شہباز شریف اور جنرل (ر) باجوہ


آج کل جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ مختلف انٹرویوز کے ذریعے اپنے دور کے رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جنرل باجوہ کا چھ سالہ دور ایک متنازع ترین دور کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایسا پہلی بار ہے کہ کوئی آرمی چیف ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مسلسل خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ ہر نئے انٹرویو میں جنرل باجوہ اپنے دور میں ہونے والی زیادتیوں کا ذمہ دار فیض حمید، عمران خان اور ثاقب نثار کو قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ کبھی کسی آرمی چیف نے ریٹائرمنٹ کے بعد اس طرح کے انٹرویوز نہیں دیے، جس سے ان کے منصب سے جڑے راز افشا ہونے کا اندیشہ ہو۔ مگر قمر جاوید باجوہ یہ کام بھی بطریق احسن انجام دے رہے ہیں۔

حالیہ مبینہ انٹرویو میں ان کے کئی دعوؤں کے ساتھ یہ دعویٰ بھی سامنے آیا کہ انہوں نے حمزہ شہباز کو وزیراعلی بنانے پر شہباز شریف سے ناراضی کا اظہار کیا تھا، اس کے علاوہ بھی انہوں نے کئی ایسی باتیں کیں، جو شاید ان کے منصب کے شایانِ شان نہیں تھیں۔ جنرل (ر) باجوہ کی باقی تمام باتیں تو اپنی جگہ مگر اس سے بڑا لمحہ فکریہ کیا ہو گا کہ ایک وزیراعظم اور آرمی چیف ون آن ون میٹنگ میں کوئی بات کریں اور آرمی چیف باہر جاکر سیاق و سباق سے ہٹ کر ادھوری بات بیان کردے، جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہ ہو۔

بہرحال جنرل (ر) باجوہ آج مختلف لوگوں کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں، اس سے ان کے ظرف کا پتہ چلتا ہے۔ کاش شہباز شریف بھی ان گوشوں پر گفتگو کرسکیں، جن کے متعلق شاید وہ اپنے منصب اور ظرف کی وجہ سے خاموش ہیں۔

کہہ رہا ہے شورِ دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

شہباز شریف اور جنرل باجوہ کے تعلق کا باقاعدہ آغاز 2016 میں ان کے آرمی چیف بننے سے چند روز پہلے ہوا۔ اس سے پہلے شہباز شریف کا جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے سسر میجرجنرل (ر) اعجاز امجد سے اچھا تعلق تھا۔ آرمی چیف بننے کے لئے جنرل (ر) قمر باجوہ نے جو کچھ کیا، شاید شہباز شریف اس کا کبھی ذکر نہ کریں۔ بہرحال ڈان لیکس پر بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ٹویٹ کرنے سے لے کر ٹویٹ کی واپسی تک۔ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بار بار اصرار پر شہباز شریف نے جو کردار ادا کیا وہ شاید جنرل (ر) باجوہ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ 2018 عام انتخابات ہونے سے چند روز قبل جب جنرل (ر) باجوہ شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی خواہش کا اظہار کر کے ان کے ساتھ بیٹھ کر کابینہ کے نام فائنل کر رہے تھے، اگر جنرل (ر) باجوہ جرات اور ہمت کا مظاہرہ کر کے ان سب ملاقاتوں کی تفصیل بھی کسی ایک انٹرویو میں بیان کر دیں تو شاید قارئین کے لئے ان کے اور شہباز شریف کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔

اسی طرح جب جنرل (ر) باجوہ جب ایکسٹینشن پر مصر تھے اور سپریم کورٹ کے حکم کے بعد آئین میں ترمیم ضروری ہو گئی تھی۔ اس وقت مسلم لیگ نون کی پارلیمنٹ میں حمایت کے لئے جنرل باجوہ نے جو جو کچھ کیا، اس کا بھی انہیں کسی انٹرویو میں ذکر کر دینا چاہیے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں شہباز شریف کبھی جنرل باجوہ کی ان ملاقاتوں کا ذکر اپنے لبوں پر نہیں لائیں گے۔

شہباز شریف آج کل پاکستان کے وزیراعظم ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو سمیت تمام انٹیلی جنس ادارے انہیں پل پل کی خبر دے رہے ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ پنجاب میں ان کے بیٹے کی حکومت ختم کرانے کے لئے کس نے کیا کیا؟ جنرل (ر) باجوہ نے آخری چند مہینوں میں شہباز شریف حکومت کے ساتھ جو کچھ کیا، شہباز شریف کو ایک ایک پل کی رپورٹ ہے۔ حتیٰ کہ آخری دو ہفتوں کے دوران دو مرتبہ مارشل لاء لگانے کی دھمکی بھی دی گئی۔ لیکن اس سب کے باوجود جب جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ ریٹائر ہو گئے اور جنرل عاصم منیر نے نئے آرمی چیف کا چارج سنبھال لیا تو شہباز شریف اگلے دن جنرل (ر) باجوہ سے ملنے ان کے گھر چلے گئے۔ جانے سے قبل شہباز شریف نے میاں نواز شریف سے اجازت لی۔

شہباز شریف نے ریٹائرڈ آرمی چیف جنرل (ر) باجوہ سے ان کے گھر پر ملاقات کی اور بہت عزت کے الفاظ کے ساتھ انہیں کچھ باتیں کہیں۔ یہ سب باتیں انسان کے بڑے ظرف کا پتہ دیتی ہیں۔ وگرنہ ریٹائر ہونے والے بندے کے تو قریبی رشتہ دار فون سننا بند کر دیتے ہیں چہ جائیکہ وزیراعظم گھر جاکر عزت افزائی کرے۔ لیکن اس سب کا جواب جنرل (ر) باجوہ جس انداز میں دے رہے ہیں، اس سے ان کی سوچ مزید آشکار ہوجاتی ہے۔ کیونکہ جس منصب پر وہ چھ سال فائز رہے، اس منصب پر فائز رہنے والے شخص کو یہ سب کچھ زیب نہیں دیتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments