یوم پاکستان اور انتخابات کے التواء کا اعلان


کیا پاکستانی معاشرہ حد سے بڑھی پولرائزیشن کا شکار ہے؟ سیاسی پولرائزیشن تو جب سے ہوش سنبھالا، ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ بھٹو بمقابلہ ساری جماعتیں۔ پھر بے نظیر بمقابلہ نواز شریف۔ اور اب عمران خان بمقابلہ سٹیٹس کو کی ساری طاقتیں۔ پولرائزیشن سے زیادہ معاشرہ ہیجان کا شکار ہے۔ ظلم اور نا انصافی کا شکار ہے۔ معرکہ اب پاکستانیوں اور پاکستانیوں پر مسلط نظام کے مابین ہے۔ قوموں کی زندگیوں میں ایسے مواقع اکثر آتے ہیں۔ پورا سسٹم ایک طرف ہے جب کہ عوامی طاقت دوسری طرف۔

یہ بقا کی جنگ ہے۔ محدود آمدنی والے پاکستانی اب کوئی اور بیانیہ سننے کو تیار نہیں۔ آنکھوں میں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے خواب سجائے ساری عمر جو اپنا پیٹ کاٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو بساط بھر سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھاتے ہیں۔ پھر دیار غیر بھیج دیتے ہیں۔ دوری کا احساس دائمی اداسی کی صورت جن کی رگوں میں سرایت کر جاتا ہے۔ وطن سے لا تعلق رہ نہیں سکتے۔ مڈل کلاس ماں باپ کی اولادیں یہی تارکین وطن آج نظام کے خلاف جنگ میں ہراول دستہ ہیں۔

کبھی واشنگٹن کی ٹھٹھرا دینے والی سردی میں احتجاج کرتے ہیں تو کبھی کسی اور دارالحکومت میں جمع ہوتے ہیں۔ ادھر لندن میں فلیٹوں کے سامنے کھڑے پاکستانی ہیں جو ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ اندرون ملک ہزاروں کی تعداد میں غازی ہیں۔ جنگیں لڑیں۔ قیدی بنے۔ دہشت گردوں سے نبرد آزما ہوئے۔ لاشیں اٹھائیں، لاشیں گرائیں۔ اب ویٹرنز کہلاتے ہیں۔ اپنے بچوں کو جو ’خاندانوں‘ کی اگلی نسلوں کے حوالے کرنے کو تیار نہیں۔ انہی چہروں کو ایک بار پھر خود پر مسلط کیے جانے پر بیزار ہیں۔

اسلام آباد پریس کلب کے باہر بوڑھے سپاہیوں پر آوازے کسے گئے۔ سڑکوں پر نکلے تو ملک کی تاریخ میں پہلی بار پولیس گردی کا نشانہ بنے۔ ڈنڈا بردار جتھوں نے جن کی گاڑیوں کو توڑا۔ اکثر نے اب خاموشی میں عافیت جانی ہے۔ مگر رنجیدہ خاطر ہیں۔ کروڑوں کی تعداد میں نوجوان ہیں، اب پسپائی پر جو آمادہ نہیں۔ صرف شہروں میں نہیں، دور دراز دیہاتوں میں بھی۔ الیکٹ ایبلز کی قید سے جو اب آزاد ہیں۔ سب سروے یہی بتاتے ہیں۔ دوسری جانب سٹیٹس کو کی قوتیں ہیں۔ عشروں سے آزمائے ہوئے چہرے۔ انصاف کے سیکٹر میں جانے پہچانے انسانی حقوق کے چیمپئن۔ میڈیا میں خاندانوں کے ترجمان۔ مذہب سے بیزار مغرب زدہ لبرلز۔ انگریزی بولنے والی الیٹ۔ اور ریاستی ادارے۔ سٹیٹس کو کی نمائندہ ساری کی ساری جماعتیں اب بقاء کی آخری جنگ لڑ رہی ہیں۔

کیا ملک 1971 ء جیسی صورت حال سے دوچار ہے؟ ہر گز نہیں۔ کچھ سبق لینے میں مگر کیا برائی ہے؟ مشرقی پاکستان ہم سے ایک نہیں ہزاروں میل دور تھا۔ بیچ میں سدا کا دشمن۔ دنیا مشرقی بازو کی خود مختاری مہینوں پہلے تسلیم کر چکی تھی۔ اندرا گاندھی مگر مغربی پاکستان کو بھی توڑنا چاہتی تھی۔ صدر نکسن آڑے آئے۔ امریکہ روس کے مقابلے میں چین کے ساتھ روابط بڑھا رہا تھا۔ خطے میں طاقت کے ایک سے زیادہ مراکز کا قیام پیش نظر تھا۔

سویت یونین کے اثر و رسوخ کو زائل کرنا تزویراتی ہدف تھا۔ اس کھیل میں مغربی پاکستان کی سالمیت ناگزیر تھی۔ نکسن نے اندرا گاندھی کو اپنے ارادوں سے باز رہنے کو کہا۔ پچاس برس گزر گئے۔ خطے میں صورت حال اب یکسر بدل چکی ہے۔ کھلاڑی تو وہی ہیں، بازی پلٹ چکی ہے۔ اب مودی کا بھارت امریکہ کا تزویراتی حلیف ہے۔ چین امریکہ کا عالمی حریف ہے۔ اپنے ہی جغرافیہ کا جو قیدی ہے۔ گرم پانیوں تک رسائی کے لئے جس کے مشرقی صوبوں کو بلوچستان سے راہداری درکار ہے۔

چین کی پیش قدمی کو روکنا نئی ’گریٹ گیم‘ ہے۔ بلوچستان پر علیحدگی پسندوں کا مسلسل دباؤ محض اتفاق نہیں۔ افغانستان میں امریکہ اپنی شکست فراموش کرنے کو تیار نہیں۔ عمران حکومت کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ قبائلی پٹی سلگتی رہے گی۔ بلوچستان جلتا رہے گا۔ ستر فیصد پاکستانیوں کے مقابل سٹیٹس کو کی جو طاقتیں کھڑی ہیں، ان میں سے کئی اپنے اپنے ذاتی مفادات کی اسیر ہیں۔ اندیشہ ہائے دوردراز جنہیں لاحق ہیں۔ کچھ مگر ایسے ہیں جو محض مغربی مفادات کے نگہبان ہیں۔

جمہوریت، سویلین بالا دستی اور انسانی حقوق کے نام پر جنہوں نے برسوں اودھم مچائے رکھا۔ علیحدگی پسندوں کو جن کی ہمدردیاں حاصل ہیں۔ عوام اور ادارے آمنے سامنے ہوں، اس میں بھی یہ اپنا مفاد دیکھتے ہیں۔ آج ان جمہوریت پسندوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ پارلیمنٹ کے دروازے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پر بند ہیں۔ جہاں کٹھ پتلی قائد حزب اختلاف کی مدد سے تمام کلیدی فیصلے ہو رہے ہیں۔ جمہوری ریاست ہے جو عام انتخابات کے انعقاد سے صاف انکاری ہے۔

وزیر دفاع کہتے ہیں کہ نہیں معلوم انتخابات اکتوبر میں بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں۔ عراق، شام اور لیبیا میں جمہوری حکومتوں کے قیام کا ٹھیکہ جس نے اپنے سر لیا تھا، پاکستان میں افراتفری رہے، انتخابات ہوں نہ ہوں، اسے کوئی سروکار نہیں۔ پیڑ گننے سے نہیں، جسے آم کھانے سے غرض ہے۔ آئین شکنی، انسانی حقوق کی پامالی اور سیاسی مخالفین کے ساتھ روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک پر پاکستانیوں کی اکثریت مگر برہم ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی خاموشی کو لوگ ان ہتھکنڈوں کی تائید سمجھ رہے ہیں۔

سال 2017 ء میں حکومت اور اداروں کے مابین مخاصمت عروج پر تھی۔ ازکار رفتہ سپاہی نے وردی اتار کر قلم سنبھالا تو ’نوائے وقت‘ میں اوپر تلے تین مضامین میں حکومت سے التجا کی، ’اداروں سے دوری نہیں، انہیں سینے سے لگانے کی ضرورت ہے۔ ‘ آج ازکار رفتہ سپاہی اداروں سے ملتجی ہے، ’عوام سے دوری نہیں، انہیں سینے سے لگانے کی ضرورت ہے‘ ۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ انتخابات ملتوی کیے جانے کا فیصلہ کسی اور دن کر لیا جاتا۔ یوم پاکستان سے جڑی رات تو ہرگز نہ کیا جاتا۔

زندہ قومیں اپنے قومی دنوں کو پورے ولولے اور جوش و جذبے کے ساتھ مناتی ہیں۔ رنگ و بو کی برسات ہوتی ہے۔ پرچم لہرائے جاتے ہیں، گیت گائے جاتے ہیں۔ اگلے روز پورے طمطراق کے ساتھ مسلح افواج کی پریڈ ہوتی ہے۔ اس بار ملکی تاریخ میں پہلی بار پاکستانیوں نے یوم پاکستان کا استقبال دال روٹی کا حساب کرتے ہوئے کیا ہے۔ مستقبل سے متعلق بے یقینی کے ساتھ کیا ہے۔ فضاء میں رنگ و بو نہیں، نفرتوں کا زہر گھلا ہے۔ اکثر ایسا پہلے بھی ہوا کہ مسلح افواج کی سالانہ پریڈ منعقد نہ کی جا سکی ہو۔

کبھی دہشت گردی کے خدشات تو کبھی وبا کا موسم۔ پہلی بار مگر ایسا ہوا ہے کہ ریاست اپنی عظیم و الشان عسکری قوت کا مظاہرہ مالی محتاجی کی بنا پر کرنے سے قاصر ہے۔ حکومت جو عوام میں مفت آٹا بانٹ رہی ہے، اسے پانے کی تگ و دو میں کچلے جانے والے پاکستانیوں کی لاشوں کی بو سے فضاء ابھی تک متعفن ہے۔ میڈیا پر تمام تر بندشوں کے باوجود کیمرے کے سامنے کوئی شہری آتا ہے تو دہائی دینے لگتا ہے۔ مہنگائی نے اچھے اچھوں کے پردے چاک کر دیے ہیں۔ حال دل کہتے کہتے جن کے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ اب مقابلہ ان بے بسوں اور ان کو اس حال تک پہنچانے والوں کے مابین ہے۔ ہو سکتا ہے ریاست ’باغیوں‘ اور ’دہشت گردوں‘ کو کچلنے میں کامیاب ہو جائے۔ ایک نہ ایک روز اور حشر کے حضور حساب تو دینا ہو گا۔ الجھن محض ایک ہی ہے۔ روز حساب پر اکثر کا ایمان نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments