انتخابات کے التوا کا معاملہ: ’کیا کوئی تیسرا راستہ نکل سکتا ہے، مائی لارڈ؟‘


 

پاکستان

کم و بیش ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسی جج، اور وہ بھی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، کو جذباتی ہوتے دیکھا یا سنا گیا ہو۔ سپریم کورٹ میں پچھلے چند روز سے جاری الیکشن کے التوا کے کیس کی سماعت کے دوران یہ بھی دیکھنے اور سننے کو مل گیا۔

وکلا، صحافیوں اور سیاستدانوں سے بھرے کمرہ عدالت میں ایک روز پہلے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی آواز اچانک تب لرزی جب وہ اہم عہدوں پر تعینات لوگوں کے ہاتھوں عدلیہ کے متاثر ہونے اور آڈیو لیک کی بنیاد پر نشانہ بننے کا تذکرہ کررہے تھے۔

انھوں نے کہا کہ ’میرے ججوں کے بارے میں بات کریں گے تو میرا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا بھی دل ہے، میرے بھی جذبات ہیں۔ میں نے آج تک جو کچھ کیا آئین اور قانون کے مطابق کیا۔‘

پھر ان کی آواز لرز اٹھی اور چند سیکنڈ کے لیے عدالت میں موجود سب لوگوں کو لگا کہ شاید ان سے کوئی غلطی ہوئی ہے سننے میں۔

سب نے ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر اس بات کی تسلی کی کیا واقعی چیف جسٹس آبدیدہ ہوئے۔ اس بات پر زیادہ تر لوگوں کو لگا کہ وہ اپنے ریمارکس کے ذریعے اپنا مؤقف پیش کر رہے ہیں جس پر انھیں اور اعلیٰ عدلیہ کو دو روز تک شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ تنازع ایک روز پہلے 30 مارچ کو اس وقت شروع ہوا تھا جب سماعت شروع ہوتے ہی جسٹس امین الدین نے بنچ کا حصہ بننے سے معذرت کرلی۔

اس معذرت کی وجہ بنا ایک روز پہلے شام کے وقت جسٹس قاضی فائز عیسی کی جانب سے دیا گیا ایک فیصلہ جس میں انھوں نے چیف جسٹس کی جانب سے بنائے گئے خصوصی بنچ اور 3-184 کا سیکشن غیر ضروری طور پر استعمال کرنے پر اعتراض کیا۔

جسٹس امین الدین کی معذرت کے بعد پورا دن ’بنچ میں دراڑ‘ پڑنے کی خبریں سننے کو ملتی رہیں۔ اور یہ بھی کہ ’کیسے جسٹس قاضی فائز عیسی بنچ کا حصہ نہ ہونے کے باوجود بنچ پر حاوی پڑگئے۔‘

ان سب باتوں کے دوران کئی وکلا عدالت کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر بھی تنقید کرتے رہے۔

اب سوالات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا: ’کیا یہی بنچ دوبارہ سماعت کرے گا؟‘ ’کیا ایک اور جج کوبنچ کا حصہ بنایا جائے گا؟‘ ’کیا بات تین دو سے آگے نکل گئی ہے؟‘ وغیرہ، وغیرہ۔

صحافی کبھی کمرۂ عدالت، کبھی نیچے دالان اور کبھی کونے میں فون پر سرگوشی کرنے میں مصرف ہوگئے۔ میرے جیسے لوگ واپس کمرہ عدالت میں جابیٹھے، جنھیں لگا کہ جو بھی خبر مل سکتی ہے وہ یہیں سے مل سکتی ہے۔

اس وقت تک پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما پورا دن انتظار کر کے جا چکے تھے جبکہ حکومتی وکلا بیٹھے ہوئے تھے۔

کرتے کرتے جب چار بجے تب ایک نائب قاصد فائل لے کر عدالت میں داخل ہوا جس کو سب متجسس افراد نے گھیرے میں لے لیا۔

کسی طرح جب وہ روسٹرم پر پہنچے تو انھوں نے کورٹ آرڈر پڑھ کر سنایا کہ کل بنچ دوبارہ سماعت کرے گا لیکن اس بنچ میں جسٹس امین الدین شامل نہیں ہوں گے۔ سب اطمینان کر کے چلے گئے کہ کل یہی بنچ سماعت کرے گا۔

دوسرے روز (31 مارچ کو) جب ساڑھے گیارہ بجے سماعت شروع ہوئی تب ایک دو سیکنڈ کی خاموشی کے بعد جسٹس جمال مندوخیل نے بھی بنچ کا حصہ رہنے سے معذرت کر لی۔

جو صحافی مشکل سے اپنا فون باہر جمع کرواکر کمرہ عدالت میں پہنچے تھے انھیں ایک بار پھر باہر بھاگنا پڑا تاکہ جلد از جلد یہ بات اپنے اپنے اداروں کو بتا دیں کہ ’بنچ پھر ٹوٹ گیا ہے۔‘ اور کچھ یہ سوال بھی پوچھتے رہے کہ ’یہ بنچ کب تک ٹوٹتا رہے گا؟ صرف تین ججز تو رہ گئے ہیں۔‘

جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے معذرت سننے کے بعد ایک روز پہلے دیکھی ہوئی بات یاد آئی۔

30 مارچ کو جب جسٹس امین الدین نے معذرت کی تب جسٹس مندوخیل بھی کچھ کہنا چاہ رہے تھے۔ لیکن کیونکہ تمام تر ججز اٹھ کر باہر کی جانب جا رہے تھے تو وہ بھی چلے گئے۔ ایسا عین ممکن تھا کہ جسٹس مندوخیل کی جانب سے معذرت ایک روز پہلے ہی آجاتی۔

لیکن خیر، یہ سب ایک دن بعد ہی ہونا تھا شاید۔

اب بتایا گیا کہ سماعت دو بجے جمعے کی نماز کے بعد شروع ہوگی۔

اب جب وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی، تب سب کی امیدیں کچھ زیادہ ہی بڑھ چکی تھیں کہ اب تو ’ڈرامہ‘ ہو گا۔

یہاں یہ بات بھی واضح کرنا لازمی ہے کہ زیادہ تر ’ڈرامہ‘ بجائے الفاظ استعمال کیے ہوئے صرف فیصلوں اور معذرتوں کے ذریعے دیکھنے میں آ رہا تھا۔ اور کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان سب باتوں کے دوران چیف جسٹس جذباتی ہو جائیں گے۔

جہاں چند لوگ تھوڑی بہت حیرانی کا شکار تھے وہیں الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر چپ چاپ یہ تمام تر مناظر دیکھ رہے تھے۔

موقع ملنے پر انھوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ’الیکشن کمیشن کا مؤقف پوری طرح نہیں سنا گیا۔ میں کئی روز سے آ رہا ہوں اور کئی گھنٹوں بیٹھنے کے بعد صرف تین منٹ بولنے کا موقع ملتا ہے۔ اگر آپ جذباتی ہوسکتے ہیں تو ہم بھی ہوسکتے ہیں۔‘

چیف جسٹس بندیال جو اب تک اپنے جذبات پر قابو پاچکے تھے، انھوں نے عرفان قادر سے کہا کہ آپ کو بھی سنیں گے، آپ نے آخر تین منٹ کا کہا ہے۔

اس کے بعد انھوں نے اٹارنی جنرل منصور عثمان کو اپنی بات مکمل کرنے کا کہا۔

’ادھر، ادھر کی باتوں میں، میں جذباتی ہو گیا‘، چیف جسٹس نے معاملات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

چیف جسٹس بیشک جذباتی ہوئے ہوں لیکن ان کے دونوں جانب بیٹھے جسٹس مینب اختر اور جسٹس اعجاز الاحسن جذبات سے عاری سوالات پر سوالات کر رہے تھے۔

اور کچھ دیر میں یہ واضح ہوچکا تھا کہ الیکشن تو ہوں گے۔ وہ بیشک صدر کی طرف سے دی گئی تاریخ پر نہ ہوں۔ لیکن عدالت کی جانب تاریخ دی جائے گی۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان تین روز میں دورانِ سماعت کئی بار چیف جسٹس نے حکومتی رہنماؤں اور پی ٹی آئی کے ارکان سے کہا کہ ’یا تو آپ آپس میں فیصلہ کرلیں یا پھر ہم آپ کو فیصلہ کر کے دیں گے۔‘

اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر عدالت کوئی فیصلہ کرتی ہے، تو کیا اس پر عمل ہو گا؟

جیسا کہ پاکستان بار کونسل کے چیئرمین حسن رضا پاشا نے 31 مارچ کی سماعت شروع ہوتے ہی کہا کہ ’معاملات خاصے سیاسی ہوچکے ہیں مائی لارڈ، کیا کوئی تیسرا راستہ نکل سکتا ہے؟‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments