کلاس آف سیون: آسٹریلین شو کی کہانی


ویسے تو عمر کے ہر حصے کے تجربات، احساسات، نظریات اور جذبات دلچسپ اور عجیب ہوتے ہیں لیکن ٹین ایج اور سکول لائف کی زندگی ایک ایسی تجربہ گاہ ہے جہاں باقی کی زندگی کے لیے یہ تجربات، احساسات، نظریات اور جذبات اپنی جڑیں مضبوط کرتے ہیں اور آپ کا آپ بناتے ہیں۔

سماج اور سماجی برائیوں سے پہلا تعارف، رشتے کیا ہوتے ہیں اور انہیں کیسے نبھایا جاتا ہے، دھوکے دینے کے کون سے طریقے خود کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتے اور زندگی کے ڈراؤنے خوابوں سے جان چھڑائے جانی جیسی تکنیک سمیت یہ سب کچھ عمر کے اسی ٹین ایج اور سکول لائف میں سیکھنے کو ملتا ہے لیکن کیا ہو اگر اس سکول لائف سے ملنے والے کسی سبق کو آپ زندگی بھر بھلا نہ پائیں یا کوئی ایسا پچھتاوا اپنے ساتھ باندھ لیں جو عمر کے آخری حصے میں بھی آپ کی جان نہ چھوڑے اور آپ موت سے زیادہ اپنی زندگی کے ابتدائی حصے کے کتھارسس میں خود کو کسی ان چاہے کھیل میں دھکیل دیں۔

”کلاس آف سیون“ اسی کھیل کی کہانی ہے۔ سکول لائف کی لڑکیوں نے 15 سال بعد اپنے پہلے گرلز سکول میں پہلی ری یونین پارٹی کا اہتمام کیا ہے جس میں سبھی پرانی دوستوں کو آنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ویسے تو اتنے سال گزرنے کے بعد ہر کوئی اپنی، اپنی لائف میں خوش اور مصروف ہے لیکن پھر بھی سب اس ری یونین پارٹی کا حصہ بننا چاہتے ہیں کیونکہ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ ان کے کلاس میٹ اب کیا کر رہے ہیں اور خاص کر انہیں اپنے، اپنے سکول لائف کے بہترین دوست کا حال جاننے کی زیادہ جستجو ہے جس کے ساتھ انہوں نے کبھی اپنا سب کچھ شیئر کیا لیکن پھر سکول کے بعد رابطہ ختم ہو گیا۔

کہانی اس ری یونین پارٹی سے پہلے اپنے ایک مرکزی کردار ’زوئی‘ کے گرد گھومتی ہے جو ایک ٹی وی شو میں خود پر بیتنے والے ایک واقعے کو لے کر سوشل میڈیا کے غبار میں بدنام ہو گئی ہے اور پچھلے چھ مہینوں سے تن تنہا، دنیا سے روپوش ایک ہل اسٹیشن پر اپنا پرسنل ٹائم انجوائے کر رہی ہے۔ ’زوئی‘ بظاہر خوش مزاج، ملنسار اور سمجھدار لڑکی ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اس کے بارے میں کیا سوچتا ہے لیکن اس میں ایک فیمنسٹ حساسیت بھی چھپی ہے جو بعض دفعہ غصے اور تھوڑی ابنارمیلٹی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

وہ ری یونین میں نہیں جانا چاہتی کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہاں موجود اس کے کلاس فیلوز تک بھی اس کے ٹی وی شو والی بات پہنچ چکی ہوگی اور وہ سب اس کا اسی طرح مذاق اڑائیں گے جس طرح سوشل میڈیا صارفین نے اس پر میمز بنائی ہیں لیکن تبھی اس ہل اسٹیشن پر کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ’زوئی‘ کے دل میں ایک ڈر گھر جاتا ہے اور اسے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی گاڑی اپنے سکول کی جانب موڑنا پڑتی ہے جو وہاں سے قریب ہے اور جہاں پارٹی گرلز اس کا انتظار کر رہی ہیں۔

یہاں کہانی کا دوسرا مرکزی کردار ’امیلیا‘ زوئی کی سکول لائف میں بہترین دوست رہی ہے۔ وہ دونوں سکول میں اچھی دوست تھیں لیکن جس دن امیلیا نے سکول کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گڈ بائے کہا اس دن زوئی نے امیلیا کو کچھ خاص وقت نہیں دیا اور اس سے سکول کے فائنل امتحانات سے پہلے سکول چھوڑنے کی وجہ بھی نہیں پوچھی جس کا امیلیا کو رنج ہے لہذا سکول کے بعد اس نے کبھی دوبارہ زوئی سے رابطہ نہیں کیا۔ یہ ری یونین جہاں سب کو ملنے ملانے کا موقع فراہم کر رہی ہے وہاں امیلیا کے دل میں یہ بات ہے کہ وہ ایک دفعہ زوئی سے مل کر اسے اس کی غلطی کا احساس دلائے لہذا امیلیا بھی پارٹی میں موجود ہے اور شدت سے زوئی کی راہ دیکھ رہی ہے۔ امیلیا حقیت پسند، سمجھدار اور باشعور لڑکی ہے لیکن سکول لائف کے ایک حادثے نے اس کی زندگی بدل دی ہے اور وہ اینٹی ڈپریشن میڈیسن کی عادی ہے تاہم وہ اپنے ڈپریشن کو کسی بھی طور ظاہر ہونے نہیں دیتی۔ اسے اچھے سے معلوم ہے کہ اپنے اندر کے احساسات کو کس طرح سے قابو میں رکھنا ہے۔

پارٹی چل رہی ہے اور ہر کوئی اپنے اپنے انداز میں اس میں مگن ہے اور تبھی زوئی پارٹی ہال میں انٹر ہوتی ہے جہاں سب اس پے سوالات کی بوچھاڑ کر دیتے ہیں جبکہ امیلیا زوئی کو دیکھ کر خوش اور حیرت زدہ ہے۔ خوش اس لیے کہ بچپن کی دوست سے وہ آج اتنے سالوں بعد مل رہی ہے اور حیرت اس بات پے کہ زوئی آج بھی ویسی کی ویسی ہے اور بالکل نہیں بدلی۔ امیلیا اور زوئی سالوں بعد ملتے ہیں لیکن زوئی کی جانب سے سکول چھوڑنے اور رابطہ نہ کرنے والے طعنے سن کر امیلیا ایک دفعہ پھر زوئی سے دلبرداشتہ ہو جاتی ہے اور پارٹی ادھوری چھوڑ کر گھر واپسی کے لیے نکلتی ہے لیکن تبھی سکول بلڈنگ کے باہر کچھ ایسا ہو چکا ہے جو شاید یہاں موجود ان سب کی زندگیاں بدل دے گا۔

ایک سمندری طوفان نے آدھی یا شاید پوری دنیا کو غرق کر دیا ہے اور اب شاید دنیا پر بسنے والے آخری لوگ صرف یہ لڑکیاں ہیں۔ لڑکیوں کا سکول کیونکہ ایک اونچے علاقے کی اونچی پہاڑی پر موجود ہے لہذا اب یہ سکول بھی ایک آئس لینڈ کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کے اردگرد تاحد نگاہ صرف پانی ہی پانی ہے اور سبھی لڑکیاں دنیا سے منقطع ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں قید ہو گئی ہیں۔ زبانیں کنگ اور آنکھیں حیرت سے پھٹی ہیں۔

اس حقیت کو تسلیم کرنا تھوڑا مشکل ہے کہ اب ان لڑکیوں کو اپنی باقی کی زندگی اسی پرانے سکول میں زندہ رہنے کی جنگ لڑتے ہوئے گزارنی ہے لیکن ان کی سکول میٹ ’ساسکا‘ یہ بیڑہ اٹھاتی ہے اور انہیں سکول یونین قوانین کے تحت متحد کرتے ہوئے مختلف ٹیموں میں تقسیم کر کے مختلف ٹاسک سونپتی ہے جس سے وہ یہاں زندہ رہ سکیں۔ ساسکا اپنی سکول لائف میں ایک خود غرض، شرارتی اور شرپسند لڑکی رہی ہے لیکن زندگی کے حالات نے اسے بھی بدل دیا ہے وہ اب ایک بلند حوصلہ مند اور ذہین لڑکی ہے جو اپنی صلاحیتیں دوسروں کی بھلائی کے لیے خرچ کرتی ہے۔

ساسکا کے اس لائف سیونگ مشن میں زوئی اور امیلیا بھی اس کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ باقیوں سے ذرا زیادہ حقیقت پسند ہیں لیکن امیلیا کو زوئی کا ساتھ پسند نہیں اور وہ اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی ہے۔ اسے اب بھی لگتا ہے کہ زوئی کو اپنی اچھی دوست سمجھنا ہمیشہ سے اس کی غلط فہمی تھی۔ یہاں سے شروع ہوتی ہے زوئی، امیلیا، ساسکا اور باقی کی لڑکیوں کی اس سکول اور اس سے جڑی اصل نفسیات کی کہانی جہاں سب زندگی کی جنگ کے ساتھ ساتھ اپنے، اپنے سکول لائف کے کتھارسس کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔

’کلاس آف سیون‘ کامیڈی کے انداز میں مختلف جذبات کی ترجمانی کرتی ایسے کرداروں کی کہانی ہے جن کی زندگی کے سبھی دکھ، درد ان کی ٹین ایج سے جڑے ہیں۔ بغیر کسی مرد کردار کے اس کہانی کو فیمنسٹ تخلیق کا نام دیا جاسکتا ہے کیونکہ سیریز کے سبھی کرداروں سمیت اس کی ڈائریکٹر اور مصنفہ بھی ایک خاتون ہی ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ اس کہانی میں مرد کہیں ڈسکس ہی نہیں ہوا۔ ایک ہے جس کا ذکر بار، بار سننے کو ملتا ہے لیکن وہ کون ہے یہ آپ سیریز دیکھ کر ہی جان سکتے ہیں۔

یہاں ایک اور اہم بات کہ ہر کردار کے جذباتی تاثرات اور ان کی ایکٹنگ 10 / 10 ہے۔ بعض اداکار ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں ایک خاص طرح کی ایموشنل ایکٹنگ کو سنا، دیکھا اور ادا کیا ہوتا ہے لہذا ان کی اداکاری اور اس سے جڑے ایموشن کی چھاپ ملتی جلتی اور سرسری سی معلوم ہوتی ہے لیکن اس آسٹریلین شو کے کرداروں کی اصل خوبی یہ ہے کہ اگر آپ کا دکھ سماجی ہے تو اس دکھ کا الگ تاثر ہے۔ اگر انفرادی ہیں تو الگ جذبات ہیں اور اگر حادثاتی ہیں تو ان کا الگ معیار ہے یعنی آپ کو یہاں اداکاروں کی جانب سے دی جانے والی ایموشنل کامیڈی کی بھرپور ورائٹی ملے گی۔

تاہم ان 8 سیریز پر مشتمل شو کی اگر کسی منفی بات کا ذکر کیا جائے تو وہ کہانی میں فکشن اور حقیقت کا بھونڈا امتزاج ہے جس سے کہیں کہیں Believability کے مسئلے پیدا ہوتے ہیں اور کامیڈی پھیکی لگتی ہے لیکن پہلی دو اقساط کے بعد کچھ بہتری پیدا ہوتی ہے اور ناظر شو کی کہانی کو بھول کر لڑکیوں کی نفسیاتی چپقلش کو زیادہ انجوائے کرتا ہے جیسا کہ شو کی آخری قسط میں زوئی اور امیلیا خود کو ایک نئے امتحان میں ڈال کر کہانی کا رخ ہی بدل دیتے ہیں جس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس سیریز کا اگلا سیزن بھی ضرور بنے گا اور اگر ایسا ہوا تو یقیناً اس میں زوئی اور امیلیا ایک اچھے دوست بن چکے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments