ہیں
اور پازیبیں ناگ کی صورت میرے پاؤں جکڑ لیتی ہیں!
بہت ہی میٹھے بولوں کا جزو اعظم
جب حالت خام میں مجھ کو نظر آ جاتا ہے
دہشت سے مری آنکھیں پھیلنے لگتی ہیں
اور اس خوف سے میری ریڑھ کی ہڈی جمنے لگتی ہے کہ
ان ہی ماورا زاد منافق لوگوں میں
مجھ کو ساری عمر بسر کرنی ہے!
کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے
میں نے اپنا ہاتھ اچانک کسی اور کے ہاتھ میں پایا
لیکن جلد ہی میری ضرورت سے زائد بے رحم بصارت نے
یہ دیکھ لیا ہے
یا تو میرے ساتھی کی پرچھائیں نہیں بنتی ہیں
یا پھر مٹی پر
اس کے پنجے اس کی ایڑی سے پہلے بن جاتے ہیں
انسانوں کی سای رکھنے والی نسل ناپید ہوئی جاتی ہے!
شام کے ڈھل جانے کے بعد
جب سایہ اور سایہ کناں دونوں بے معنی ہو جاتے ہیں
میں مکروہ ارادوں والی آنکھوں میں گھر جاتی ہوں
اور اپنی چادر پر تازہ دھبے بنتے دیکھتی ہوں
کیونکہ مجھ کو ایک ہزار راتوں تک چلنے والی کہانی کہنا
نہیں آتی
میں آقائے ولی نعمت کو

خود اپنی مرضی بھی بتانا چاہتی ہوں!