میانمار کی سیاسی صورتحال


میانمار میں آج کل پھر عسکری جنتا کا راج ہے جب آج سے دو سال قبل انہوں نے ایک مقبول عام عوامی نمائندہ حکومت کی سربراہ آنگ سان سو چی کو وزیراعظم کی کرسی سے ہٹا کر پابند سلاسل کر دیا تھا۔ تب سے سیاسی قیادت اور عوامی حقوق زیر انتقام رہے ہیں اور عوامی مطالبات کو زور بازو سے سختی سے کچلا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل وغیرہ کے مطالبات کو ردی کی ٹوکری کی نظر کیا جا چکا ہے۔ اب عوامی جمہوری مطالبہ پہ فوجی حکمرانوں نے نئے انتخابات سے یکسر انکار کر دیا اور وجہ بتائی کہ ان کے پاس اتنا دائرہ عمل نہیں کہ وہ الیکشن منعقد کروا سکیں مگر جب عوامی مطالبات نے زور پکڑا تو گھبراہٹ کے عالم میں انہوں نے نیم دروں ایک ہاں بھر دی ہے۔

میانمار جس کو عرف عام میں برما کہا جاتا ہے قدرتی حسن سے آراستہ اور پہاڑوں اور بحر بنگال کے درمیان واقع ہے جس کی تاریخ 75000 سال قدیم ہے۔ اس میں قدرتی معدنیات اور زرعی پیداوار بکثرت پائی جاتی ہے اجناس میں چاول سب سے زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ ملکی آبادی پانچ کروڑ چالیس لاکھ نفوس پہ مشتمل ہے۔ اکثر لوگ یہاں کے سب سے قدیم دریا اراوادی کے کنارے آباد ہیں۔ جنگ عظیم دوئم میں ہوئے برما آپریشن سے بھی اس کو دنیا بھر میں عسکری تربیت گاہوں میں بطور سبق پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے جب برطانوی سامراجی قوتوں کو جاپانی افواج کا سامنا تھا۔

اس کو برطانوی سامراج سے آزادی 4 جنوری 1948 کو ملی۔ اس کے بعد جمہوری انتخابات 1950 کی دہائی میں ہوئے مگر 1960 سے 2011 کے دوران جرنیلی حکومت اپنے سخت ڈسپلن کے ساتھ قائم رہی اور عوامی آواز کو زور بازو سے کچلا جاتا رہا۔ عالمی دباؤ پر 2011 میں منعقدہ انتخابات کے نتائج بھی فوجی جنتا کے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہ تھے جب انگ سو چی کی پارٹی کو پورے ملک کی کل 45 نشستوں میں سے 43 نشستوں پہ کامیابی ملی۔ پھر بڑے رد و کد کے بعد عنان اقتدار عوامی حکومت کے ہاتھ آیا اور یوں ترقی اور تہذیب کا ایک روشن باب تحریر ہوا مگر کب تک یہ منظر جرنیلوں کی خشمگیں نگاہوں کو خیرہ کرتا۔

جذبہ حب الوطنی سے سرشار جوانوں نے ایک مرتبہ پھر ایک شب خون مارا اور وزیراعظم کو معہ کابینہ ارکان پابند سلاسل کر دیا اب ان کی کسی عدالت میں بھی شنوائی نہیں ہو رہی اور وہی ممکن ہے جو یہ جنتا کی من پسند ہو۔ قومی معیشت کا بیڑا غرق ہوا جا رہا ہے۔ لیکن فوجی حکمران ان بدتمیز سیاستدانوں کو سبق ازبر کرائے بغیر کسی انتخابی عمل کی قطعا ”اجازت دینے کے موڈ میں نہیں۔ جبکہ عوامی بے چینی روز افزوں ہے۔ اب تک 3100 سیاسی رہنماؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے اور دیگر دس لاکھ افراد گرفتار یا گمشدہ کیا جا چکا ہے اور اقوام متحدہ کے نمائندوں نے صورتحال کو انتہائی خوفناک اور کربناک بیان کیا ہے۔

عوامی جذبات کو کچلنے کے لئے مختلف حیلے بہانے گھڑے جا رہے ہیں اور اس طرح عوام کا ایک سیل بلا اب کسی طور رکنے والا نہیں۔ مقبول عوامی لیڈر انگ سان سو چی کو 33 سال کی سزا بھی سنائی جا چکی ہے۔ عالمی سطح پر بھی اس کی مذمت کی جا رہی ہے اور ایسی سزاوں کو محض انتقامی کارروائی سمجھا جاتا ہے۔ ملکی خوشحالی اور ترقی کے لئے لازم ہے کہ عوامی پکار کو سنا جائے اور اقتدار جلد از جلد عوامی نمائندوں کو منتقل کیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments