ہمارا غیر پیداواری نظام تعلیم


”ہمیں اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ صرف زرعی پیداوار بڑھا کر ہم اپنے جی ڈی پی کے معیار کو تبدیل نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ہمیں اپنا ہدوف صنعتی ترقی کو مقرر کرنا ہو گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنی ترقی کا محور بنانا ہو گا تاکہ ہم مغربی ممالک سے مصنوعات تیار کرنے (مینوفیکچرنگ) کے مختلف شعبوں میں مقابلہ کر سکیں جن میں انجینئرنگ کے آلات، کاریں، صنعتی مشینری، دوا سازی، کمپیوٹر چپس، دھات سازی اور دیگر استعمال کی اشیاء شامل ہیں۔ صنعتی ترقی کے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں جلد اپنے تعلیمی اداروں کا معیار بلند کرنا ہو گا۔ 21 ویں صدی میں تمام ممالک کی درجہ بندی صنعتی اور معاشی ترقی کی بنیاد پر ہو گی۔“ (ڈاکٹر عطا ء الرحمٰن۔ سائنس کی اعلیٰ تعلیم اور پاکستان)

میرے سامنے محمد مسعود خالد کی کتاب ”نو آبادیاتی تعلیمی ڈھانچے کا تسلسل“ جسے فکری تحریک سانجھ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے، پڑی ہے۔ یہ کتاب زیر بحث مضمون پر ایک وقیع اور عمدہ تحقیقاتی کاوش ہے۔ ہمارے تعلیمی ماہرین کو مستقبل کی تعلیمی منصوبہ بندی میں اس کتاب کے مندرجات سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔ بقول مصنف ”یہ کتابچہ انسانی شعور کی ابتداء سے لے کر بولنے اور لکھنا تخلیق کرنے کے عمل تک، کائنات کو جاننے کے لئے مابعد الطبیعات سے لے کر سائنس تخلیق کرنے تک، تعلیمی نظریات سے لے کر تعلیمی پالیسیوں تک، پیداواری نظام تعلیم سے لے کر تعلیم کو بانجھ بنانے والے نظریوں تک کا احاطہ کرنے کی کوشش ہے۔ کتابچے کا دامن اگرچہ کئی دیگر وسیع موضوعات کو سمیٹنے میں کم پڑ گیا ہے مگر پھر بھی تعلیم میں نیو لبرل ازم اور گلوبلائزیشن کو سمجھنے میں آپ کی مدد ضرور کرے گا۔“

کسی بھی قوم کا نظام تعلیم اس کی جملہ ترجیحات کا تعین کرتا ہے اور نظام تعلیم کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا آج کے دور میں از بس ضروری ہے۔ پاکستان میں بننے والی اب تک کی تمام تعلیمی پالیسیوں کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ تعلیمی پالیسیاں قومی ضرورتوں کے تابع، سیاستدانوں اور فوجی حکمرانوں کی علم سے محبت کے نتیجے میں، لوگوں کو ترقی دینے کے لئے ماہرین تعلیم، ماہرین معاشیات اور سیاسی پارٹیوں کے تھنک ٹینک کے مشورے سے بنائی گئی ہیں جب کہ حقیقت میں یہ پالیسیاں عالمی بینک، عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) اور اقوام متحدہ کے اداروں نے بنائیں اور ہماری بیوروکریسی نے کبھی فوجی حکمرانوں کے ذریعے، کبھی تعلیمی نظام سے لا تعلق سیاستدانوں کے ذریعے لاگو کروائیں۔

یہ پالیسیاں عالمی سرمایہ داری کے بدلتے ہوئے رجحانات کے تابع تبدیل بھی کی جاتی رہیں۔ عالمی سرمایہ داری کی منڈی کو قائم رکھنے کے لئے ہمارے جیسے پوسٹ کالونیل ملکوں میں جس قسم کی معیشت کو نافذ کیا جاتا رہا ایک خاص سیاسی نظام بھی ہمیشہ ایسی معیشت کی حفاظت کے لئے تشکیل دیا جاتا رہا۔ تعلیمی نظام اس سیاسی نظام کا حصہ ہوا کرتا ہے جو سامراجی معیشت کا پاسبان بنایا جاتا ہے۔ ہمارے غیر پیداواری نظام تعلیم کا مقصد پاکستان کو ایک صارف مارکیٹ  بنانا ہے نہ کہ پیداواری مارکیٹ۔

یہی وجہ ہے کہ بے شمار تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کے ہونے کے باوجود مختلف ایجادات یا ان میں بہتری کے حوالے سے ہمارا کردار صفر ہے۔ دنیا میں معیشتوں کی بنیاد تعلیم اور تحقیق (نالج بیسڈ اکانومی) پر رکھی جاتی ہے جس میں تعلیمی اداروں کا انتہائی اہم کردار ہوتا ہے جو معیشت کو نئی جہت اور سہارا دیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس طرح کی اکانومی کا کوئی تصور ہی نہیں، الٹا تعلیمی ادارے معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔

دھڑا دھڑ ڈگریاں جاری ہو رہی ہیں لیکن تحقیقی کاوشیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے ان پڑھ حضرات کی اکثریت معاشی لحاظ سے زیادہ خود کفیل ہے اور پڑھے لکھے افراد اکثر ان پڑھ یا نیم خواندہ کارو باری حضرات کے منشی ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں جامعات کی درجہ بندی کرنے والے معتبر پبلشر کیو ایس نے بر اعظم ایشیاء کی 760 بہترین یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کی سال 2023 کے لئے جو رپورٹ جاری کی ہے، اس درجہ بندی میں ایشاء کی سو بہترین یونیورسٹیوں کی لسٹ میں پاکستان کی صرف دو یونیورسٹیاں نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی 67 جبکہ قائد اعظم یونیورسٹی 95 پوائنٹس کے ساتھ جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکی ہیں۔

ایشیا ء کی ٹاپ تین سو یونیورسٹیوں کی فہرست میں پاکستان کی صرف تیرہ یونیورسٹیاں شامل ہیں جو اگرچہ مایوس کن تو نہیں لیکن اسے شاندار کارکردگی میں بھی شمار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لسٹ میں لمز  115 پہ، یونیورسٹی آف دی پنجاب 140 نمبر، کامسیٹس یونیورسٹی اسلام آباد 142 نمبر، یو ای ٹی لاہور 165 نمبر، پی آئی ای اے ایس 193 نمبر، یونیورسٹی آف ایگریکلچر فصل آباد 210 نمبر، یونیورسٹی آف پشاور 221 نمبر، آغا خان یونیورسٹی 223 نمبر، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد 241 نمبر، یونیورسٹی آف کراچی 280 نمبر اور دی یونیورسٹی آف لاہور 290 نمبر پر ہیں۔

مجموعی طور پر اس لسٹ میں پاکستان کی پچاس، چین کی ایک سو اٹھائیس، انڈیا کی ایک سو اٹھارہ، جاپان کی ایک سو چھ اور ساؤتھ کوریا کی اٹھاسی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ یہ درجہ بندی گلوبل گولڈ اسٹینڈرڈ فار اکیڈمک کے تحت کی گئی ہے جس میں کارکردگی کے اشاریے کے طور پر تدریسی ماحول، تحقیق کا معیار، تحقیقی اثرات، صنعتی روابط اور آمدنی کے علاوہ دیگر اشاریوں سے مدد حاصل کی گئی ہے۔ جاری کی گئی درجہ بندی کے مطابق ایشیاء کی 10 بہترین جامعات میں چین کی پیکنگ یونیورسٹی پہلے، نیشنل یونیورسٹی آف سنگا پور دوسرے، سنگھاوا یونیورسٹی بیجنگ تیسرے، دی یونیورسٹی آف ہانگ کانگ چوتھے جبکہ دیگر ممالک میں ساؤتھ کوریا، ملائیشیا اور جاپان کی یونیورسٹیاں شامل ہیں۔

سرفہرست جاپان کی یونیورسٹی آف ٹوکیو، دوسرے نمبر پر سنگا پور کی نیشنل یونیورسٹی آف سنگا پور اور تیسرے نمبر پر یونیورسٹی آف ہانگ کانگ شامل ہے۔ جبکہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جانے والی بہترین جامعات میں جاپان کی 19، بھارت کی 9، سعودی عرب کی 2، ایران کی 3، اسرائیل کی 4 جبکہ چین کی سب سے زیادہ 21 جامعات شامل ہیں۔ گو یہ امر حوصلہ افزا ہے کہ پاکستان کی یونیورسٹیاں محدود وسائل میں بہتری کے سفر کی جانب گامزن ہیں لیکن ہنوز دلی دور است والی کیفیت ہے۔

ہمیں اپنے نظام تعلیم کو پیداواری بنانا ہو گا اور علم و تحقیق کے شعبوں میں نہ صرف بجٹ کو بڑھانا ہو گا بلکہ اس بجٹ کو درست طریقے سے مطلوبہ مقاصد پر خرچ بھی کرنا ہو گا۔ کیونکہ روایتی طریقوں سے ہم اپنے جی ڈی پی کو نہیں بڑھا سکتے۔ جی ڈی پی کو بڑھانے کے لئے روایتی یونیورسٹیوں میں داخلوں کا معیار سخت کرنے اور مزید روایتی یونیورسٹیوں کا پھیلاؤ روکنے کی ضرورت ہے تاکہ صرف سنجیدہ طالبعلم ہی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے سکیں۔

اس کے ساتھ ساتھ غیر روایتی، پیشہ ورانہ تعلیم کو فروغ دینے والے ووکیشنل اداروں اور یونیورسٹیوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کرنے اور پہلے سے موجود ایسے اداروں کی بھرپور سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ غیر پیداواری کی بجائے پیداواری عمل کو فروغ مل سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس عمل سے اعلیٰ معیار کی ہنر مند افرادی قوت میں اضافہ ہو گا جو اندرون ملک انڈسٹری کو بھی چلائیں گے اور باہر جا کر پاکستان کے لئے زر مبادلہ کمانے کا بھی سبب بن سکیں گے۔ ہم جتنا جلدی یہ ادراک کر لیں اتنا ہی بہتر ہے وگرنہ ہماری معیشت مزید قرضوں میں جکڑتی چلی جائے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments