منشیات: ریاستیں اور متعلقہ ادارے خود بینیفشری ہیں


اپنے ارد گرد نظر ڈالئے، آپ کو بیسیوں نہیں بلکہ سینکڑوں نشئی ملیں گے۔ جو چرس، افیون، بھنگ، ہیروئن، کرسٹل، آئس کی وجہ سے انتہائی خستہ حال، میلے کچیلے، بدبودار، لاغر، زخمی اور بیمار ہونگے۔

آئے روز مرتے بھی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق نشئیوں کی نوجوانی میں اور غیر طبعی اموات کی سالانہ شرح 60 لاکھ ہے۔ دکھ، پریشانی اور ملال بھی یقیناً ہو گا۔

اب ذرا ان نشئیوں کے پیچھے ان کی فیملیز کی طرف جھانکیے تو وہ شدید سٹریس، ٹینشن، فرسٹریشن اور بدحالی کا شکار نظر آئیں گے۔ کیونکہ ان نشئیوں کا پہلے مالی، اخلاقی، ذہنی اور جسمانی نقصانات کا شکار ان کے خاندان کے لوگ ہی بنتے ہیں۔ پورے کے پورے خاندان بدحالی اور کسمپرسی کا شکار دیکھے جا سکتے ہیں۔

الغرض منشیات ایک طویل عرصے سے انسانی معاشرے کو ہر لحاظ سے شدید نقصان پہنچا رہی ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق دنیا کی کل ساڑھے سات ارب آبادی میں سے 35 کروڑ سے زائد افراد کسی نہ کسی نشے کے عادی ہیں جو کل آبادی کا تقریباً 4.6 فیصد ہیں۔ ان میں 12 سے 50 سال کی عمر کے افراد کی ریشو بہت زیادہ ہے۔

پاکستان میں ایک کروڑ افراد کسی نہ کسی قسم کا مہلک نشہ کرتے ہیں جن میں سے 60 لاکھ افراد باقاعدہ نشئی ہیں۔ اب ان میں ہیروئن، کوکین، آئس اور کرسٹل پینے والوں کی تعداد 16 لاکھ سے متجاوز ہے اور سروے کرنے والے مختلف ملکی و غیر ملکی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں نشہ کرنے والے افراد کی تعداد میں 6 لاکھ سالانہ اضافہ ہو رہا ہے۔

خدشہ ہے کہ آئندہ دس سالوں میں پاکستان میں ہیروئن، آئس، کرسٹل میتھ سمیت دیگر مہلک نشہ کرنے والے افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ 240 ٹن مختلف اقسام کی منشیات استعمال ہوتی ہیں۔

ایک اور تجزیے کے مطابق پاکستان دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والا چوتھا بڑا ملک ہے اور اس کی وجہ ہمہ قسم منشیات تک آسان ترین رسائی ہے اور اس آسان رسائی کی اسباب و وجوہات میں سب سے پہلی اور اہم وجہ ہمسایہ ملک افغانستان ہے۔

منشیات کی کاشت اور پراسیسنگ میں دنیا بھر میں تین ممالک منشیات کی منڈی میں کھپت کا 96 فیصد حصہ ڈالتے ہیں جس میں افغانستان 59 فیصد پیداوار کے ساتھ پہلے نمبر پر براجمان ہے۔ دوسرے نمبر پر 21 فیصد کے ساتھ میانمار اور تیسرے نمبر پر 16 فیصد پیداوار کے ساتھ میکسیکو ہے۔

ان ممالک کی پروڈکٹس میں ہیروئن پہلے نمبر پر ہے۔ خود افغانستان کی چار کروڑ آبادی میں سے 30 لاکھ افراد نشے کے عادی ہیں۔ 90 فیصد افیون افغانستان میں پیدا ہوتی ہے۔ افغانستان سے سمگل ہونے والی منشیات کا 60 فیصد پاکستان کے رستے باہر جاتی ہیں۔

کم و بیش 1700 ٹن منشیات افغانستان سے لا کر بین الاقوامی منڈیوں میں بیچی جاتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستانی سمگلرز منشیات کی اس تجارت سے 4 ارب ڈالر کماتے ہیں۔ اسی طرح افغانستان سے پاکستان اور پھر پاکستان سے ایران کے راستے یہ منشیات افریقی عرب ممالک، ترکی، آذربائیجان اور آرمینیا کے راستے یورپ، ترکمانستان کے راستے روسی آزاد شدہ وسط ایشیائی ریاستوں ازبکستان، قازقستان وغیرہ تک پہنچتی ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں سب سے زیادہ ہیروئن افغانستان، پاکستان اور ایران کے راستوں پر ہی پکڑی گئی جہاں سے یہ آدھی سے زائد دنیا میں سپلائی ہوتی ہے اور یہی وہ مین سپلائی روٹ ہے جہاں سے یورپ کی طرف غیرقانونی انسانی سمگلنگ بھی ہوتی ہے جو ایک اور بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس پر انشاء اللہ جلد ایک علیحدہ مضمون لکھوں گا۔ پاکستان سے سمندری راستوں سے بھی منشیات کی سمگلنگ ہوتی ہے۔

دنیا بھر میں سالانہ تقریباً 26000 ٹن مختلف اقسام کی منشیات کی سمگلنگ ہوتی ہے اور اس کی سالانہ تجارت کا حجم 1400 ارب ڈالر سے متجاوز ہے۔ رقم کے لین دین کے لئے حوالہ، ہنڈی اور اب بٹ کوائن اور دیگر ڈیجیٹل کرنسی کا استعمال بھی ہو رہا ہے۔

یوں سمجھ لیجیے کہ بلیک مارکیٹ کا یہ کاروبار روز افزوں ترقی میں ہے۔ اب انٹرنیٹ اور ڈارک ویب پر اس کے بڑے اور بین الاقوامی سطح کے سودے ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے گینگز، مافیاز، شدت پسند مذہبی، آزادی پسند، باغی عسکریت پسند گروہ اور انسانی سمگلرز اس موت کے دھندے میں ملوث ہیں۔ انسانی سمگلرز تارکین وطن کے ہاتھوں منشیات بھی سمگل کرواتے ہیں اور انہیں بطور کیریئر استعمال کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ منشیات اور اسلحے کی تجارت کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اسلحے کے بدلے منشیات اور منشیات کے بدلے اسلحے کے سودے اس دھندے کا ایک انتہائی اہم پہلو ہے۔

افغانستان میں مذہبی عسکری گروہ اپنی منشیات کے بدلے اسلحہ خریدتے رہے ہیں۔ اسی طرح میکسیکو کے بدنام زمانہ گینگز بھی منشیات کے بدلے اسلحے کے سودے کرتے ہیں اور یہ سودے دنیا بھر میں ہوتے رہتے ہیں۔ پاکستان اور ایران ”افغانی منشیات“ کی مین راہداری ہیں اور خود بھی منشیات کی ہلاکت خیزیوں کا شکار ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا کی مختلف خفیہ ایجنسیاں بھی اپنے مفادات، دوسرے ملکوں میں پراکسی وارز کے لئے عسکری گروہوں کی مالی امداد کے لئے منشیات کے اس دھندے میں وقتاً فوقتاً ملوث رہتی ہیں اور یہ بات مشاہدات میں ہے کہ منشیات کی تجارت سے حاصل کردہ رقم اسلحے کی خرید، پراکسی جنگوں، بغاوتوں اور عسکریت پسندی کو بڑھانے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔

وطن عزیز پاکستان میں ہمیں بارہا، پٹرول، آٹا، چینی، گھی کی شارٹیج سے آئے روز واسطہ پڑتا رہتا ہے مگر یقین کیجئے ذاتی طور پر میرے 100 مختلف علاقوں کے نشئیوں سے کیے گئے سروے کے مطابق مارکیٹ سے آج تک کبھی بھی چرس، افیون اور ہیروئن کی شارٹیج نہیں ہوئی اور آج تک انہیں اپنا مطلوبہ نشہ بلیک میں یا رائج قیمت سے مہنگا نہیں ملا۔

پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں بھی چرس کی تیاری اور آزاد منڈیاں قائم ہیں اور ریاستی ادارے ناکام ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے تمام بارڈرز پر فوج، ایف آئی اے، رینجرز، لیویز فورس، کسٹمز، تعینات ہیں، سمندروں میں نیوی، کوسٹ گارڈز، میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی ہمہ وقت موجود ہے۔ اندرونی طور پر اینٹی نارکوٹکس فورس، محکمہ ایکسائز، موٹر وے پولیس، ایلیٹ فورس، ڈولفن سکواڈ، مجاہد فورس، جانباز فورس، محکمہ پولیس، ائر پورٹ سیکیورٹی فورس، سپیشل برانچ، ٹریفک وارڈن، پٹرولنگ پولیس سمیت دیگر بیسیوں ایجنسیاں موجود ہیں۔ ان کی کریڈیبلٹی کیا ہے کہ ان کی موجودگی میں منشیات سمگلنگ کے عالمی روٹس میں پاکستان کی نمایاں ترین پوزیشن ہے اور اندرون ملک بھی منشیات کی ترسیل میں تعطل تک پیدا نہیں کر سکتیں۔

کبھی کسی بڑی کارروائی کی خبر آتی بھی ہے تو ڈرائیورز اور کیریئر کو پکڑا جاتا ہے جبکہ میں ڈیلرز اور مافیاز پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا۔ ہر گلی محلے میں بلا خوف و خطر ہمہ قسم منشیات بہ آسانی دستیاب ہیں۔

پاکستان میں 70 لاکھ باقاعدہ نشئی شاید ریاست کے لئے کیڑے مکوڑے ہیں مگر ان سے براہ راست وابستہ و متاثرہ 70 لاکھ خاندان کہ جن کی افرادی تعداد کم از کم ساڑھے تین کروڑ بنتی ہے وہ ان کی وجہ سے شدید معاشی غربت، اجتماعی ذہنی و جسمانی کرب و اذیت کا شکار ہیں جس کی وجہ سے سماجی ماحول زہر آلود ہو چکا ہے۔ نت نئے جرائم پنپ رہے ہیں۔

اس ساری تحقیق کا ماحصل یہ ہے کہ پولیس کو منشیات فروشوں کے ہر ہر اڈے کا پتہ ہے اور یہ وہاں سے باقاعدہ بھاری ماہانہ رقم لیتے ہیں جس کا حصہ بظاہر اوپر تک جاتا ہے۔

شنید ہے دنیا بھر میں پکڑی گئی 10 فیصد منشیات تلف کی جاتی ہے اور 90 فیصد واپس مارکیٹ میں بیچ دی جاتی ہے۔ پاکستان کی منشیات کی مارکیٹ سالانہ تقریباً چار ارب ڈالرز کماتی ہے اور اس کا 75 فیصد حصہ بڑے سمگلرز جبکہ دیگر 25 فیصد منشیات کے تیار کنندگان، ہینڈلرز، کیریئرز، ڈیلرز اور سب ڈیلرز کو ملتا ہے۔

میرے مطابق تو موت کا یہ بزنس بند ہو ہی نہیں سکتا۔ شبہ ہے کہ اس میں ریاستیں اور ریاستی ادارے خود ملوث ہیں۔

ایک نشئی کو تو منشیات فروش کی بابت بھرپور معلومات ہیں اور روزانہ سینکڑوں نشئی اس سے نشہ حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والی فورسز کو اپنے ارد گرد بیسیوں، سینکڑوں، ہزاروں منشیات فروش نظر نہیں آتے۔

ان کے لئے ایک رازدارانہ، اہم اور بہترین مشورہ ہے کہ کسی بھی نشئی سے پوچھ لیں کم از کم دس منشیات فروشوں کے ٹھکانے تو وہ بھی جانتا ہے۔  میں نے خود نشئیوں سے پوچھے ہیں اور انہوں نے بیسیوں منشیات فروشوں کی نشاندہی کی بھی ہے۔

عامتہ الناس کے لئے واحد حل اور مشورہ یہ کہ اپنی اور اپنے بچوں کی حفاظت خود کیجئیے۔ انہیں منشیات سے بچاؤ کا شعور دیجئے کیونکہ سرمایہ دار سامراجی ریاستیں بھوکی نہ بھی ہوں تب بھی اپنی عیاشی کے لئے اپنے بچے چیر کر کھا جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments