حضرت آدم کے نام ایک خط “


جناب آدم! یقین ہے آپ کو اپنی کھوئی ہوئی جنت مل گئی ہو گی۔ آپ جنت کی سوغاتوں سے لطف اندوز ہونے کے بعد محترمہ حوا جی کے ساتھ جب جنت کے باغات میں ٹہلتے ہوں گے تو اس شجر کو دیکھ کر مسکرا دیتے ہوں گے ۔ اب ”ربنا ظلمنا“ کی وہ دعا مانگنے کی آپ کو ضرورت نہ ہو گی کہ وہ قبول ہو گئی تھی۔ پر ہر کوئی آپ کی طرح خوش بخت نہیں ہوتا کہ اس کی استدعا قبولیت پائے۔ ہم آپ کی اولاد تو ہر گز آپ سے خوش نصیب نہیں۔

عالی مقام! میں تو ویسے بھی عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا جہاں باقی ماندہ سفر آگے چلتے ہوئے پیچھے پیچھے دیکھ کر طے ہوتا ہے اور ویسے بھی خدا کی کتاب ماضی کے آئینے میں حال کا عکس دکھاتی ہے۔ دکھاتی ہی رہے گی۔ اس کتاب میں انسانوں کو ان کی بنیاد سمجھانے کے لیے جو خدا نے آپ کا قصہ اولیں ہمیں سنایا وہ انسانیت کی سرشت سے جڑا ہے۔

دو تصویریں دیکھیں! دیکھی نہیں گئیں۔ کیا کروں ہر سفید بال ان کالے بالوں کی یاد دلاتے ہیں جو میری حیات کی راہوں کا آٹا خود میں سمیٹ کر سفید ہوئے۔ مگر ان تصویروں نے آج تخیل کے سفر کو وہاں روکا نہیں اڑنے دیا۔ جانے دیا۔ جاتے جاتے میں اپنی سرشت تلک پہنچ گیا۔ آپ تلک پہنچ گیا۔ وہ جنت کا منظر، وہ شجر ممنوعہ وہ ایک دانہ وہ جنت سے زمین پر آپ کا سفر۔

تصویروں میں وہی زمین ہے۔ اور ان کے ساتھ وہی دانے۔ وہی دانے پیس کر ایک بوری میں بند کر دیے گئے۔ اسے آٹا کہتے ہیں۔ یہ آٹا انسانی حیات کے نظام شمسی کا محور ہے۔ ہم اپنے اپنے مدار میں اس کے گرد گھومنے والے بے وقعت سیارے۔

بڑے صاحب! اب تک کی حیات نے جو منظر نامہ آنکھوں سے بھالا اس کے مطابق آپ آدم بڑے تھے امتحان چھوٹا تھا ہم آدم زاد بہت حقیر بہت چھوٹے ہیں امتحان بہت بڑا ہے۔ عرض کرتا ہوں کیسے؟

آپ کے لیے جو شجر ممنوعہ تھا وہ ہمارے لیے شجر مفتوحہ ہے۔ آپ کو دانہ کھانے پر ممانعت تھی۔ ہمارے لیے وہ دانہ مجبوری ہے کہ ہمارا رزق ہے۔ آپ کے لیے خدا ایک تھا۔ آپ نے اسے راضی کرنا تھا سو کر لیا۔ ہمارے ہاں اس شجر اور اس کے دانوں پر مٹی کے خدا قابض ہیں۔ جو ہمارے سفید سروں کو لائنوں میں سارا سارا دن کھڑا کر کے ان کی آدمیت کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ہم انہیں رب بنا کر سارا سارا دن ان کے سامنے ”ربنا ظلمنا“ کا ورد کرتے ہیں مگر ہماری معافی نہیں ہوتی کہ ہمارا جرم ضعیفی ہے جس کی سزا مرگ مفاجات ہے۔

آپ سے شروع ہونے والے خدا کے دین کے ہم پیروکار اس کے نام پر بننے والے ملک میں آٹے کے خداؤں کے بندے ہیں۔ انہی کی بندگی کرتے ہیں۔ جن کا بنایا ہوا نظام ہمارے کھلیانوں میں ہمارے ہاتھوں سے بویا ہوا اناج ہم سے چھین کر پھر ہمارے خون پسینے کے عوض ہمیں ریزہ ریزہ لوٹاتا ہے۔ اس آٹے کی خدائی میں ہم بھوکے گندم کی پوجا کرتے ہیں۔

قطاروں میں کھڑے ہم آدمی یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کاش جناب آدم کی طرح ہمارا بھی ایک خدا ہوتا۔ اپنے جیسے مٹی کے خداؤں کی بندگی تو نہ کرتے۔ کم ازکم آٹے جیسے سفید سر کے ساتھ۔

اس دھرتی پر ملا صاحب ہر وقت چیخ چیخ کر اس خدا کو رازق و رزاق کہتے ہیں۔ وہی خدا جو آپ کا خدا ہے کہ جس نے آپ کو زمیں پر بھیجا، ہمیں دیکھیے کہ ہمیں زندگی بھر یہ جس آٹے کے لیے زمیں کے خدا سسکاتے ہیں اسی آٹے کے پیچھے ترستے ہمیں واپس آسمان پر بھیج دیا جاتا ہے۔ ہماری معبود آٹے کی یہ بوریاں ہماری لاشوں کے ساتھ پڑی رہ جاتی ہیں۔ اس تصویر میں آج کے آدم اور حوا ہیں۔ جن کا امتحان کل کے آدم و حوا سے بڑا ہے آدم جی۔ آپ پر سلامتی ہو۔

آپ کی اولاد۔ ایک آدم زاد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments