اصغر ندیم سید صاحب کے خاکے اور خاکہ نگاری



زندگی کی اسٹیج پر ہم سب ایک کردار کی صورت نمودار ہوتے ہیں اور اپنا کردار ادا کر کے رخصت ہو جاتے ہیں۔ ہماری کہانی اور کردار نگاری اس اسکرپٹ کے تابع ہوتی ہے جو ہمارے کردار کی صورت گری کرتا ہے۔ مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ اکثر کوئی کردار اس لکھت کی روایتی حدود پھاند کر ایسی امپروائزیشن کرتا ہے کہ یہ عمل اس کے کردار کو زندہ و جاوید رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ ایسے میں کہانی پس پشت چلی جاتی ہے اور کردار زندگی کے کینوس اور ناظرین کے ذہنوں پر اپنے نقوش چھوڑ جاتا ہے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ اس کا یہ آف اسکرپٹ جانا اس کی اداکاری کو بہتر بناتا ہے یا بدتر۔ لیکن کردار بہر طور زندہ رہتا ہے۔ ایسے میں ناظرین کے درمیان موجود کچھ لوگ اس کردار کو اپنے ذہن میں محفوظ کر کے اس کا احوال ایک (Mimesis) کے ذریعے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ یہی کہنے، سنانے اور پہنچانے کا اپنا اپنا الگ انداز اس صنف کا تعین کرتا ہے جو اس احوال کا احاطہ کرتی ہے۔

پچھلے دنوں اصغر ندیم سید صاحب کی کتاب ”پھرتا ہے فلک برسوں“ پڑھنے کا موقع ملا جو شخصی خاکوں پر مشتمل ہے۔ میں اکثر یہ سوچتا تھا کہ جن لوگوں کی شخصیت پہلے سے ہی افسانوی یا ڈرامائی رنگ لئے ہوتی ہے ان کو کسی افسانے میں ڈھالنے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید اسی لئے ادب میں خاکہ نگاری کی صنف موجود ہے۔ جس میں کردار بنیادی اور کہانی ثانوی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ مگر اصغر صاحب کی خاکہ نگاری میں کہانی اور خاکہ نگاری باہم متصل ہیں۔ وہ ایک روایتی خاکہ نگاری کے اسٹرکچر سے نکل کر قصہ گوئی کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس میں کردار سے جڑے واقعات سے نئے واقعات جنم لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے ان کی تحریر میں گفتگو کی سی روانی ہے اور ان کے جملے کی بنت مکالماتی تاثر لئے ہوئے ہے۔ بالکل ایسے جیسے کہ ایک قصہ گو اپنے سامعین سے گفتگو کرتا ہے اور ان کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو بھانپ کر ان کا جواب دینے کی کوشش کرتا ہے۔

خاکے پڑھتے ہوئے بڑی شدت سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اصغر صاحب کا یہ مکالمہ کہیں نہ کہیں خود سے بھی چل رہا ہے اور وہ خود بھی اپنی کہانی کا ایک کردار ہیں۔ وہ قاری کا ہاتھ تھام کر ماضی کی جانب رواں ہوتے ہیں اور رستے میں مختلف کرداروں سے ملاقات کرواتے ہیں۔ لیکن یادداشت کے باطن میں سفر کرتے ہوئے وہ کہیں بھٹک کر در پر دستک دیتے ہیں اور ”خود ہی لڑکا سا میں نکل آیا“ کے مصداق اپنی کہانی بھی سناتے چلے جاتے ہیں، گویا وہ اپنا ہی خاکہ لکھ رہے ہوں۔ لیکن یہ بین السطور ہوتا ہے اور وہ ایک منجھے ہوئے کہانی کار کے مصداق قاری کی توجہ واپس اسی کردار کی جانب مبذول کروا دیتے ہیں۔

یہ کتاب ان تمام لوگوں سے ہمارا تعارف ہے جنہوں نے ہمارے فکری اور جمالیاتی ذوق کی آبیاری کی ہے اور ہمارے علمی، سماجی، سیاسی اور ادبی شعور کی نشوونما کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ لیکن کیا کسی تخلیق کار کی تخلیق کا عکس اس کی ذات میں بھی ہوتا ہے؟ یا دیکھنے والے پر بھی وہ منکشف ہوتا ہے؟ اصغر صاحب اس کا جواب دیتے نظر آتے ہیں۔ مثلاً عبداللہ حسین کے ناول نے جس اداسی سے ہمیں روشناس کروایا ان کا خاکہ پڑھتے ہوئے محسوس ہوا کہ یہ اداسی تو ان کی ذات کا حصہ ہے۔ ان کا برہم ہونا، شکوہ کناں اور اکتائے ہوئے رہنا ان کے لاشعور میں موجود اسی اداسی کا پرتو ہے۔ لیکن اصغر صاحب اس سوال کا جواب قاری پر چھوڑتے ہیں کہ اسے اس خاکے میں محمد خان کا غصہ نظر آیا یا عبداللہ حسین کی اداسی؟

منیر نیازی کی شاعری اور نیر مسعود کی نثر ہمیں پر اسرار دنیاؤں میں لے گئی لیکن دونوں کا خاکہ پڑھتے ہوئے ان کی شخصیات کا تاثر یکسر مختلف ہے۔ ایک ہنستا، مسکراتا اور جگتیں مارتا ہے جب کہ دوسرا سنجیدہ اور کم گو ہے۔ دونوں میں جو قدر مشترک ہے وہ ان کی دنیا ہے جو انہوں نے اپنے تخیل سے تخلیق کی اور دونوں کا خاکہ پڑھتے ہوئے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ آیا یہ بھی اپنی تخلیق کی طرح پراسرار تو نہیں؟ ہو سکتا ہے کہ ایک نے مزاح کا کیموفلاج اپنایا ہو اور دوسرے نے سنجیدگی اور متانت کی بکل ماری ہوئی ہو؟

پراسراریت کا تذکرہ ہوا تو ایسی ہی پراسرار دنیا کا باسی زاہد ڈار بھی تھا۔ جس کو جب بھی دیکھا یا اس کے متعلق سنا تو یہی محسوس ہوا کہ کیا واقعی یہ کوئی حقیقی آدمی ہے یا محض ایک واہمہ؟ اس کا خاکہ اسی بات کا بیان ہے کہ وہ ایک جیتا جاگتا حقیقی آدمی تھا مگر لاہور سے عشق کی کی خاطر اس نے کئی سمجھوتے کیے اور اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے ادیبوں کے تخیل کی تصویر بنا رہا۔

کشور ناہید کا ایک خاکہ احمد بشیر نے لکھا تھا اور دوسرا خاکہ اصغر صاحب نے۔ لیکن دونوں کو پڑھنے کے بعد یہی محسوس ہوتا ہے کہ احمد بشیر نے بہت کچھ لکھ دیا اور اصغر صاحب بہت کچھ ہے جو نہیں لکھ پائے۔ احمد فراز کا خاکہ ایک ایسے شخص کا خاکہ ہے جو محبتیں بانٹتا اور سمیٹتا رہا اور اپنی شخصیت اور شاعری میں بین بین رہا۔

باقیوں میں نیاز احمد، اے حمید، گوپی چند نارنگ، حبیب جالب، مسعود اشعر اور فرخ درانی سمیت کل پندرہ لوگوں کے خاکے ہیں۔ یہ تمام لوگ ہمارے ادبی و ثقافتی افق کے روشن ستارے اور ہماری اجتماعی تہذیب کے معمار تھے۔ مگر ان تمام لوگوں میں ایک قدر مشترک لاہور اور اصغر ندیم سید صاحب ہیں۔ یہ اپنی زندگیوں میں کہیں نہ کہیں آف سکرپٹ جانے والے لوگ تھے۔ اس بات سے قطع نظر کہ زندگی کے اسٹیج پر ان کے آف اسکرپٹ جانے سے ان کو یاد کیسے رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments