میرا ادبی خواب جو شرمندہ تعبیر ہوا


مجھے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ پچھلے چھ برسوں میں ’ہم سب‘ پر میرے چھ سو کالم چھپ چکے ہیں۔ اس کے لیے میں ’ہم سب‘ کے مدیروں ’قاریوں اور ناقدوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ان کی رفاقت اور معاونت کے بغیر یہ جوئے شیر لانا ناممکن تھا۔

اس خاص موقع پر پر میں آپ کو اپنے ایک ادبی خواب کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔

میری زندگی کے بہت سے خواب جو شرمندہ تعبیر ہوئے ان میں سے ایک خواب ادبی محبت ناموں کا تھا۔ میرا خواب تھا کہ دو ادیب مل کر ایک کتاب لکھیں جو ادبی خطوط پر مشتمل ہو۔ وہ خواب کئی سالوں کے بعد اس وقت شرمندہ تعبیر ہوا جب میں نے رابعہ الربا کے ساتھ۔ کتاب

۔ درویشوں کا ڈیرا۔
لکھی۔ اس کتاب کے بیک کور پر میرا ایک خط چھپا جو کچھ ہوں ہے۔
’ خطوط کی پینٹنگ
درویش کا رتجگا کرنے والی رابعہ کو سلام

درویش نجانے کب سے یہ سوچ رہا ہے کہ رابعہ اور درویش کے خطوط کا سلسلہ ایک پینٹنگ کی صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ایسی پینٹنگ جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مختلف رنگ ابھرتے آ رہے ہیں۔ درویش نے جب ان خطوط کو غور سے پڑھا تو اسے ان میں قوس قزح کی طرح سات رنگ دکھائی دیے۔ وہ جانتا ہے کہ کچھ رنگ ایسے بھی ہیں جو اس کی نگاہ سے ابھی اوجھل ہیں

پہلا رنگ ایک مکالمے کا ہے
دوسرا رنگ آپ بیتی کا ہے
تیسرا رنگ جگ بیتی کاہے
چوتھا رنگ ادب کا ہے
پانچواں رنگ روحانیات کا ہے
چھٹا رنگ نفسیات کا ہے

ساتواں رنگ دوستی کا ہے اور یہ رنگ آہستہ آہستہ باقی رنگوں پر غالب آتا جا رہا ہے کیونکہ اس دوستی میں خلوص بھی ہے اپنائیت بھی ’عزت بھی ہے احترام بھی اور سب سے اہم بات ایک دوسرے سے کچھ سیکھنے کا عمل بھی شامل ہے۔ درویش رابعہ کی نثر سے بہت متاثر ہوا ہے۔ اس نثر میں شاعری ہے‘ روانی ہے اور دانائی ہے۔ یہ مکالمہ دو ایسے ادیب دوستوں کا مکالمہ ہے جو سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر ہیں۔

درویش کا برسوں کا خواب تھا کہ کسی رابعہ کے ساتھ ادبی خطوط کا تبادلہ کرے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ خطوط کا دامن غزل ’نظم‘ افسانے ’مقالے اور ڈرامے سے زیادہ وسیع اور کشادہ ہے کیونکہ خطوط میں شعور اور لاشعور کی رو میں بہہ کر خیالات‘ جذبات ’نظریات اور تجربات جب الفاظ میں ڈھلتے ہیں تو وہ باقی اصناف سے مختلف ہو جاتے ہیں۔

درویش کا خیال ہے کہ خطوط کو اردو ادب میں وہ مقام نہیں ملا جن کے وہ مستحق تھے۔ خطوط کو ذاتی تحریر سمجھ کر نظر انداز کیا گیا ہے۔ غالب کے خطوط کو عزت ملی لیکن وہ خطوط بھی یک طرفہ ٹریفک تھے۔ درویش خطوط کی دو طرفہ ٹریفک کے بارے میں سوچا کرتا تھا لیکن اس کے لیے ایک اور لکھاری کی ضرورت تھی۔ درویش نے ایک دو دفعہ کوشش بھی کی اور دو ادیب فرضی طور پر رابعہ بھی بن گئے اور چند خطوط کا تبادلہ بھی ہوا لیکن پھر وہ سلسلہ چند وجوہات کی وجہ سے منقطع ہو گیا۔

درویش کو بالکل اندازہ نہ تھا کہ اسے ایک دن سات سمندر پار ایک حقیقی رابعہ مل جائے گی اور اس کا ادبی خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا۔ درویش رابعہ سے ادبی ’سماجی اور نظریاتی تبادلہ خیال سے بہت خوش ہے اور اس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا۔ درویش رابعہ سے کبھی نہیں ملا لیکن پھر بھی اس سے ایک ادبی تعلق محسوس کرتا ہے۔ دوستی کی ایک تعریف یہ ہے کہ اس میں فریقین ایک دوسرے کی بہترین صفات کو اجاگر کرتے ہیں۔ آج کے دور میں کسی مشرقی مرد اور عورت کی تخلیقی دوستی نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ رابعہ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘

رابعہ الربا کی ’ہم سب‘ کے مدیر اعلیٰ وجاہت مسعود سے بھی دوستی ہے۔ جب رابعہ نے وجاہت کو بتایا کہ انہوں نے میرے ساتھ ادبی و نظریاتی خطوط کا تبادلہ کیا ہے تو وجاہت نے ان خطوط کو چھاپنے کا مشورہ دیا۔ اس طرح کئی مہینوں تک ہمارے خطوط باقاعدگی سے ’ہم سب‘ پر چھپتے رہے اور بہت مقبول ہوئے۔

اسی دوران رابعہ نے میرا تعارف نعیم اشرف سے کروایا جو ایک ادب دوست انجینئر ہیں۔ وہ افسانے بھی لکھتے ہیں اور تراجم بھی کرتے ہیں۔ جب مجھے پتہ چلا کہ انہوں نے

THE FORTY RULES OF LOVE BY ELIF SHAFAK
کا اردو میں اور اردو کے سو افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہے تو

میں نے نعیم اشرف کو مشورہ دیا کہ وہ درویشوں کے ڈیرے کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔ وہ مان گئے اور ان کا ترجمہ

DARVESH ’S INN
کے نام سے چھپا۔ یہ خطوط کی دوسری کتاب تھی۔

درویشوں کے ڈیرے کے چھپنے کے بعد بہت سے ادیبوں کے ساتھ خطوط کا تبادلہ ہوا۔ کسی کے ساتھ دو خط کسی کے ساتھ چار اور کسی کے ساتھ چالیس۔ وہ سب خطوط ایک تیسری کتاب میں چھپے جس کا نام میں نے

۔ ادبی محبت نامے۔ رکھا گیا۔

نعیم اشرف کے ساتھ دوستی بڑھی اور مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا تو ہمارا عالمی ادب کے مشہور ناولوں کے حوالے سے انگریزی میں خطوط کا تبادلہ ہوا۔ اور

LITERARY LOVE LETTERS
کے نام سے چھپا یہ ہماری چوتھی کتاب تھی۔

اسی دوران میری ملاقات ایک ماہر نفسیات سے ہوئی جن کا نام کامران احمد ہے۔ کامران احمد نے اقوام متحدہ کے ساتھ کئی سال اور دنیا کے کئی ممالک میں کام کیا ہے۔ انہیں اپنے ایک پاکستانی سیمینار میں ایک ایسا نوجوان ملا جو ایک زمانے میں شدت پسند اور بنیاد پرست مسلمان تھا اور پھر وہ ایک امن پسند انسان دوست بن گیا۔ جب اس نے کامران کو بتایا کہ تشدد سے امن کے سفر میں کینیڈا کے ڈاکٹر خالد سہیل نے اس کی رہنمائی اور مدد کی ہے تو کامران احمد نے اسے بتایا کہ میں بھی ہجرت کر کے کینیڈا جا رہا ہوں۔

اس نوجوان نے کامران احمد کو مشورہ دیا کہ وہ مجھ سے ملیں۔ ہماری ملاقات ہوئی تو میں نے مشورہ دیا کہ ہم امن اور روحانیات کے حوالے سے خطوط کا تبادلہ کریں۔ کامران احمد نے کہا کہ انہوں نے علمی و تحقیقی مقالے تو بہت سے لکھے ہیں لیکن خطوط نویسی نہیں کی۔ میں نے کہا کوشش کر کے دیکھیں۔ کامران نے خطوط لکھنے شروع کیے تو خیالات و جذبات کا دریا بہنے لگا اور ہم نے تین ماہ میں

TWO CANDLES OF PEACE
کے نام سے کتاب مکمل کر لی۔ یہ میری خطوط نویسی کی پانچویں کتاب تھی۔

جب کامران احمد اور میں اپنے کزن نوروز عارف اور ان کی بیگم چندا سے ملنے مونٹریال گئے تو نوروز عارف مجھ سے ملوانے ایک نوجوان آرٹسٹ کو لے کر آئے جن کا نام نوال واجد تھا۔ واپس امریکہ جانے کے بعد نوال سے بھی ان کے تخلیقی ’نفسیاتی اور خاندانی مسائل کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا اور ایک کتاب مرتب ہوئی جس کا نام نوال نے

UNCAGED

رکھا۔ اس کتاب کا کور ان کی اس پینٹنگ سے بنایا گیا جو انہوں نے مجھے پہلی ملاقات کے وقت تحفے کے طور پر دی تھی۔

یہ میری اس سلسلے کی چھٹی کتاب تھی۔

نوال کے بعد ایک اور نوجوان خاتون سے خط و کتابت ہوئی جن کا نام مقدس مجید ہے۔ مقدس مجید لاہور کی یونیورسٹی میں نفسیات اور سماجیات کی طالبہ تھیں اور میرے کالم اور کتابیں شوق سے پڑھتی تھیں۔ وہ میرے ساتھ پاکستانی نوجوانوں کے مسائل کے حوالے سے تبادلہ خیال کرنا چاہتی تھیں۔ ہمارے مشترکہ خطوط کے مجموعے کا نام۔

۔ نئے خواب نیا نصاب۔

رکھا گیا۔ وہ کتاب پاکستان سے چھپی اور مقبول ہوئی۔ یہ میری ساتویں کتاب تھی۔ اس کتاب کا نام میری نوجوانوں کے بارے میں ایک غزل سے لیا گیا جس کے دو اشعار حاضر ہیں

نئی کتاب مدلل جواب چاہیں گے
ہمارے بچے نیا اب نصاب چاہیں گے
حساب مانگیں گے اک دن وہ لمحے لمحے کا
ہمارے عہد کا وہ احتساب چاہیں گے

اسی دوران میری اپنی ایک مریضہ کے ساتھ خط و کتابت ہوئی جن کے ساتھ بچپن میں بہت سی جسمانی ’ذہنی اور جنسی زیادتیاں ہوئی تھیں اور کئی برسوں کی تھراپی کے بعد وہ صحتمند ہوئی تھیں۔ اس کتاب کا نام

SHARING THE SECRET
رکھا جو میری ساتویں کتاب تھی۔
اس کتاب کا اردو مین ترجمہ مقدس مجید نے کیا اور اسے
راز پر لب کشائی
کے نام سے پاکستان سے چھپوایا۔ یہ میری آٹھویں کتاب تھی۔

اب تک جو خطوط کی کتابیں تھیں ان میں مختلف موضوعات پر سنجیدہ مکالمہ ہوا تھا۔ مرزا یاسین بیگ نے مشورہ دیا کہ ہم مل کر ایک ایسا ناول لکھیں جو خطوط پر مشتمل ہے اور وہ عورت بن کر خط لکھیں۔ میں نے ان کا مشورہ قبول کیا اور مرزا یاسین بیگ کے ساتھ مل کر ایک ناول

۔ پاپی۔
لکھا۔ وہ ناول بھی بہت مقبول ہوا۔ یہ میری نویں کتاب تھی۔

اسی دوران میری ملاقات کئی دہائیوں بعد اپنے دوست سہیل زبیری سے ہوئی۔ ہم اپنے بچپن میں پشاور کی گلیوں اور بازاروں میں سیر کرتے تھے اور سائنس ’ادب‘ فلسفہ ’مذہب اور نفسیات پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ پھر زندگی کی مختلف مصروفیات کی وجہ سے ہم جدا ہو گئے۔ وہ سائنسدان بن گئے اور میں ماہر نفسیات۔ ہم دوبارہ ملے تو مکالمہ وہیں سے شروع ہوا جہاں ہم نے نصف صدی پہلے چھوڑا تھا۔ اس مکالمے سے ہم نے مل کر دو کتابیں لکھیں

RELIGION, SCIENCE AND PSYCHOLOGY VOL 1AND 2
یہ میری اس سلسلے کی دسویں اور گیارہویں کتابیں تھیں۔
حال ہی میں نعیم اشرف نے پہلی جلد کا اردو میں ترجمہ بھی کیا اور اس کتاب کا نام۔
مذہب ’سائنس اور نفسیات۔
۔ رکھا ہے۔ جو خطوط کے سلسلے کی بارہویں کتاب ہے۔ اس کتاب کے چند ابواب ’ہم سب‘ پر بھی چھپ چکے ہیں۔

چند سال پیشتر میری ملاقات بنگلہ دیش کی ایک انسان دوست ٹیچر ٹانیا ایکون سے ہوئی۔ وہ بھی ایک روایتی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئیں اور بعد میں انسان دوست دہریہ بن گئیں۔ انہوں نے مجھے اپنے ٹورانٹو کے انسان دوست گروپ

OASIS

میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے بلایا اور ہم دونوں کا سنجیدہ مکالمہ شروع ہوا جو خطوط کے تبادلے پر منتج ہوا۔ اور ہم نے مل کر ایک کتاب ان نوجوانوں کے لیے لکھی جو روایتی مذہب کی شاہراہ چھوڑ کر اپنے من کی پگڈنڈی ہر چل نکلتے ہیں۔ اس کتاب میں ہم دونوں نے انہیں بتایا ہے کہ اس راستے میں کیا دشواریاں اور کیسی آزمائشیں پیش آ سکتی ہیں۔ ہم نے کتاب کا نام

BECOMING A HUMANIST
رکھا ہے جو عنقریب چھپ کر ایمیزون پر آنے والی ہے۔ یہ میری خطوط نویسی کی تیرہویں کتاب ہوگی۔

دوسرے ادیبوں کے ساتھ مل کر خطوط کا تبادلہ کرنا ایک نہایت ہی دلچسپ تجربہ رہا۔ بہت سے ادیبوں کے لیے یہ حیرانی کی بات ہے کہ بہت سے ہم عصر ادیبوں کے ساتھ یہ ادبی دوستی کا تجربہ ایک ایسے دور میں کیسے ممکن ہوا جب بہت سے ادیب ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے شکایتیں کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ احساس کمتری اور حسد کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔

جب کہ میں اپنی نانی اماں کے مشورے پر عمل کرتا ہوں کہ
ایک اور ایک دو نہیں گیارہ ہوتے ہیں

میرے ادیب دوست میری فیمیلی آف دی ہارٹ کا حصہ ہیں اور ہم سب ایک دوسرے کی خوشی سے خوش ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ادبی خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مدد کرتے ہیں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments