میرا آئین، میری مرضی


دیوار پر لرزتے غیر واضح ہیولے تصور سے دور ہیں اور تصویر بنانے کی بجائے محض سائے بڑھا رہے ہیں۔ الجھنیں اور بے یقینی ابتری کو جنم دے رہی ہیں اور افراتفری آئین کے وجود کو نگلنے کے درپے۔

اس وقت مملکت خداداد میں کونسا آئین کار فرما ہے؟ ملک میں کون سے قوانین نافذ ہیں، کونسا طرز حکومت ہے اور اصل حکمران کون ہیں؟ کہتے ہیں تہتر کا آئین ہے اور پارلیمانی نظام ہے جبکہ جمہوریت کا بانکپن ہے۔

آئین وہ خوبصورت لفظ ہے جس کی آڑ میں ہر کوئی اپنا نظام بنا لیتا ہے اور پھر بڑی گھن گرج سے اُسے آئین کی پاسداری سے جوڑ دیتا ہے۔ یہ وہ دستاویز ہے جو ہر ایک کا دل لبھاتی ہے مگر جہاں مملکت اختیار عوام کو دینے کی کوشش کرتی ہے وہیں اس دستاویز کو بے عمل کر دیا جاتا ہے۔

آئین کو موم کی ناک بنا کر جس طرح مفادات کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے کیا اس کا نمونہ اس سے قبل کبھی دیکھنے کو ملا؟

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہر ایک کا اپنا آئین ہے، کوئی مفادات کی سرزمین پر تہتر کے اسلامی جمہوری آئین کے اندر نہیں رہتا اور کوئی اس آئین کی پچ سے کہیں باہر نکل کر کھیل رہا ہے۔ کسی کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ’اسلامی‘ میں چھپی ہے اور کوئی ’جمہوری‘ کے لبادے میں غیر جمہوری ہے۔ جس کا دروازہ بڑا اُسی کا آئین بڑا، جس کی لاٹھی اُس کا آئین۔۔۔ اور میرا آئین میری مرضی۔

پی ڈی ایم کی آئین کی تشریح آج کل مختلف ہے جبکہ اپریل 2022 سے پہلے مختلف تھی۔ اُس وقت کی اپوزیشن انسانی حقوق کی خواہش مند، آزادی اظہار کی قائل، مہنگائی میں پسے عوام کی آواز، کلرکوں، تانگہ بانوں، نوجوانوں کی دھڑکنوں کا ساز اور جمہور کا انداز تھی۔

اُس وقت کی اپوزیشن مقتدرہ کی سیاست میں مداخلت کی مخالف اور پارلیمان کی سربلندی کی خواہش مند، ووٹ کو عزت دو کی تھاپ پر عوامی حقوق کی علمبردار اور انصاف کی آئینہ دار۔

اپریل 2022 کی حزب اختلاف عوامی انقلاب کی خواہاں، آئی ایم ایف کی غلامُ معیشت سے نالاں، مہنگائی کے خاتمے کے لیے پر جوش اور صحافت پر قدغنوں کے خلاف آواز حق کا استعارہ مگر اب ایک ہی نعرہ ’بس اقتدار ہے حق ہمارا۔‘

دوسری جانب تحریک انصاف کے لیے آئین 10 اپریل 2022 کے بعد معرض وجود میں آیا۔ اس سے قبل صحافت پابند سلاسل، سوشل میڈیا اور میڈیا پر قابو پانے کے سو سو ٹوٹکے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قانون کی عملداری جبکہ لاپتہ افراد ریاست کے باغی اور ہزارہ لاشیں بلیک میلر قرار پائیں۔

اسٹیبلشمنٹ اور حکومت میں جائز اشتراک کے سُنہرے دن، پہلی بار ایک صفحے اور ہائبرڈ دور کی چاندنی راتیں اور جی ایچ کیو کی پُرلطف قربتوں کی باتیں، سب آئین کی پاسداری قرار پاتا تھا جبکہ یہی وہ دن تھے جب آئی ایم ایف نجات دہندہ، سکون صرف قبر میں، انڈا، مرغی اور کٹے معاشی پروگرام، جنرل باجوہ زندہ باد، جنرل فیض پائندہ باد۔۔

تحریک انصاف اور پی ڈی ایم نے جس طرح اپنی صفیں بدلیں اُسی طرح اپنے قومی ہیرو بھی بدل لیے۔ عسکری قیادت کی جگہ عدالتی محاذ ہوا، پی ڈی ایم اسٹیبلشمنٹ جبکہ تحریک انصاف عدالت کے پہلو میں لگ گئیں۔

ایک کا ہیرو جنرل فیض اور دوسرے کے نجات دہندہ جنرل باجوہ قرار پائے مگر اس کشمکش میں اگر کسی نے اپنی جگہ نہیں بدلی تو وہ تھی ہماری عدالتیں۔ موقع کو غنیمت جانتے ہی عدالتوں نے ’عوامی روپ‘ دھار لیا۔ پاپولر ازم کا بیانیہ تھا یا پھر ازلی ’تاریخی روایات‘ کی پاسداری کہ کب اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹے وہیں میرا آئین اور میری مرضی کا جھنڈا گاڑھا جائے۔

کسی کو نوے دنوں میں انتخاب پسند ہیں تو کسی کو انتخابات کے کرائے جانے کے لوازمات۔۔۔ کسی کے لیے منصف راہیں تک رہے ہیں اور کوئی منصف کی راہ تک رہا ہے۔ مقتدرہ کا مزاج بدل گیا ہے اور عدلیہ کا معیار، پارلیمان کا اختیار بھی نفی اور انتظامیہ کا سروکار بھی۔۔

ایسے میں بس ایک ہی شخص ہے کہ جب چاہے جسے چاہے کھانے پر بُلائے، انٹرویو دے اور پھر انٹرویو کو گفتگو اور گفتگو کو قانونی نوٹس میں بدل سکتا ہے اور وہ کوئی اور نہیں بس وہ کردار ہے جنھوں نے ہمیں یہاں تک لا کھڑا کیا یعنی جنرل باجوہ صاحب۔۔ جن کا اپنا آئین ہے اور آج کل اس کی ہر شق ہر دوسرے شخص کے لیے آرٹیکل چھ۔

سپریم کورٹ کا بھی ایک اپنا آئین ہے جو تریسٹھ اے کی تشریح سے لے کر انتخابات کرانے کے از خود نوٹس تک سراپا داستان ہے۔ کیا المیہ ہے کہ جس در بحران حل ہونے ہیں اسی در بحران جنم لے رہے ہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ آئین کے پچاسویں برس میں سب اپنی اپنی سہولت کے آئین سے باہر نکل کر آئین پاکستان کی اصل روح پر عمل کریں اور اپنی حدود میں رہ کر کام کریں تو آئین سرخرو ہو گا ورنہ جس کی لاٹھی اُس کا آئین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments