”دل چارہ گر“ رکھنے والے کو دلی تہنیت پیش کرنے کی تقریب


اب کی بار پاکستان جانے میں مجھے چار سال لگ گئے۔ اس عرصے میں میرا ایک خواب مجھے پریشان کر رہا تھا۔ اس خواب کی ایک قسط تو پہلے ہی پوری ہو چکی تھی یعنی تین سال قبل کتاب ”دل چارہ گر“ کی اشاعت۔ اب اس کتاب کی تقریب کا جشن منانے جو دراصل ڈاکٹر شیر شاہ کی انسانی خدمات کے جشن کا خواب تھا ابھی ادھورا ہی تھا۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ کتاب شیر شاہ سید پہ تالیف کی گئی ہے، جو محض دوستی نبھانے کی غرض سے نہیں بلکہ ان کی ایسی خدمات کے اعتراف میں ہے کہ جو انہوں نے غریب اور مجبور عورتوں کی صحت کے سلسلے میں سالہا سال سے جاری رکھی ہوئی ہیں۔ ایک ایسا ملک جو ہر لحظہ ایمرجنسی کی بنیاد پہ چلتا محسوس ہوتا ہے کہ جانے اگلے لمحے کیا ہو جائے وہاں برسوں سے اتنی استقامت سے غریب اور مجبور عورتوں کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دینے والے کتنے لوگ ہیں؟ شاید ایسے ہی لوگوں نے ابھی بھی اس ملک کو لڑھکتا پھڑکتا سہی چلتا رکھا ہوا ہے۔ ورنہ اس دھرتی کو لوٹنے اور ملک کے سیاست دانوں اور وڈیروں کے ہاتھوں سالہا سال سے دھرتی کے گینگ ریپ میں کس کو شک ہے؟

ہمارا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو خود کچھ کام نہ کر کے دوستوں کی کامیابی کا جشن برپا کرنے میں ہی مطمئن اور خوش رہتے ہیں۔ لہٰذا اب ہمارے خواب کے دوسرے حصے کی تکمیل کا وقت آنا ہی چاہتا تھا۔ یعنی اپنی تالیف کردہ کتاب ”دل چارہ گر“ کی تقریب کے بہانے اپنے عزیز دوست ڈاکٹر شیرشاہ کے انتھک سماجی اور فلاحی کاموں کا جشن۔ ہمارے ملک کے باشعور شہری ان کے بے تھکان کاموں سے واقف ہیں جو وہ سالہا سال سے صحت بالخصوص غریب اور مجبور عورتوں کے حوالے سے مسلسل کر رہے ہیں۔

گاؤں دیہاتوں میں اپنی ٹیم کے ساتھ فیسٹولا کیمپ لگانا اور مفت سرجری کرنا اور ان عورتوں کو وقار سے جینے کا حوصلہ دینا جن کی زندگی جانوروں سے بد تر تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غربت اور کم عمری کی شادیوں کے سبب ان عورتوں کو بچے کی پیدائش کے وقت فیسٹولا کا مرض ہوجاتا ہے جس میں ان کا مسلسل پیشاب اور اکثر فضلا نکلتا ہی رہتا ہے۔ یہ بدبو میں بسی پر تحقیر مرض میں مبتلا غریب عورتوں کا روگ ہے لہٰذا مفت علاج کون کرے؟

شیرشاہ نے اپنی ٹیم کے ساتھ عورتوں کا بالکل مفت علاج کے علاوہ ایک مفت ہسپتال ”کوہی گوٹھ ہسپتال“ بھی کھولا ہے جو بین الاقوامی معیار کا ہے۔ ( راقم اس کے معیار کی عینی شاہد ہے۔ ) اس ہسپتال میں مڈوائفری کا دو سالہ پروگرام بھی سن 2005 ء سے جاری ہے۔ جس کا تعلیمی معیار بہت اعلی سطح کاہے اور یہاں سے سند لینے والی مڈ وائفز کو فوری ملازمت مل جاتی ہے۔

شیرشاہ کا ایک مرد ہوتے ہوئے عورتوں کے درد کو محسوس کرنا ایک ہی بات کا پیغام دیتا ہے کہ کسی بھی معاشرے میں مسئلہ ٔ عورت اور مرد کے بجائے پاور اور کنٹرول کے بہیمانہ کھیل کا ہے۔ ہمارا زمینداری اور قبائلی نظام جس کا کبھی خاتمہ ہی نہیں ہوا اس نے آقا اور غلام کے فرق کو ابتدا سے آج تک جاری رکھا ہے۔ اور میں سوچتی ہوں کہ کیا واقعی ہم آزاد قوم ہیں؟

میرے پاکستان کے طوفانی دورے میں بالآخر اس اہم دن کا اہتمام نو مارچ کو ہونا قرار پایا کہ جو عفت نوید اور ڈاکٹر سجاد کے علاوہ بھی کچھ اور دوستوں مثلاً ڈاکٹر سدرہ اور ڈاکٹر زہرہ سومجی کے بغیر ہرگز ممکن نہیں تھا۔ شیر شاہ کا مصروف شیڈول پہلے ہی ان سے پوچھ لیا گیا تھا ان کو اس سازش سے لاعلم رکھتے ہوئے کہ ہم ان کی خدمات کا اعتراف اس کتاب کی تقریب کے بہانے کرنا چاہتے ہیں۔ ورنہ ان کا ایک جملہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ ”ہم کون سے پھنے خان ہیں؟ ہم نے کیا کر لیا؟“

وہ تعریفی کلمات سننے سے اجتناب برتتے ہیں۔ ہمیشہ ٹال دیتے ہیں۔ اس پر مجھے وہ ڈاکٹرز یاد آتے ہیں جو تقریباً روزانہ کی بنیاد پہ فیس بک پہ اپنے معمولی سے کام کا بھی اعلان کرتے ہیں۔ تصاویر چھپواتے ہیں۔ بطور تھیرپسٹ میں محسوس کرتی ہوں کہ شاید ان کا گہرا مسئلہ اپنی کم وقعتی کا لاشعوری احساس ہے۔ اس کے برعکس شیر شاہ خاموشی سے اپنا کام کرنے کے قائل ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے اعتماد کے لیے دوسروں کی تعریف کی محتاج نہیں۔

بالآخر کراچی آرٹس کونسل کی میڈیکل اور سوشل ویلفیر کمیٹی جس کے چیئرمین ڈاکٹر قیصر سجاد ہیں بہت ہی عمدہ طور پہ اس پروگرام کا اہتمام آرٹس کونسل میں نو مارچ بروز جمعرات کیا۔ کتاب کی رونمائی کے اس پروگرام میں شیر شاہ نے صرف ایک درخواست کی کہ مقررین کے لیے کرسیوں کا اسٹیج پہ اہتمام نہ ہو اس کے بجائے سب لوگ حاضرین کے ساتھ ہی بیٹھیں۔ ہماری تو خود یہ دلی خواہش تھی۔ جس کا اظہار ہم نے اس سے پہلے 26 فروری کو اپنی دو کتابوں ”خاک سے کیمیا ہوئے جو لوگ“ اور ”شعلہ تھا جل بجھا ہوں“ کی رونمائی والے دن کیا تھا مگر بدقسمتی سے یہ درخواست قبول نہ ہوئی تھی۔

دل چارہ گر کی رونمائی کے پروگرام کے آغاز سے ہی ایک کونے میں سب سے آخری رو میں ایک نشست پہ بیٹھے ڈاکٹر شیر شاہ سید کچھ حیرانی اور کچھ پریشانی کے عالم میں ان مقررین کو سن رہے تھے جنہوں نے ان کی شخصی خوبیوں کو افشاں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ وہ حیرانی سے کبھی ان اشعار کو سن رہے تھے جو ارم نقوی نے پنڈی سے لکھ کے بھیجے تھے تو کبھی امریکہ سے رضیہ فصیح احمد، ڈاکٹر نسیم شیخانی اور کینیڈا سے شاہدہ حسن کی ریکارڈنگ پہ پیغام تہنیت سن کر اس طرح خجل ہو رہے تھے۔

جیسے کوئی اپنے ناکردہ گناہوں کی تفصیل سنکر ہو۔ نیک دل لوگ اپنی تعریفوں کا سنکر اسی طرح خجل ہوتے ہیں۔ یہاں یہ بات دلچسپی سے خارج نہ ہوگی کہ جہاں شیرشاہ کو دنیا کے مختلف ممالک کی حکومتوں اور آرگنائزیشنز نے ان کے کا مکو سرہاتے ہوتے ہوئے ایوارڈز سے نوازا ہے وہاں حکومت پاکستان نے انہیں کسی قسم کے ایوارڈ کے لائق نہ سمجھا۔ بلکہ سزا کے طور پہ اکثر تبادلے اور ایک دفعہ تو نوکری سے بھی نکال دیا تھا۔ جو ان کے مریضوں کے احتجاج کی وجہ سے بحال کرنی پڑی۔ حکومتی سطح پہ اس ناقدری کی وجہ ان کی ہر اس حکومت پہ کڑی نکتہ چینی ہے جو صحت عامہ سے بے اعتنائی برتتی ہے۔ اور ہم تو جانتے ہی ہیں کہ سچ کی سزا کیا ہوتی ہے۔

گو پروگرام کے مقرر ین شیما کرمانی، کرن سنگھ، ضوفین ابراہیم، شہناز احد، ڈاکٹر ٹیپو اور ڈاکٹر شاہین ظفر ہی تھے مگر اور بہت سے لوگ بھی تھے کہ جو شیرشاہ کے بارے میں کچھ کہنا چاہتے تھے۔ مثلاً میر احمد نوید، ڈاکٹر نگہت شاہ، ڈاکٹر روبی عباسی، عرفان صاحب (جو پہلے دن سے کوہی گوٹھ کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پہ کام کر رہے ہیں۔ ) ان سب کو بھی وقار کے ساتھ اظہار خیال کے لیے مدعو کیا گیا۔ تمام افراد کی گفتگو اس آئینے کی مانند تھی جس میں ڈاکٹر شیر شاہ سید کی شخصیت کے کئی رنگ جھلک رہے تھے۔ ایک محنتی، شاندار، جرات مند اور بے غرض اور بے لوث جو ستائش اور خوشامد سے کوسوں دور رہنے والے انسان کے شخصی رنگ تھے۔

ڈھائی گھنٹوں پہ مبنی طویل پروگرام جو اگر محض ایک شخص کی خدمات کے حوالے سے ہو بہت بور بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن انسانوں کے لیے بے غرض کام کرنے والے کو کرپٹ حکومتوں کے تمغوں کی محتاجی نہیں ہوتی ان کی خدمات کے اعتراف کے لیے حساس اور دانشمند انسان کافی ہوتے ہیں۔ جن کے دل کی گہرائیوں سے نکلے الفاظ نے تقریباً پونے دو سو حاضرین کو مسلسل ڈھائی گھنٹے تک اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

بطور کمپیئر عفت نوید کی برجستگی کمال کی تھی اس کے علاوہ ڈاکٹر سجاد جو معالج ہونے کے ساتھ حساس ادیب بھی ہیں نے بہت عمدہ کمپیئرنگ کا فریضہ انجام دیا۔

بطور مصنفہ میں ستائش کے بیکراں سیلاب کے آگے شکریہ کے محض چند الفاظ ہی کہہ سکی۔ پروگرام کے آخری مقرر کوئی اور نہیں اپنے ہر دلعزیز ڈاکٹر شیر شاہ سید تھے۔ بناوٹ سے پاک سادہ الفاظ، سادہ لباس اور دل سے حاضرین کا شکریہ ادا کرتے اور اپنے کام کے متعلق دلچسپ مزاحیہ انداز میں گفتگو کرتے کہ جس کو بہت احترام اور دلچسپی سے سنا گیا۔ آخر میں انہوں نے اپنی جونئیر ڈاکٹرز اور کوہی گوٹھ کی مڈوائفری کی طالبات کے ساتھ 26 مارچ کو آنے والی سالگرہ کا پیشگی کیک کٹوایا۔

یہ مسیحا طلبی ڈھونڈ رہی ہے بیمار
درد رکھتے ہیں جو دل میں وہ دوا رکھتے ہیں
(میر احمد نوید)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments