ہندوستانی مسلمانوں کو در پیش سماجی و معاشی مشکلات


ہندوستان میں مسلم معاشرہ طویل عرصہ سے ملک کے سماجی نظام کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔ لیکن سماجی، اقتصادی اور ثقافتی ترقی میں مسلم سماج کی جانب سے نمایاں شراکت کے باوجود اسے متعدد مسائل اور پریشانیوں کا سامنا ہے۔ یہ مسائل تاریخی، سماجی، اقتصادی اور سیاسی سبھی نوعیت کے ہیں جو ان کی زندگیوں پر بری طرح اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اس جانب حکومت کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اپنے مسائل لے کر بیٹھ جاتی ہے جب کہ ہمارے اپنے ارباب حل و عقد بھی دھیان نہیں دیتے۔

جب ہم اس تمام صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان نے نظریاتی ریاست اور آئینی ریاست کے درمیان ہونے والی بحث و تکرار میں مرکزی حیثیت حاصل کی ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران، سماجی اور سیاسی منظرنامے میں اقلیتوں کی مساوی حصہ داری کی عدم موجودگی کی وجہ سے اکثریتی طبقات ایک مضبوط قوت بن گئے ہیں، جس نے خاص طور پر مسلمانوں کی بقا کے لیے پیچیدگیوں میں اضافہ کیا ہے۔ آئینی دفعات اور بین الاقوامی اصولوں کی قابل قدر موجودگی اور نفاذ کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کو سماجی و سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں امتیازی سلوک، تعصب، فرقہ وارانہ فسادات اور سیاست اور میڈیا میں کم نمائندگی شامل ہے۔ بہت سے ہندوستانی مسلمانوں کو تعلیم کی کم سطح اور معاشی مواقع تک محدود رسائی کی وجہ سے غربت اور بے روزگاری کا سامنا ہے۔

2011-12 میں مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح 6.3 فیصد تھی، جبکہ قومی اوسط 5.4 فیصد تھا۔ یہ ہندوستان کی ملازمت کے بازار میں مسلمانوں کے لیے محدود مواقع کا ایک تشویشناک اشارہ ہے، اس نے صحت کی دیکھ بھال اور معیاری تعلیم جیسی بنیادی سہولیات تک رسائی سمیت ان کی ترقی اور تعمیر میں رکاوٹ ڈالی ہے۔ جب بات معیاری صحت کی نگہداشت تک رسائی کی ہوتو دیہی علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں کے متاثر ہونے کے امکانات زیادہ ہیں، جہاں نگہداشت صحت کی خدمات محدود ہیں۔2011-12 کے نیشنل سیمپل سروے سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں نگہداشت صحت کی خدمات تک مسلمانوں کی رسائی سب سے کم تھی، صرف 23.4 فیصد مسلمانوں کو طبی سہولیات تک رسائی حاصل تھی جبکہ قومی اوسط 34.6 فیصد تھا۔

معاشی طور پر خود مختار اور خوشحال نہ ہونے کی وجہ سے بھی مسلمان اپنے بچوں کو پرائمری اور انٹرمیڈیٹ تک تعلیم کے لیے مدارس اور سرکاری اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ڈگری حاصل کرنے والے طلبہ کی اکثریت مالی مجبوریوں اور خاندان کی کفالت کی ضرورت کی وجہ سے اپنی پڑھائی بند کرنے پر مجبور ہے۔ 2011۔ 12 کے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق مسلمانوں کی خواندگی کی شرح 68.5 فیصد تھی، جبکہ قومی اوسط 74.04 فیصد تھا۔

اسی طرح ابتدائی تعلیم میں مسلم طلبہ کے داخلہ کا مجموعی تناسب 87.6 فیصد کے قومی اوسط کے مقابلے میں 71.5 فیصد تھا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم طلبہ معیاری تعلیم تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں، جو سماجی و اقتصادی نقل و حرکت کے لیے ضروری ہے۔ 2011۔ 12 کے نیشنل سیمپل سروے کے مطابق مسلمانوں کی شہری غربت کی شرح 28.3 فیصد تھی، جبکہ قومی اوسط 19.7 فیصد تھا۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں مسلمانوں میں غربت کی شرح 30.7 فیصد تھی جبکہ قومی اوسط 24.7 فیصد تھا۔ یہ اس حقیقت کی واضح یاد دہانی ہے کہ ہندوستان میں مسلمان غیر متناسب طور پر غریب ہیں، غربت کی سطح قومی اوسط سے کہیں زیادہ ہے۔

ہندوستانی مسلمان اکثر اپنی روزمرہ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں بشمول روزگار، رہائش اور عوامی خدمات تک رسائی میں امتیازی سلوک اور تعصب کا سامنا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہندوستان کے ہر شہر میں مخصوص مقامات پر علیحدگی اور گھیٹوں پر مشتمل بستیوں کی تشکیل ہوئی ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سماجی تفریق میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور اس نے سماجی سطح پر عدم تحفظ کا احساس پیدا کیا ہے۔ مسلمانوں اور دیگر مذہبی برادریوں کے درمیان فرقہ وارانہ تناؤ کے نتیجے میں بعض اوقات فرقہ وارانہ تشدد بھی ہوا ہے۔ یہ تناؤ ہمیشہ سے ہی ہندوستانی سیاست میں ایک تکلیف دہ مقام رہا ہے اور گزشتہ چند سالوں میں مسلمان بہت سے واقعات میں تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔

آزادی کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ سیاسی نمائندگی کی کمی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی سیاست اور حکومت میں اکثر نمائندگی کم ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں ان کے مفادات اور ضروریات کے لیے بھرپور نمائندگی نہیں ہو پاتی۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود، ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی اداروں اور اقتدار کے اعلیٰ دفاتر تک رسائی بہت محدود ہے۔ مسلمانوں کے پاس اس وقت پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (لوک سبھا) میں 543 میں سے صرف 23 نشستیں ہیں، جو کل کے 5 % سے بھی کم ہیں۔ اسی طرح ان کے پاس پارلیمنٹ کے ایوان بالا (راجیہ سبھا) میں 245 میں سے صرف 29 نشستیں ہیں، جو کل کے 12 فیصد سے بھی کم ہیں۔ یہ کم نمائندگی ان کی آبادی کی شرح کے بالکل برعکس ہے اور ہندوستان میں سیاسی اقتدار سے مسلمانوں کو باہر رکھنے کی سوچ کو نمایاں کرتی ہے۔

ہندوستانی معاشرے میں مسلمانوں کے بارے میں سماجی دقیانوسی تصورات بھی پائے جاتے ہیں، جو سماج کے خلاف تعصب اور امتیازی سلوک کا باعث بنتے ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اکثر سخت نگرانی اور حفاظتی اقدامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے حراست میں لے کر انھیں ہراساں کرنا بھی شامل ہے۔ میڈیا میں خاطر خواہ نمائندگی کے فقدان نے ان کے تعلق سے سماج میں غلط معلومات پھیلانے کی راہ ہموار کی ہے۔ مسلم سماج کو مین اسٹریم کی میڈیا اور مقبول ثقافت میں کم نمائندگی دی جاتی ہے۔ پھر میڈیا میں ان کے خلاف منفی دقیانوسی تصورات کو فروغ دیا جاتا ہے۔

حکومت، معاشرہ اور میڈیا کو مسلمانوں کو درپیش سماجی اور سیاسی خدشات کو دور کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ایسا کرنے کے کئی طریقے ہیں، جیسے معاشی عدم مساوات کو کم کرنے کے لیے قانون سازی کی وکالت، سیاسی نمائندگی میں اضافہ، منفی دقیانوسی تصورات کا مقابلہ کرنا، بین المذاہب رابطے کو فروغ دینا اور تمام افراد کے حقوق اور وقار کی ضمانت دینا۔

تعلیم اور ملازمت کے تربیتی پروگراموں تک رسائی کے ساتھ ساتھ ایسی پالیسیاں جو مسلم اکثریتی برادریوں میں معاشی ترقی کو فروغ دیتی ہیں، ہندوستانی مسلمانوں کو ان کی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کر سکتی ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف تعصب کو تعلیم اور عوامی بیداری کی مہموں کے ساتھ ساتھ مذہبی امتیاز کو روکنے والے قوانین کے نفاذ کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔ بین المذاہب رابطے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینا، نیز قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا اور فرقہ وارانہ تشدد کے ذمہ داروں کو جوابدہ ٹھہرانا، یہ سب فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنے اور خونریزی سے بچنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ مسلم سماج کے منفرد مسائل کو حل کرنے والی پالیسیوں کو فروغ دے کر بھی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے۔ تعلیم اور میڈیا مہمات کے ذریعے منفی تصورات کا مقابلہ کرنے سے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف منفی تاثرات کو ختم کرنے میں کافی مدد مل سکتی ہے۔

آخر میں ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش بہت سے چیلنجوں کے باوجود حکومتی اقدامات، پالیسی حل اور عوامی بیداری کی مہموں کے امتزاج کے ذریعے ان مسائل کو حل کرنا سب کے لیے ایک زیادہ جامع اور مساوی معاشرہ بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔ اس میں معاشی ترقی کو فروغ دینا، تعصب اور امتیاز کا مقابلہ کرنا، بین المذاہب رابطے اور افہام و تفہیم کو فروغ دینا، قانون کی حکمرانی کو مضبوط کرنا اور ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو یقینی بنانا شامل ہو سکتا ہے۔ اس طرح کے قدم اٹھا کر ہندوستان ایک ایسے مستقبل کی تعمیر سکتا ہے جہاں اس کے تمام شہری چاہے ان کا مذہب یا پس منظر کچھ بھی ہو، مساوی حقوق، مواقع اور وقار سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 170 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments