سپریم کورٹ میں دس ججوں کی بغاوت


سپریم کورٹ میں دس جج بار بار کہتے رہے کہ معاملہ پیچیدہ ہے، فل کورٹ بٹھا کر اسے طے کیا جائے۔ سندھ ہائی کورٹ نے بھی باضابطہ طور پر چیف جسٹس کو یہ مشورہ دیا۔ لیکن چیف جسٹس پراعتماد تھے کہ وہ بہت طاقتور ہیں اور ان سب سے نمٹ لیں گے۔ لیکن پھر صرف دو جج ان کے ساتھ کھڑے دکھائی دیے اور دس ججوں نے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر دی۔ چیف جسٹس کے پھر فل کورٹ بلانے کی کوشش کرتے رہے لیکن ناکام رہے۔

سنہ 1990 میں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو ایلیویٹ کر کے سپریم کورٹ کا جج بنایا گیا۔ جب 1994 میں پاکستان کے چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ریٹائر ہوئے تو سینیارٹی کے مطابق جسٹس سعد سعود جان کو چیف جسٹس بننا چاہیے تھا۔ لیکن وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے دو سینئیر ججوں سعود سعود جان اور اجمل میاں کو نظرانداز کرتے ہوئے سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا دیا۔

اس کا پس منظر یہ بتایا جاتا ہے کہ جب 1993 میں نواز شریف کی برطرفی کا مقدمہ سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوا، تو گیارہ ججوں پر مشتمل بینچ نے صدر غلام اسحاق خان کے اسمبلی برطرف کر دینے کے حکم کے خلاف مقدمہ سنا۔ دس ججوں نے نواز شریف کی حکومت بحال کرنے کا حکم دیا۔ صرف ایک جج نے اس حکم سے اختلاف کیا۔ اس جج کا نام سجاد علی شاہ تھا۔ یوں غالباً بے نظیر یہ سمجھیں کہ وہ ان کے حامی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے گڑھ صوبہ سندھ کے ہائی کورٹ سے آنا بھی ایک پلس پوائنٹ تھا۔

مگر بے نظیر بھٹو کو اس وقت ضرور ایک صدمہ پہنچا ہو گا جب ان کی جماعت کے قدیم کارکن صدر فاروق لغاری نے ان کی حکومت کو 5 نومبر 1996 کے دن کرپشن کے الزامات پر برطرف کیا تو ان کی حکومت کی بحالی کا مقدمہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت میں پیش ہوا۔ چیف جسٹس نے پانچ دوسرے ججوں کے ساتھ مل کر حکومت کی بحالی کے خلاف چھے ایک کی اکثریت سے فیصلہ دیا۔

یوں الیکشن ہوئے اور فروری 1997 میں نواز شریف دوبارہ وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔

اپریل 1997 میں بے نظیر نے نواز شریف سے تعاون کرتے ہوئے تیرہویں آئینی ترمیم کی حمایت کی اور اسمبلی نے متفقہ طور پر اس ترمیم کو منظور کر لیا۔ اس کے تحت صدر سے اس 258 ٹو بی کا اختیار واپس لے لیا گیا جس کو استعمال کرتے ہوئے صدر نے نواز شریف کی ایک اور بے نظیر بھٹو کی دو حکومتیں برطرف کی تھیں۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان تناؤ بڑھتا گیا۔ اگست میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے نواز شریف کی طاقت کے گڑھ پنجاب میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے خلاف سو موٹو نوٹس لیا۔ نواز شریف کی حکومت نے اسے ایگزیکٹیو کے اختیار میں مداخلت سمجھا۔

تناؤ اس وقت مزید بڑھ گیا جب حکومت نے دہشت گردی کے خلاف ایک سخت قانون منظور کرتے ہوئے سمری ٹرائل کے لیے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کر دیں۔ اعلیٰ عدلیہ ان عدالتوں کے قیام کی مخالف تھی۔

چیف جسٹس نے حکومت کو خبردار کیا کہ یہ سمری ٹرائل کورٹ ایک متوازی نظام ہیں اور فیئر ٹرائل کی شرط پوری نہیں کرتے۔ حکومت نے یہ کہتے ہوئے ان کا دفاع کیا کہ یہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ضروری ہیں۔

اس قانون کی منظوری کے چند دن بعد سترہ اگست کو چیف جسٹس نے حکومت کو خط لکھا اور ہائی کورٹس کے پانچ سینئیر ترین ججوں کی فہرست حکومت کو دیتے ہوئے انہیں سپریم کورٹ میں لانے کا کہا۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی پانچ اسامیاں خالی تھیں جن پر یہ تقرریاں کی جانی تھیں۔ چیف جسٹس نے زور دیا کہ مقدمات کے بڑھتے ہوئے بوجھ کو ختم کرنے کے لیے یہ تقرریاں لازم ہیں۔

حکومت نے مقررہ ایک مہینہ گزرنے کے باوجود اس خط پر ردعمل نہیں دیا۔ بعض رپورٹس کے مطابق حکومت کو ان پانچ میں سے دو ججوں کے ناموں پر تحفظات تھے۔ لیکن چیف جسٹس نے لسٹ پر نظرثانی کرنے سے انکار کر دیا اور زور دیا کہ حکومت ان پانچ ہی کی فوراً تقرری کرے۔

جواب میں حکومت نے 21 اگست کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد 17 سے کم کر کے 12 کر دی۔ سپریم کورٹ میں پہلے ہی 12 جج موجود تھے۔

ستمبر کے اوائل میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس کمی کو چیلنج کیا اور سپریم کورٹ نے مقدمہ سماعت کے لیے منظور کر لیا۔ سپریم کورٹ نے اس نوٹیفکیشن کو معطل کر دیا۔

نواز شریف نے 24 ستمبر کو نیویارک میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس ایشو کو پارلیمنٹ میں لے کر آئے گی کیونکہ آئین کے تحت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد کا تعین کرنا پارلیمنٹ کا اختیار ہے۔

ایسے میں سپریم کورٹ کے اندر چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کی پہلی چنگاری پھوٹی۔ نو اکتوبر 1997 کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب روانہ ہوئے۔ اگلے دن قائم مقام چیف جسٹس اجمل میاں نے یہ کہا کہ پانچ ججوں کی سپریم کورٹ میں تقرری کے معاملے میں ان سے مشورہ نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کے آٹھ دیگر ججوں نے انہیں فل کورٹ کی میٹنگ بلا کر یہ معاملہ ڈسکس کرنے کا کہا۔ قائم مقام چیف جسٹس اجمل میاں نے یہ میٹنگ 13 تاریخ کو بلانے کا نوٹس دے دیا۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ 13 تاریخ کو واپس پاکستان پہنچے اور فل کورٹ میٹنگ منسوخ کر دی۔ انہوں نے باغی ججوں کو کوئٹہ، کراچی اور لاہور بھیج دیا تاکہ ان کی متحدہ طاقت توڑ کر بغاوت پر قابو پایا جا سکے۔

سترہ اکتوبر کو سپریم کورٹ کے سات ججوں نے چیف جسٹس سے فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا جسے چیف جسٹس نے مسترد کر دیا۔

بیس اکتوبر کو ایک غیر معمولی اور بے نظیر خط پانچ ججوں نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو لکھا جس میں ان کی بحیثیت چیف جسٹس تقرری کو چیلنج کیا گیا۔ یہ خط پریس کو بھی ریلیز کر دیا گیا۔

پچیس اکتوبر کو نوابزادہ نصراللہ خان نے چودھویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ یہ وہی ترمیم ہے جس کے ذریعے ہارس ٹریڈنگ کو روکنے کی خاطر آرٹیکل 63 اے کو آئین کا حصہ بنایا گیا تھا۔

انتیس اکتوبر کو سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے چودھویں آئینی ترمیم کو معطل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔

واضح رہے کہ دستور پاکستان کا آرٹیکل 239 پانچ یہ کہتا ہے کہ ”دستور میں کسی ترمیم پر کسی عدالت میں کسی بنا پر چاہے جو کچھ ہو، اعتراض نہیں کیا جائے گا۔“

آرٹیکل 239 چھے اس کی کلیدی حیثیت واضح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”ازالہ شک کے لیے، بذریعہ ہذا قرار دیا جاتا ہے کہ دستور کے احکام میں سے کسی میں ترمیم کرنے کے پارلیمنٹ کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے“ ۔

دستور میں موجود ان نہایت واضح الفاظ کے باوجود پاکستان کی سپریم کورٹ میں مختلف آئینی ترامیم کو ”آئین کے بنیادی ڈھانچے“ کی ڈاکٹرائن کے نام پر چیلنج، معطل اور منسوخ کیا جاتا رہا ہے۔

29 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے چودھویں آئینی ترمیم معطل کی تو اسی دن ایک مشترکہ پارلیمانی گروپ نے اعلیٰ عدلیہ کے خلاف بیانات کی بوچھاڑ کر دی۔ وزیراعظم نواز شریف نے اس معطلی کو غیر آئینی قرار دیا اور اسمبلی کے فلور پر کئی ارکان نے چیف جسٹس کے اس اقدام کی بہت سخت الفاظ میں مذمت کی۔

تیس اکتوبر کو ہی وزیراعظم نے الزام لگایا کہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس اس ترمیم کے خلاف فیصلہ دے کر ہارس ٹریڈنگ کی حمایت کر رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے اسے توہین عدالت قرار دیا۔

اسی دن سپریم کورٹ کے ایک بینچ نے آرٹیکل 190 کے تحت صدر پاکستان فاروق لغاری سے درخواست کی کہ وہ سپریم کورٹ میں پانچ ججوں کی تقرری کریں۔ دستور کا آرٹیکل 190 کہتا ہے کہ ”پورے پاکستان کی عاملہ و عدلیہ کے تمام حکام، عدالت عظمیٰ کی معانت کریں گے“ ۔

صدر فاروق لغاری نے حکومت کو خبردار کیا کہ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے پسپائی اختیار کی اور پانچ ججوں کی تقرری کرنے پر راضی ہو گئے۔

اکتیس اکتوبر کو وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ حکومت نے وسیع تر ملکی مفاد اور اس کے مستقبل کی خاطر پانچ ججوں کی تقرری سے متعلق چیف جسٹس کی سفارشات پر عمل کر دیا ہے۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ میرا مشن مجھے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ میں محاذ آرائی میں پڑوں۔ میں ایک خوشحال پاکستان دیکھنے کا متمنی ہوں۔ مجھے میرا کام کرنے دیا جائے۔ مجھے مستقبل کے لیے منصوبے بنانے دیں۔ مجھے معیشت کو ٹھیک ٹریک پر ڈالنے دیں۔ میں انا اور خواہشات کی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔

اکتیس اکتوبر ہی کو سپریم کورٹ میں تیرہویں آئینی ترمیم کے خلاف ایک پیٹیشن دائر کر دی گئی تاکہ 258 ٹو بی کو بحال کر کے صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار واپس دلوایا جائے۔

نومبر کا مہینہ چڑھتے ہی چیف جسٹس اور وزیراعظم کے درمیان جنگ میں یکلخت بہت تیزی آ گئی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments