پشتون کی پروفائلنگ


تاریخی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ انگریز پشتونوں کو (جو اپنے جغرافیہ کا شکار تھے ) کو اپنے مضموم مقاصد کے حصول کے لئے ایک وحشی قوم کے طور پر پیش کرتے تھے۔ المیہ یہ ہے کہ انگریزوں کو رخصت ہوئے 75 سال ہوچکے ہیں لیکن آج بھی ان کے ذہنی وارث ان کے اسی سوچ کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

باوجود اس کے، کہ زمینی حقائق بدل چکے ہیں اور حالات وہ نہیں رہے جو ایک صدی پہلے تھے۔ سوشل میڈیا کا وقوع پذیر ہونا، بحیثیت قوم پشتونوں میں شعور کی بیداری، اور مختلف نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے غیر پشتون دانشوروں کا پشتون قوم کی منفی پروفائلنگ کے خلاف لکھنا وہ عوامل ہیں جو کہ اس منفی پروپیگنڈے کی راہ روکنے میں ایک مضبوط پل کا کردار ادا کر رہی ہے۔

زمان پارک کے واقعہ کی بے وقوفی اور حماقت جہاں پی ٹی آئی کے کارکنان کو بحیثیت پشتون دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے (جبکہ اس بارے میں کوئی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ زمان پارک میں کتنے پشتون تھے اور کتنی دوسری نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور پولیس پر حملوں میں کون کون ملوث تھے ) دوسری جانب سوشل میڈیا ان لوگوں خاص کر تحریک انصاف کے غیر پشتون رہنماؤں کے ٹویٹ سے بھرا پڑا ہے جو لوگوں کے جذبات بھڑکانے اور حالات کو خرابی اور بے یقینی کی طرف لے جانے میں برابر کے شریک تھے اور سب سے اہم۔ پی ٹی آئی کے رہنما، جو پنجاب اور سندھ سے تعلق رکھتے تھے وہ حالات کو خونی انداز میں پیش کر رہے تھے۔

یہاں میں ذاتی طور پر نہ تو پشتون پی ٹی آئی ورکرز کا دفاع کر رہا ہوں اور نہ ہی دوسری نسلوں سے تعلق رکھنے والے ورکرز اور لیڈروں پر تنقید یا دفاع، بلکہ بات یہ ہے کہ یہاں سکے کا ایک رخ دکھایا جا رہا ہے۔

پشتونوں کو ایک وحشی اور دہشت گرد قوم کے طور پر پیش کرنے کی کہانی صدیوں پرانی ہے جب انگریزوں نے انہیں اپنے مفادات کے لیے اس طرح پیش کیا۔ دوسری طرف پاکستان میں انگریزوں کی پشتونوں کے حوالے سے اختیار کی گئی پالیسی اب بھی جاری ہے۔ 2014 میں سندھ اور پنجاب کی سرحدیں ان پشتون آئی ڈی پیز کے لیے بند کر دی گئی تھیں، جو سابقہ فاٹا اور سوات کے فوجی آپریشنز کی وجہ سے اپنے گھر بار چھوڑ گئے تھے۔ جو کہ پشتونوں کے خلاف نسل پرستانہ امتیاز کی بدترین قسم اور نام نہاد وفاقی جماعتوں کی طرف سے ایک غیر آئینی اقدام تھا۔ مزید، HRCP نے 2017 میں پنجاب حکومت کے اہلکاروں کی طرف سے پشتون پروفائلنگ کی مذمت کی جب پنجاب کے کچھ اضلاع میں پولیس کی طرف سے مقامی باشندوں کو پشتون یا سابق فاٹا سے تعلق رکھنے والے مشکوک لوگوں پر نظر رکھنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

ستم ظریفی یہ ہے ہے کہ جب کسی ریاست کے لیڈر ایسا معاندانہ اور تعصبی رویہ رکھتے ہو تو نسلی امتیاز اس معاشرے کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ جب موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تو 15 مارچ 2010 کو ڈان کی خبر تھی کہ شہباز شریف نے طالبان سے التجا کی کہ پنجاب پر حملوں سے اجتناب کریں اور یہ کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی پرویز مشرف کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے وقوع پذیر ہوئی ہے۔

دوسری طرف عمران خان جو اپنے پشتون کارکنوں کو ہمیشہ ڈھال کے طور پر استعمال کرتے اور پیش کرتے ہیں، جب وہ وزیر اعظم تھے تو انہوں نے مبالغہ آرائی سے کام لے کر پشتونوں کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کر کے کہا تھا کہ پشتون دنیا میں دوسری اقوام سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والی قوم ہیں۔ مزید براں زمان پارک کے واقعہ کے دوران مریم نواز شریف نے ٹویٹ کیا کہ خیبر پختونخوا سے دہشت گرد لاہور لائے گئے ہیں جو زمان پارک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔

پشتونوں کے خلاف تعصب اور منفی سوچ کچھ سنجیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے۔

1۔ تشدد اور دہشت گردی کی جڑوں کے ذمے دار کون ہیں؟ ہم جانتے ہیں کہ افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد نصاب اور دیگر پروپیگنڈوں کے ذریعے پشتون نوجوانوں کی غلط تربیت کی گئی۔ انہیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے سابق سوویت یونین کے خلاف ایک بہت بڑا اثاثہ سمجھا۔ سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد جو ہونا تھا وہ نہیں کیا گیا۔ پشتونوں کی de-radicalization جو ہونی چاہیے تھی، لیکن بظاہر ایسا نہیں ہوا جس کی حساسیت اب مزید بڑھ رہی ہے۔ عقل سلیم کہتی ہے کہ جو بھی اپنے ہاتھ میں بندوق لے اور جب کوئی ریاست اسے دہشت گرد قرار دے تو کسی بھی ملک کے قانون کو اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔

2۔ کیا زمان پارک میں صرف پشتون تھے؟ اس کا جواب ناں میں ہے۔ پھر پشتونوں میں موجود انفرادی تشدد پسندوں کو پوری قوم کے نمائندہ کے طور پر پیش کرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ وزیر آباد میں عمران خان پر حملہ کرنے والے حملہ آور (محمد نوید) کا تعلق کسی پشتون قبیلے سے نہیں تھا۔ فیض آباد میں پولیس کو مار کر زخمی کرنے والے ٹی ایل پی کے کارکنوں کا تعلق کسی ایک نسل سے نہیں تھا۔ کیا تمام سیاسی جماعتوں کے پاس ملٹری ونگز نہیں ہیں؟ کیا لاہور میں کچھ سال پہلے قانون کو ہاتھ میں لینے والے گلو بٹ کا تعلق پی ایم ایل این اور پنجاب سے نہیں تھا؟ کیا پنجابی طالبان کی تنظیم کے بہانے پنجابیوں کو وحشی اور دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے؟

3۔ پختون خود دہشت گردی کا شکار ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں عام شہریوں کے ساتھ سینکڑوں مقامی قبائلی رہنما مارے جا چکے ہیں۔ دہشت گردی اور طالبانائزیشن خود پشتون معاشرے کے لیے خطرناک ہیں۔ وہ دوسروں کی جنگ کا خمیازہ سالوں سے بھگت رہے ہیں جہاں نہ اس کے سکول محفوظ ہیں نہ مسجد، نہ پارک اور نہ بچے۔

4۔ سوال یہ ہے کہ یہ مجرم جنہوں نے زمان پارک میں قانون کو ہاتھ میں لیا خوا وہ کسی بھی نسل سے تعلق رکھتے ہو ابھی تک گرفتار کیوں نہیں ہوئے؟ ان کے خلاف ریاست حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ حکومت کو انہیں اور عمران خان کو گرفتار نہ کرنے سے کیوں روکا جاتا رہا؟ کیا یہ کسی سیاسی چال کی عکاسی نہیں کرتی؟ کیا یہ اشرافیہ، مسلم لیگ، ن، پی ٹی آئی اور پی پی پی اور ان اداروں کے درمیان اقتدار اور طاقت کی جنگ نہیں ہے جن کے اندر نسل پرستی کو ایک ہتھیار کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے؟

عقلمندی اور ہوشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ کچھ انفرادی لوگوں کے عمل کو پوری قوم سے منسوب نہ کیا جائے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی پالیسیوں کا دوبارہ جائزہ لیں۔ نسلی منافرت پھیلا کر، پشتونوں کو دہشت گرد کہہ کر ان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک کر حالات کو خرابی سے بچانے میں ہی ہوشمندی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments