فرحت عباس شاہ: شہرت چھن جانے کے نفسیاتی اثرات


دنیا شہرت عام کا دربار تو ہے لیکن بقائے دوام کی جگہ نہیں۔ فرائڈ کی تھیوری سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے نہ کسی دوسری نفسیات کی کتاب کھنگالنے کی یہ تو عام مشاہدے کی بات ہے اپنے اردگرد بکھری ان گنت مثالوں پہ نظر ڈالنے کی بات ہے کہ کہیں کوئی چلبلا ندیم آ کے کسی چاکلیٹی وحید مراد کو شہرت کی مسند سے ڈپریشن کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے یا کہیں کوئی سوشانت پنکھے سے لٹک جاتا ہے۔

شہرت کے چھن جانے کا خوف یا شہرت چھن جانے کے بعد انسانی دماغ میں جو اضطراب اور کرب کے سمندر ٹھاٹھیں مارتے ہیں کوئی بھی باشعور اور حساس شخص اسے محسوس کر سکتا ہے۔

مختلف لوگوں پر اس کے اثرات مختلف ہوتے ہیں بعض لوگ اپنی حساسیت، تنہائی پسندی اور شرمیلے پن کے باعث شہرت کو پسند نہیں کرتے اور شہرت کے چھن جانے پہ شکر کرتے ہیں کہ اس لعنت سے جان چھوٹی کون لوگوں کی توقعات پہ پورا اترتا پھرے لیکن اکثریت تلملا اٹھتی ہے کہ یہ ہو کیا گیا ہے؟ ہماری عزت، شہرت، وقار، احترام، چاہنے والوں کا ہجوم، آٹو گراف لینے والوں کی قطاریں اور وہ شہ سرخیاں کہاں گئیں جن میں ہم رہتے تھے؟

ایسی صورت میں اپنا تشخص قائم رکھنے اور دوبارہ وہی شہرت پرور مقام حاصل کرنے کے لیے جو طریقے اپنائے جاتے ہیں وہ اکثر و بیشتر انسان کا تماشا بنا دیتے ہیں۔

فن کار حساس ہوتا ہے۔ حق تلفی، ناقدری یا شہرت کے چھن جانے کا احساس اسے جھنجھلا کے رکھ دیتا ہے ایسے میں اس کا رد عمل شدید ہوتا ہے۔

ایسا ہی رد عمل کچھ وقت سے دنیائے اردو کے نام ور شاعر فرحت عباس شاہ کے ہاں دکھائی دے رہا ہے۔ فرحت عباس شاہ کے نام سے ایک دنیا واقف ہے۔ ان کی شعر و ادب سے محبت لازوال ہے۔ ایک عمر انھوں نے اس فن کو دی ہے۔ کئی درجن کتابیں تخلیق کی ہیں نوے کی دہائی میں کئی نامور شعرا کے ہوتے ہوئے نہ صرف خود کو منوایا بلکہ ایک عرصہ لوگوں کے دل و دماغ پہ حکومت کی اور ان گنت محبتیں سمیٹیں۔ وقت ایک سا نہیں رہتا اور نہیں رہا۔

آج کل ان کی فیس بک پر موجود پوسٹوں اور کمنٹس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ فرحت عباس شاہ اپنی ناقدری اور شہرت کے چھن جانے کے دکھ سے کسی نفسیاتی الجھن کا شکار ہو گئے ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے آپ کو نوجوان نسل اور علم و ادب کے بڑے لوگوں سے منوانا چاہتے ہیں اور ویسی ہی شہرت اور عزت چاہتے ہیں جیسی نوے کی دہائی میں انھیں حاصل تھی۔

وہ ان تمام لوگوں اور اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جن کی وجہ سے فرحت عباس شاہ کی مقبولیت میں کمی ہوئی یا جن کے باعث ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا تھا لیکن انھوں نے خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔

وہ تمام ہدف تنقید ہیں جن کے ہاں فرحت عباس شاہ نہیں ہے
جامعات پہ تنقید

ان شعرا پہ تنقید جنھیں جامعات گلوریفائی کر رہی ہیں مثلاً احمد مشتاق، مجید امجد، ن م راشد، میرا جی وغیرہ

سرکاری علمی و ادبی اداروں پہ تنقید
ان مشاعروں پہ تنقید جن میں فرحت عباس شاہ نہیں ہیں
اپنے سینیئر ہم عصروں پہ تنقید ( افتخار عارف، ظفر اقبال وغیرہ)
سوشل میڈیا پہ مقبول شعرا پہ تنقید (جون ایلیا)
جامعات سے باہر بیٹھے نقادوں پہ تنقید (احمد جاوید وغیرہ)
فرحت عباس شاہ کی فیس بک وال سے کچھ اقتباسات دیکھیے

”حیرت ہے کہ کچھ لوگ اب بھی ظفر اقبال اور افتخار عارف جیسے شعراء کو بڑا شاعر سمجھتے ہیں۔ جیسے تدریسیے احمد مشتاق کو اور سوشل میڈیا کے بچے جون ایلیا کو۔ اگر ان سے یہ پوچھا جائے کہ یہ بڑے شاعر کس بنیاد پر ہیں تو ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہوتا۔ انہیں یہ بھی نہیں پتہ کہ کسی کو بڑا شاعر کس بنیاد پر قرار دیا جاتا ہے۔ آج ہمارے لاتعداد نوجوان شعراء ان لابیوں کے بنائے ہوئے بڑے شاعروں سے ارفع و اعلی شعر کہہ رہے ہیں“ ۔

جون ایلیا چپیڑیں کھانے والا شاعر ”
چاہ میں اس کی طمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی
جون ایلیا ”

”اگر سنجیدہ اور سمجھدار ادیب یہ پتہ لگانے میں کامیاب ہوجائیں کہ جون ایلیا اور ہا ہو ہا ہو والے شعراء کی پروموشن پر پیسہ اور منصوبہ کہاں سے آیا ہے تو اس کے پیچھے چھپے تباہ کن عوامل بھی سمجھ میں آ جائیں گے۔ ہماری نوجوان نسل کو علم و ادب کی درست سمت سے بھٹکا کر بے سمتی کے گڑھے میں پھینک دیے جانے کے اس مذموم منصوبے کو سمجھے بغیر بات نہیں بنے گی“ ۔

”میرا جی ایک مصنوعی شاعر“
”ن م راشد ایک بے سہارا شاعر“
”مجید امجد ایک مبالغہ“
اور وہیں ایک نو آموز اور غیر معروف شاعر زین کے لیے: ”روشنی بنانے والا شاعر“
وہ جملے یہاں لکھنے لائق نہیں جو انھوں نے کمنٹس کرنے والوں کے لیے لکھے ہیں۔ ان کی فیس بک وال پہ ایسی پوسٹیں کثرت سے ملیں گی جہاں انھوں نے اپنی تعریف کرنے والے غیر معروف اور کم معروف لوگوں کی شان میں قصیدے لکھ کر لگائے ہیں۔ کیسا شدید رد عمل ہے۔

ہر پوسٹ پہ اپنی تصویر لگانا، دوسروں کے مقابل اپنے اشعار لگانا اور آپ اپنے گن گانا اور ایسے کئی اشارے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خود کو منوانے پہ بہ ضد ہیں کہ بھئی مان لو میں اس عہد کا سب سے بڑا شاعر ہوں۔

لوگوں کے کمنٹس فرحت عباس شاہ کی عزت کے پرزے اڑا رہے ہیں ان کے چاہنے والے بھی ناگواریت کا اظہار کر رہے ہیں۔ بات گالم گلوچ تک پہنچ چکی ہے۔ سلینگ کا بھرپور استعمال ہو رہا ہے اور شاہ صاحب اس میں پیش پیش ہیں۔

فرحت عباس شاہ تفاخر سے اپنے مشاعرے کی ویڈیوز لگا رہے ہیں اور تحقیر آمیز الفاظ کے ساتھ جون ایلیا کی سفارشات۔

جامعات اور جامعات سے باہر بیٹھے اہل علم/محققین کو چاہیے کہ وہ فرحت عباس شاہ کے کلام کا جدید تنقیدی معیارات پہ جائزہ لیں اور ان کی قدر کا تعین کریں۔ تاکہ اگر فرحت عباس شاہ کی حق تلفی ہوئی ہے یا معاشرے نے ان کی ناقدری کی ہے تو اس کا ازالہ ممکن ہو سکے۔

فرحت عباس شاہ کو چاہیے کہ وہ جن شاعروں کو بے نقد سنا رہے ہیں ان کے کلام پہ علمی زبان (تنقیدی و تحقیقی زبان) میں تنقید کریں۔ اس سے نہ صرف ان کا موقف سامنے آئے گا بلکہ یہ علم و ادب کی ایک بڑی خدمت ہو گی اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ناقدین کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔ مزید یہ کہ اس سے از سر نو شعرا کے مراتب کا تعین ہو سکے گا۔

فرحت عباس شاہ علم و ادب کے بڑے ہیں انھوں نے اس میدان میں ایک عمر وقف کی ہے انھیں جامعات اور دیگر علمی و ادبی اداروں پر جو اعتراضات ہیں ان اعتراضات کو علمی زبان میں تحریر میں لائیں تاکہ انھیں سنجیدہ لیا جائے اور اداروں کی بہتری کی کوشش کی جائے۔ یہ ایک پسماندہ قوم کی بڑی خدمت ہو گی۔

عوامی سطح سے بھی نیچے آ کے سوشل میڈیا پر گالم گلوچ کرنا فرحت عباس شاہ کے شایان شان نہیں۔ شہرت برقرار نہیں بھی رہتی وقار تو برقرار رکھنا چاہیے (اس ضمن میں وصی شاہ ہیں۔ وہ قابل داد ہے) فرحت عباس شاہ کو توقف کرنے اور معاملے کی نوعیت سمجھنے کی ضرورت ہے۔

نئی نسل کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فن کار حساس ہوتا ہے۔ اس کی حساسیت کا خیال رکھا جائے۔ اس کے رویے کا تمسخر اڑانے اور تماشا بنانے کی بجائے اس مسئلے تک پہنچا جائے جس کی وہ نشان دہی کرنا چاہ رہا ہے۔

ان نفسیاتی مسائل کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو کسی فن کار کی حق تلفی، ناقدری، شہرت کے چھن جانے کے خوف یا اس نوعیت کے دوسرے عوامل کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔

مجھے مناؤ نہیں میرا مسئلہ سمجھو
خفا نہیں میں پریشان ہوں زمانے سے
(لیاقت علی عاصم)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments