جرمنی میں ”Skilledلیبر امیگریشن قانون“ کی منظوری
جرمنی جیسے بڑی معاشی و اقتصادی طاقت کو کئی سال سے ہنرمند افرادی قوت کی قلت کا سامنا ہے۔ جرمنی نے 2015 اور پھر 2022 میں لاکھوں مہاجرین کو جرمنی میں آباد کیا، تاہم ابھی تک ہنر مند اور لیبر افرادی قوت کی کمی کا مسئلہ حل نہ ہوسکا۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں۔ ان میں ایک وجہ جرمنی کے اندر نوجوانوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد ہے۔ گزشتہ سال کی دفتر شماریات کی رپورٹ کے مطابق جرمنی کی کل آبادی میں پندرہ سے چوبیس سال تک کے نوجوانوں کی تعداد محض دس فیصد رہ گئی ہے۔
دفتر شماریات کے مطابق ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نوجوانوں کی تعداد سب سے نچلی سطح کو پہنچی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جرمنی میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ 1960 کی دہائی میں جنم لینے والے جرمن شہری اب ریٹائرمنٹ اور بڑھاپے کو پہنچ رہے ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر جرمنی میں درجنوں اہم شعبہ جات کو Skilled افرادی قوت کی شدید ترین کمی کا سامنا ہے اور سالانہ چار لاکھ ہنرمند افرادی قوت کی ضرورت ہے۔
ایسے شعبہ جات میں نرسنگ، آئی ٹی، دھات، الیکٹریکل انجینئرنگ، ہاتھ سے کام کرنے والے ماہرین و دیگر شعبہ جات شامل ہیں۔ بہت سے ادارے وفاق کو اس مسئلہ پر تحریری طور پر اپنی بگڑتی معاشی و اقتصادی صورتحال سے آگاہ کر چکے ہیں۔ جرمنی نے اپنی معاشی اور اقتصادی ترقی، طاقت کو برقرار رکھنے اور عوامی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنے قوانین میں تبدیلی کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور غیر ملکی ہنر مند افراد کی جرمنی میں آبادی کاری کے لئے ایک قانون کی منظوری دی ہے جسے Skilled لیبر امیگریشن قانون کا نام دیا گیا ہے۔
اس نئے قانون کے مطابق سالانہ ساٹھ ہزار یورپی یونین کے باہر ممالک کے ہنر مند افراد جرمنی میں داخل ہو سکیں گے۔ یاد رہے کہ آج کل جرمنی میں تین سیاسی جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت برسراقتدار ہے۔ ان جماعتوں میں سوشل ڈیموکریٹک پارٹی، فری ڈیموکریٹک پارٹی اور گرین پارٹی شامل ہیں۔ اس اتحاد نے دسمبر 2021 میں اقتدار سنبھالا تھا۔ اقتدار سنبھالنے سے پہلے تینوں جماعتوں کی مہینوں تک کی مشاورت ہوئی تھی اور قومی و عوامی امور پر ”اتفاق رائے“ پیدا کیا گیا تھا کہ ان مسائل کو حل کرنا ہو گا۔
ایسے امور میں ایک اہم مسئلہ جرمنی میں ہنر مند افرادی قوت کی کمی کو دور کرنا بھی شامل تھا۔ جنوری 2022 میں اتحادی جماعتوں کے نمائندوں نے ہنر مند افرادی قوت کی اس کمی کو دور کرنے کے لئے متعدد تجاویز پر غور و فکر کیا تھا اور طے ہوا تھا کہ 2023 کے شروع میں ان پر عمل درآمد ہو گا۔ اسی کی روشنی میں اب حکومت کی طرف سے گزشتہ ہفتہ اس قانون کی منظوری دی گئی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق اس نئے قانون پر عمل درآمد کے لئے امیگریشن قوانین میں نرمی کرنے کا حتمی فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ Skilledلیبر امیگریشن قانون میں درج ذیل تین شرائط رکھی گئیں ہیں جن پر پورا اترنا لازم ہو گا۔
1۔ امیگریشن کے لئے جرمنی میں تسلیم شدہ پیشہ وارانہ یا یونیورسٹی ڈگری اور ملازمت کا معاہدہ ( جاب کانٹریکٹ) پاس ہونا چاہیے۔ 2۔ ڈگری یا پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ ساتھ متعلقہ فیلڈ میں کم از کم دو سال کا تجربہ ہونا لازم ہے۔
3۔ ایسے افراد جن کے پاس چانس کارٹے (Opportunity Card) پاس ہو۔ یہ ان افراد کے لئے حکومت نے جاری کر رکھا ہے جن کے پاس جرمنی میں نوکری نہ ہو لیکن وہ جرمنی میں رہ کر نوکری تلاش کر سکتے ہیں۔ ”چانس کارٹے“ کو گرین کارڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پوائنٹس پر مبنی ایک نظام کے تابع ہے جس میں گرین کارڈ ہولڈر کے لئے ڈگری قابلیت کے علاوہ جرمن زبان بولنے کی اہلیت، جرمنی سے تعلق رکھنا اور زیادہ سے زیادہ عمر 35 کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
درج بالا شرائط ہیں جس کے تحت غیر یورپین جرمنی میں ملازمت کے لئے جرمنی میں داخل ہوسکتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے جرمنی میں اچھے مواقع موجود ہیں۔ نوجوان محنت کرنے کی عادی ہوں اور شارٹ ازم پر بالکل بھروسا نہ کرتے ہوں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ جرمن زبان پر دسترس ہو۔ اس حوالے سے مزید معلومات کے لئے درج ذیل لنک پر کلک کریں
جرمنی کے معاشرے میں بھی بہت تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں۔ کئی دہائیوں پہلے والا ماحول نہیں رہا لیکن پھر بھی جرمن حکومت اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مذہب و رنگ نسل قوم سے بالا تر ہو کر جرمنی کی اقتصادی طاقت کو برقرار رکھنے کے لئے ہر وہ قدم اٹھا رہی ہے جس سے اس کی معاشی و اقتصادی بالادستی برقرار رہ سکے۔ اس حوالے سے
جرمن کی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے ایک اہم بات کہی ہے جو قابل غور ہے۔ انہوں نے کہا کہ ”جرمن معاشرے میں کھلے ذہن کا رویہ غیر ملکی لوگوں کا استقبال کرنے والا کلچر بہت اہم ہے تاکہ ہنر مند افراد اور ان کے ساتھ آنے والے خاندان دونوں یہاں راحت محسوس کریں“ ۔ یقیناً ایسا زندہ اور بڑی قوموں کا ہی شیوہ ہوا کرتا ہے اور جرمن معاشرہ اس میں سب سے آگے ہے۔
- بھارتی انتخابات کا ایک ”آزادانہ“ جائزہ - 14/06/2024
- خود نوشت، ”ریاض نامہ“ پر ایک نظر - 24/05/2024
- آزادی صحافت کا عالمی دن - 06/05/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).