کونج کی کہانی کونج کی زبانی


مارچ شروع ہوتے ہی میں اپنی ہجرت کی سفر پر گامزن ہوتا ہوں تو وہیں میرے خلاف شکاریوں کی مارچ بھی شروع ہوجاتی ہے، میری نسل کشی کے لیے تیاریاں پکڑ لی جاتی ہیں قبیلوں کے قبیلے شہروں کی طرف کارتوس شاٹ گن لینے کی طرف چڑھ دوڑتے ہیں، فیکٹریوں کی طرف سے پہلی ہی کثیر مقدار میں مال اور کارتوس تیار ہوا ہوتا ہے، ہوبہو مجھ جیسے بے جان پرندے تیار کرلئے جاتے ہیں اور میری ہم سفروں جیسے آواز کی نکل بھی تیار کرلی جاتی ہے اپنی بائک اور جیپ گاڑی کو ریگستانی علاقوں کے معیار کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے اور پھر ہر کوئی اپنے اپنے قسم کے جال تیار کر کے میری آمد کی بے بسی سے انتظار میں ہوتا ہے۔

میں معصوم فقیر صفت اور مہمان پرندہ اپنے ٹولے کے ساتھ اپنے ہجرت کے سفر پر گامزن ہوتا ہوں طویل مسافت کی تھکاوٹ سے رات کے پہر اپنے نسل جیسی آواز اپنی کان میں پڑنے پر اسے اپنا سمجھ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا ہوں تو کارتوس کے چھروں سے بھنا جاتا ہوں، پیاس لگنے پر جب کسی دور و بیابان علاقے میں موجود پانی کو دیکھ کر اس کی طرف پیاس بجھانے کی آس لئے جب میں بیٹھنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہاں موت پہلے ہی میری منتظر ہوتی ہے، میں زخمی ہو کر ریگستانی علاقوں میں سسکتا اور تڑپتا رہتا ہوں اور کسی مدد سے بے امید ہو کر مر جاتا ہوں، کبھی کبھار اپنی ہمسفر ساتھی کی کھونے کی غم اور تلاش میں ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہوں، آہ و زاریاں کر رہا ہوتا ہوں، کبھی میں جال میں پھنس جاتا ہوں خریدوفروخت کا حصہ بن جاتا ہوں اور پھر ایسے گھر میں پھینک دیا جاتا ہوں جو میری نہیں ہوتی، میری گھر اوپر اڑتی فضاؤں میں ہے، میری موج کٹے ہوئے پروں میں نہیں بلکہ اپنے پر گھمانے میں ہے

ماضی میں اسی سرزمین پہ میری آمد پر مجھے یہاں کے باسیوں نے خاص کر بلوچی شاعروں نے اپنی خوبصورت شعر سے ہمیشہ خوش آمدید کہا میری میٹھی بولی کی تعریف میں قصیدے لکھے اور ہجرت کی سفر کے لئے نیک تمنائیں دیں کسی نے مجھے محبت وفا اور بہترین ساتھی کی علامت قرار دیا کسی نے معصوم اور فقیر پرندے کا لقب دیا تو کسی نے میری میٹھی بولی کو اپنی شاعری کا زینت بنا لیا لیکن اب کے میزبانوں نے میری مہمان نوازی میری پیاری اور میٹھی بولی والی نسل کو ہر سال لاکھوں کروڑوں کے تعداد میں صرف شوق پورا کرنے کی مد میں مار کے کی، ہر کسی نے مجھے مار کر ایک سیلفی بنا کر فیسبک پر اپلوڈ کر کے خود پر شکاری کا لقب لگانے تک مجھے محدود کر دیا ہے ہر کسی نے ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ کونج مارنے کی ریکارڈ قائم کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔

میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں اور مانتا ہوں کہ میں مجبوری کی صورت میں شکار کے لئے حلال ہوں پر کیا آپ مجبور ہیں؟ کیا آپ پر آفت آن پڑی ہے؟ قحط ٹوٹ پڑا ہے؟ کیا آپ بھوک سے مر رہے ہیں کہ مجھ مہمان کو ہی مار رہے؟ کیا آپ کے پاس وسائل نہیں ہیں؟ آپ کے پاس کارتوس بائیک شاٹ گن کے پیسے ہیں شہر جاکر گوشت خریدنے کے پیسے نہیں؟ میری گوشت میں تو وہ لذت بھی نہیں، سیدھا سادا کیوں نہیں کہتے میری پیاری نسل کو مارنے تمہیں میں مزہ آتا ہے

اے پیارے انسانو مجھے بخش دو اور میری نسل کو بچا لو کہ میری پیاری نسل کو اپنی شوق کی نظر نہ کرو، میں اس رویے سے معدومیت کے خطرے سے دوچار ہونے جا رہا ہوں اپنی میٹھی بولی اپنی فقیرانہ چال کو لے کر کہیں گم سم ہونے جا رہا ہوں اور پھر تمہاری آنے والی نسل مجھے مارچ کے مہینے میں آسمان کے فضاؤں میں نہیں دیکھ پائے گی، میری میٹھی آواز سے محروم ہو جائے گی، میری قطاروں کو دیکھنے کو ترسے گی اور پھر میری دیدار کی طلب اور یاد میں شاعری ہوگی دوہے بیان ہوں گے پر تب تک میں اپنی وجود کے ساتھ نایاب اور ناپید ہو چکا ہوں گا
”میں ہوں کونج اور یہ رہی میری ہجرت کے سفر کی ادھوری کہانی ”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments