’یہ ہمارا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہم خوشگوار موڈ میں ان کے ساتھ آخری تصویر لیں تا کہ انھیں اچھی طرح الوداع کہہ سکیں۔‘


’جب مردہ خانے سے جسد خاکی کو اس شخص کے گھر لے جانا شروع کیا جاتا ہے، ہم اسی لمحے سے تصاویر کھینچنا شروع کر دیتے ہیں۔‘

بٹو، جو بس اسی نام سے پہچانے جاتے ہیں، انڈیا کی جنوبی ریاست کیرلا میں تقریباً 20 سال سے اپنا فوٹو سٹوڈیو چلا رہے ہیں۔

ان کے کام میں بپتسمہ کی رسم، منگنی، شادیاں اور یہاں تک کہ ایک شخص کی آخری رسومات سبھی کے نمایاں لمحات کو محفوظ کرنا شامل ہے۔ رواں ہفتے انھوں نے شہر کوٹایم میں مسیحی برادری کے کم از کم تین جنازوں کی تصاویر کھینچی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’اصل کام جنازے سے تین گھنٹے قبل شروع ہوتا ہے جب ہم میت کے ساتھ خاندان کے قریبی افراد، رشتہ داروں اور دوستوں کی تصاویر لیتے ہیں۔‘

ان کی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سوگواران غم نے نڈھال تابوت کے ساتھ کھڑے ہیں۔

فیملی، دوست و احبات تابوت کے پاس جمع ہوتے ہیں اور مرنے والوں کے ساتھ آخری تصویر لیتے ہیں۔ ان مناظر میں کچھ لوگ روتے ہیں جبکہ بعض میت کے احترام میں خاموش رہتے ہیں۔

بٹو ان لمحات کی ایک فوٹو البم بنا کر سوگوار خاندان کے حوالے کر دیتے ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ کیرالا کی 18 فیصد مسیحی آبادی، تین کروڑ تیس لاکھ لوگوں، کی خاص روایت ہے جو اور کہیں نہیں پائی جاتی۔

فادر میتھیو کہتے ہیں کہ ’مسیحیوں کے لیے موت پوری طرح افسردگی کا باعث نہیں۔‘

کیرلا کے ایک گرجا گھر کے پادری میتھیو کلوکن کہتے ہیں کہ ’مذہب کے مطابق موت کا مطلب جنت کی طرف سفر کا آغاز ہے اور یہ ایک شخص کی ہمیشہ جاری رہنے والی زندگی ہوگی۔‘

گذشتہ سال پتانم تیٹا شہر کی ایک تصویر انٹرنیٹ پر وائرل ہوئی جس میں ایک مسیحی خاندان گھر کے ایک فرد کی موت پر میت کے ساتھ مسکرا رہا تھا اور یوں اس بحث نے زور پکڑا کہ کیا یہ رویہ صحیح ہے۔

ریاست کے وزیر صحت وی سیونکٹی اس خاندان کے دفاع میں آئے اور بولے ’کوئی ایسا شخص جس نے پوری زندگی خوشی سے گزاری ہو اسے خوش ہو کر ہی الوداع کہا جاتا ہے۔‘

https://twitter.com/JKAmbika/status/1561647468382547968

ایرناکولم شہر میں ایونٹ مینجمنٹ کمپنی کے مینجنگ ڈائریکٹر راجو کہتے ہیں کہ کسی جنازے پر ویڈیو یا تصاویر بنانے کو کسی بھی تقریب میں یہ سب کرنے جیسا سمجھا جاتا ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ ہندو اور مسلم برادریاں بہت کم یہ سروس حاصل کرتی ہیں۔

’مسیحی برادری کے جنازے ایک الوداعی تقریب جیسے ہوتے ہیں جس میں گھر میں عبادت، گرجا گھر میں جلو اور قبرستان میں بھی رسومات ادا کی جاتی ہیں۔‘

’اس میں کوئی بھی آ سکتا ہے مگر ہندو اور مسلم تقاریب میں ایسا ضروری نہیں۔‘

فادر میتھیو کہتے ہیں کہ مسیحیوں کے جنازوں پر فوٹوگرافی کب شروع ہوئی، یہ کہنا مشکل ہے۔ ’آغاز میں فوٹوگرافی مہنگی ہوا کرتی تھی اور آج کی طرح سب کی اس تک رسائی نہیں تھی۔ تاہم جب یہ عام آدمی کی زندگی کا حصہ بنی تو یہ اس کی روایات میں بھی رچ بس گئی۔‘

بٹو کے مطابق ایک جنازے پر فوٹوگرافی میں پانچ سے بارہ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ ’کبھی کبھار ہم جنازے سے ایک رات قبل کام شروع کر دیتے ہیں۔ جب برادری کا کوئی مشہور شخص وفات پا جائے، جیسے بشپ یا فلم سٹار، تو ہم وی آئی پی افراد کی آمد کی بھی تصاویر بناتے ہیں۔‘

بٹو کہتے ہیں کہ کام کی شروعات میں ان کی تصاویر بہت سنجیدہ ہوا کرتی تھیں جس میں میت کی قریب سے تصاویر اور تابوت کے ساتھ کھڑے عزیز و احبات دکھائے دیتے تھے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ شادیوں کی فوٹوگرافی کی طرح جنازوں کی فوٹوگرافی بھی ارتقائی عمل سے گزری ہے۔ ’شادیوں میں غیر رسمی تصاویر کا ٹرینڈ ہے تاکہ جذبات کو ان کی اصل شکل میں محفوظ کر لیا جائے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ جنازوں کے دوران ’ایک رشتہ دار پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور اسے کوئی دوسرا شخص تسلی دے، ہم اب ایسے لمحات ڈھونڈ کر محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

البم بننے کے بعد ان تصاویر کو واٹس ایپ گروپوں اور سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے تاکہ یہ ریکارڈ رہے کہ تقریب میں کون کون آیا اور اس میں کیا نمایاں لمحات تھے۔

بٹو کے مطابق کچھ لوگ یہ تصاویر یادداشت کے لیے اپنے پاس رکھتے ہیں مگر ان کے ایسے کلائنٹ بھی رہے ہیں جن کی توجہ اپنی تقریب کی چمک دمک اور مہنگے ایونٹ مینیجر پر ہوتی ہے۔ راجو کی کمپنی نے سات سال قبل جنازوں کے لیے ’یہ آپ کا دن ہے‘ کے نام سے خصوصی پیکج دینا شروع کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب ریاست میں مہنگے اور وسیع انتظامات والے جنازوں کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے۔

اس میں چلتے پھرتے مردہ خانے، تابوت، پھولوں کی سجاوٹ، لائیو سٹریمنگ سروس، کھانے کی کیٹرنگ، ایمنولنس، گھر کے باہر کینوپی اور فوٹوگرامی سبھی کا اکٹھا پیکج شامل ہوتا ہے۔

جنازوں کی فوٹوگرافی کروانے والے لوگ کہتے ہیں کہ وہ اکثر مڑ کر یہ تصویریں نہیں دیکھتے۔ تاہم ان میں کئی لمحات ان کے لیے اہم ہوتے ہیں۔

وائرل ہونے والی فیملی نے کہا تھا کہ اپنی تصویر پر تنقید سے انھیں فرق نہیں پڑا۔ انھوں نے مسکراتے چہروں کے ساتھ اس لیے تصویر بنوائی کیونکہ ’ہمیں ان پر فخر تھا۔‘

خاندان کے ایک فرد نے بعد میں کہا تھا کہ ’یہ ہمارا مشترکہ فیصلہ تھا کہ ہم خوشگوار موڈ میں ان کے ساتھ آخری تصویر لیں تا کہ انھیں اچھی طرح الوداع کہہ سکیں۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32501 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments