کمزور کی قوت


انتساب:
1948 میں فلسطینیوں کے جبری انخلاء کی یاد میں منائے جانے والے
دن النکبۃ ( 15 میئ) کے نام
ایک تپتے میدان کی واردات جہاں کچھ بھی نہیں تھا سوائے اڑتی ہوئی ریت کے۔

ایک طرف بھاری بھرکم فولادی ہاتھی کی مانند ہیئت اور دوسری طرف ایک اتنی چھوٹی ہستی جسے دور سے کیا نزدیک سے بھی گزرنے والا نظر انداز کر دے۔

’میری طرف دیکھو۔ مجھے تم سے کچھ سوالات پوچھنے ہیں۔ تمہیں میری قوت کا اندازہ ہے، مجھے تو عام مشین گن بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ میں لوہے کا بنا ہوا ہوں لوہے کا۔ پتا ہے نا تمہیں! ‘

دوسری طرف خاموشی رہی۔
’میں فولاد ہوں نرا فولاد! ‘
پھر خاموشی۔

’تم بول کیوں نہیں رہی۔ کیا تم گونگی ہو یا کیا تم بہری ہو! ہا ہا ہا۔ میرا خیال ہے تم عقل سے بھی پیدل ہو تب ہی تو مجھ سے لڑتی ہو۔ بتاؤ کیوں مجھ پہ پتھر پھینکتی ہو جبکہ تمہیں پتا ہے کہ یہ پتھر میرا بال بیکا بھی نہیں بگاڑ سکتے؟‘

وہ سامنے بیٹھی کچھ دیر کے لئے مسکراتی رہی۔ ’یہ میری مزاحمت ہے تمہاری جارحیت کے خلاف۔‘
’اوہ۔ اب سمجھ میں آیا کہ تم ہزاروں سال پرانی تکنیک سے ہمیں ہرا دو گی!‘
’ہاں کیوں نہیں۔ بالکل ممکن ہے۔ ‘

اس نے ایک قہقہہ لگایا تو دور ریگستان میں کھڑی ایک اکلوتی عمارت کی دیواریں ہل گئیں۔ ’تمہاری مسکراہٹ کے پیچھے مجھے یاسیت کے آثار نظر آتے ہیں۔ ‘

’تمہیں مجھ میں مایوسی اس لیے نظر آتی ہے کہ تم خود اس کا شکار ہو۔‘

’تمہیں نظر نہیں آتا کہ ہم تمہارے گلی کوچوں میں کیسے دبدباتے پھرتے ہیں۔ کوئی گستاخی کرے تو اس کے مکان کو بلڈوزر سے ملیا میٹ کر دیتے ہیں اس کے مکینوں کو کئی سالوں کے لئے جیل میں ڈال دیتے ہیں، پورے علاقے کی ناکہ بندی کر دیتے ہیں۔ یہ سب ہمارے اختیار میں ہے اور زمین پر کوئی طاقت ہمیں یہ کارروائیاں کرنے سے روک نہیں سکتی۔ سپر پاور بھی ہمارے شکنجے میں ہے۔ ہم تو کب سے جیت چکے ہیں لیکن تم اور تمہارے جیسوں کو سمجھ کیوں نہیں آتا۔‘

’اگر تم اتنے ہی طاقتور ہو تو ذرا سی بات پہ بلک کیوں پڑتے ہو؟ ہم جیت یا ہار سے بے نیاز ہیں۔ ‘
سامنے والے کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی۔

اس چھوٹی سی ہستی نے پوری طاقت سے چیخا۔ ’تم دراصل ہار چکے ہو۔ تم نے ہمارے لگوں کو قتل کیا، گھروں سے بے دخل کیا، ہمیں جیلوں میں بھر دیا لیکن پھر بھی ہم نے تمہاری جیت نہیں مانی۔‘

دیو ہیکل ہستی نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگایا تو وہ چھوٹی شے آہستہ سے بولی۔

’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ تم طاقتور ہو۔ تم ہیبت ناک ہو۔ تم ہر شے کو کچل سکتے ہو، کسی بھی انسان کو پیس سکتے ہو۔ مکانوں کو ایک سیکنڈ میں ملبے کا ڈھیر بنا سکتے ہو، پھر تم میرے ایک چھوٹے سے پتھر سے کیوں گھبراتے ہو جو تمہارے جسم پہ خراش تک نہیں ڈال سکتا۔ ہے تمہارے پاس جواب اس کا!‘

وہ دیو قامت دھاڑا۔ ’اس لئے کہ تمہیں یہ ہمت کیسے ہوتی ہے کہ تم میری طرف پتھر پھینکو۔‘

’بس تمہیں اپنے سوال کا جواب مل گیا۔ تم کتنی دہائیوں سے ہماری جان اور مال سے کھیل رہے ہو لیکن ہم نے کبھی تمہاری بالا دستی کو قبول نہیں کیا اور یہی تم سے برداشت نہیں ہوتا۔ تم ہمیں قتل کرو، ہمارے مکانوں پہ قبضہ کرو، ہمارے آمدنی کے ذرائع بند کرو، ہمارے زیتون کے درختوں کو آگ لگاؤ، ہماری زمینوں کو زہر سے نا کارہ کرو۔ ہمارے لئے جینا ایک سزا بنا دو مگر، مگر تم ہمارے عزم اور جدوجہد کو کبھی ختم نہیں کر پاؤ گے۔ اور سچ تو یہی ہے کہ یہ تم سے برداشت نہیں ہو پاتا۔ ‘

ٹینک غصے سے لال پیلا ہو گیا اور ایک قدم آگے بڑھا۔
ایک لمحے کے بعد غلیل ریزہ ریزہ ہو کر ریت میں تحلیل ہو چکی تھی۔
اس کی جگہ ایک اور غلیل سینہ تان کے کھڑی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments