غریبی اور امیری پر سوالات کے تناظر سے سوچ بچار


( نوٹ : اس ٹاپک کے بارے میں جو آپ سوچ رہے ہیں اس پر بالکل بھی ڈسکشن نہیں ہونے جا رہی)

کیا کبھی آپ نے اپنی زندگی کی مصروفیات میں سے کچھ پہر نکال کر دنیا میں اس پنپتی غربت کے بارے میں کبھی سوچا؟ کیا کبھی سوچا کہ کچھ لوگ کیوں غریب اور کچھ کیوں امیر ہوتے ہیں؟ کیوں غریب کے پاس کم وسائل اور امیر ضرورت سے زائد وسائل پہ کنٹرول رکھتے ہیں؟ کیا کبھی یہ سوچا کے خدا نے آپ کو گڈہ ناڑ جیسے پسماندہ علاقے میں پیدا کر کے آپ سے نا انصافی کی؟ یہاں پیدا کر کے اس بات کا کھلا اعلان کر دیا کہ اس شخص کی تقدیر مقدر میں غریب ہونا مختص کر دیا گیا ہے یا آپ کو امریکہ کے امیر گھرانے میں پیدا کر کے آپ سے انصاف کی ہے اور آپ کے لئے امیری لکھ دی ہے، کیا آپ غریبی امیری کو خدا کا پیدا کردہ سمجھتے ہیں؟

اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظام خدا کی طرف سے نہیں ہے یہ ہمارے معاشرے کی طرف سے ہے تو پھر سے سوالات اٹھتے ہیں کہ آیا کیوں ایک غریب اپنے آبائی گاؤں میں پیدا ہونے کے بعد وہیں ساری زندگی زمینوں کی رکھوالی کرتے کرتے مر جاتا ہے؟ کیوں ایک غریب پرورش پانے کے بعد اپنے لئے مزدوری زمینوں کی رکھوالی چنتا ہے؟ اور کیوں ایک امیر امیر ماحول میں پرورش پاکر اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہوتا ہے؟ کیوں ایک غریب کا بیٹا غریب اور ایک امیر کا بیٹا امیر بنتا ہے؟

کیا آپ کیپٹلزم ( سرمایہ دارانہ نظام) کو صحیح جانتے ہوئے یہ یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ معاشرہ ایک اوپن مارکیٹ ہے ہر عام و خاص کے لیے کھلی میدان ہے اس میدان میں سپلائی اور ڈیمانڈ کا قانون ہے کسی فرد کو کوئی مفاد دو گے تو ہی مفاد ملے گا اس کھلی میدان کی دوڑ کے مقابلے میں اہل لوگ امیر بنتے ہیں اور نااہل اپنی مقدر غربت کی طرف جاتے ہیں۔ اب اس پر بھی سوالات اور اعتراضات اٹھتی ہیں کہ اگر ایک شخص پیدا ہی غریب گھرانے میں ہو پیدا ہوتے ہی اس کے کام میں غریب کی اذان دی گئی اسے بتلایا گیا تمہارے پاس پھٹے پرانے کپڑے ہوں گے کیونکہ تم غریب ہو، تم نے دن میں ایک دفع روٹی کھانی ہے وہ بھی پیٹ بھر کے نہیں اور پھر امیروں کو دسترخوان پہ بیٹھے روٹی دوڑتے ڈکار مارتے دیکھنا ہے؟

ایسے شخص کے پاس کھلا میدان ہے؟ اگر کوئی شخص پیدائشی ہی معذور ہو کمزور ہو اس کے لئے کھلا میدان کہاں ہے؟ اگر آپ کے امیری کی معیار کی کسوٹی اچھا دیکھنا ہے تو پیدائشی اندھا کہاں جائے؟ اگر بولنا ہے تو پیدائشی بے زبان کہاں جائے؟ اگر تیز دوڑنا ہے تو کمزور بوڑھا کہاں جائے؟ اگر سوچنا ہے تو پیدائشی دماغی نقائص کا حامل شخص کہاں جائے؟

کیا آپ کو صلاحیتوں والی بات درست معلوم ہوتی ہے؟

آپ کی نظر میں ”صلاحیتوں“ سے کیا مراد ہے؟ کیا بہت زیادہ محنت لگن، ہمت، سارا سارا دن کام کاج غربت بھوک و افلاس میں گزری زندگی صلاحیت نہیں ہے؟ شاید میں بھول رہا ہوں آپ دماغی صلاحیتوں کی بات کر رہے ہیں علم کی بات کر رہے ہیں آپ کے نزدیک دماغی صلاحیتوں سے کیا مراد ہے؟ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں غریب کی دماغ کی ساخت اور امیر کے دماغ ساخت میں کوئی فرق ہوتا ہے؟ تو اور کیا ہے مطلب دماغی صلاحیتوں کا؟ ایک امیر جو سوچتا ہے کیا وہ غریب نہیں سوچ سکتا؟ کیا آپ کی نظر میں جو علم امیر کے پاس غریب کے پاس نہیں ہو سکتا ؟ جو کتابیں ایک امیر پڑھ سکتا ہے غریب نہیں پڑھ سکتا؟ کیا ایسا تو نہیں کہ غریب کو روزگار اور معاش کی مجبوری کی چکی میں اتنا مصروف کر دیا گیا کے اسے پڑھنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا؟ یا اس نے خود پڑھنے کی حامی نہیں بھری؟

یا آپ مارکسسٹ نظریے پہ یقین رکھتے ہوئے اس بات کو آگے رکھتے ہیں کہ کلاس سسٹم نے غریب کا مقدر غریب ہی چھوڑا ہے اس معاشرے میں گند غربت افلاس بھوک کلاس سسٹم نے پھیلایا ہے امیر لوگوں نے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے پیداوار کی سب ذرائع ان کے پاس ہیں اور غریب کے پاس اس معاشرے میں زندہ رہنے کے بدلے میں اپنی مزدوری کے علاوہ دینے کو کچھ نہیں ہے جو اسے لگاتا رہتا ہے اور اسی گردش میں رہتا ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ بعض اوقات ہم یہ دیکھتے ہیں کہ غریب امیر بن جاتے ہیں اگر امیروں نے ان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں تو انہوں نے اپنی برادری یعنی امیری میں آنے کی اجازت انہیں کیوں دے رکھی ہے؟

کیا آپ کو نہیں لگتا ہمارے اس سارے معاش میں بنیادی کردار ایک غریب کا ہوتا ہے وہ غریب جو صبح سے شام تک لگاتار اپنے کندھے پہ کدال رکھے کام ہی کام کر رہا ہوتا ہے۔ کیا اگر یہاں ایک امیرانہ ماحول سے سوشلائز ہوا شخص ہوتا تو دس منٹ کام کرنے سے دو زانوں پر پڑا ہانگ نہ رہا ہوتا؟ اگر آج سارے غریب یہ اعلان کر دیں کہ اب بہت ہوا ہم بہت تھک چکے اب ہم میں کام کرنے کی سکت نہیں رہی

تو کیا یہ امیر لوگ تھر کے بچوں کی طرح بھوک و افلاس سے نہیں مر رہے ہوں گے؟ اگر زمینی پیداوار بند ہو جائے تو کیا یہ کاغذ کے پیپر سونے جواہرات یہ محلات گاڑیاں امیروں کے پیٹ کو بھر سکیں گی؟

دنیا کے ایک فیصد امیر لوگ باقی 99 فیصد آبادی سے زیادہ دولت کیوں رکھتے ہیں؟ آخر یہ دوہرا معیار کس نے قائم کیا؟ آخر کیوں یہ ایک فیصد باقی 99 فیصد پر حاوی یعنی زیادہ وسائل رکھتے ہیں؟ کیوں ایک غریب بنیادی ضروریات سے ترس رہا ہے اور وہیں ایک امیر خواہشات کے آخری دہانے تک پہنچ چکا ہے؟

کیا آپ کی نظر میں وسائل کم ہیں اس کو مدنظر رکھتے ہوئے کائنات کا یہ نظام ایک نا دکھنے والی طاقت سے چل رہی ہے جس سے معاشرے میں سپلائی اور ڈیمانڈ کا نظام برابری سے قائم ہے؟

یا معاشرے میں بچپن کے پرچیوں والا کھیل ”بادشاہ وزیر“ جیسا ایک نظام بنا ہوا ہے؟ پرچی میں جو نام آیا وہ آپ کی مقدر؟ اس تناظر سے کچھ کے حصے میں بہت غریبی، غریبی پھر اس سے چلتے چلتے کچھ کے حصے میں امیری اور بہت امیری ہوتی ہے؟ کچھ لوگوں کو بھوکا رکھ کر کچھ لوگوں کا پیٹ پالا جا رہا ہے؟ کیا آپ کی نظر میں وہ لوگ جو ہیں وہ ایک خاص چنے ہوئے لوگ ہیں؟ کیوں چنے گئے ہیں؟ کیا معیار ہے؟

کیا آپ کے نزدیک کلاس سسٹم ختم ہونا چاہیے اور برابری کا اصول نافذ ہونا چاہیے؟ تو آپ کے یہ زمینوں میں تپتی ہوئی سورج کی روشنی میں کام کون کرے گا؟ کون آپ کے گلی محلوں کے کچرے نالے اور گٹر صاف کرے گا؟ کون آپ کے گھر بنائے گا؟ کون اپنے کندھوں پہ سیمنٹ بجری اٹھائے گا؟ یہاں ”برابری“ کے اصول سے مراد کیا ہے؟

کیا آپ کو یہ نہیں لگتا ہے آپ کو امیری غریبی یعنی وسائل بانٹنے کی نا انصافی کا معیار سب سے پہلے اپنے فیملی میں ختم کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا آپ کو اندازہ نہیں ہوا جب آپ بچے کا رول پلے کر رہے تھے یا اب جوان کا رول پلے کر رہے ہیں تو ماں باپ کی اہمیت زیادہ ہے کیا آپ نے بغور کیا کہ کیوں زیادہ ہے؟ کیوں وہ سارے وسائل رکھتے ہیں اور آپ کو سوچ سمجھ کر ضرورت کے مطابق وقتاً فوقتاً کچھ کچھ کر کے دیتے ہیں؟ پابندیاں ہی پابندیاں ہیں آپ پر؟

اگر باپ بیٹا برابر ہوجائیں تو کیا اس معاشرے کا نظام درہم برہم نہیں ہونے جا رہا ؟ کیا یہ آپ کو امیری غریبی کا درس نہیں دے رہا یا واضح پیغام نہیں دے رہا کہ غریبی امیری اس معاشرے کی بھلائی کے لیے اپنی اپنی کردار اور فنکشن پلے کر رہی ہیں؟ اوہو کردی ناں فنکشنلسٹس والی بات اس پر تو سوال ہی سوال اٹھتے ہیں پہلا سوال تو یہ ہے کہ یہاں معاشرے کی ”بھلائی“ سے کیا مراد ہے؟ کون سی بھلائی؟ بھلائی بذات خود کیا ہے؟ کیا چیز اس کو پرکھتی کہ آیا یہ چیز بھلا ہے؟ لوگ پرکھتے ہیں؟ کون سے لوگ امیر؟ غریب؟

او بھائی سوالات ہی سوالات اب بس بھی کرو

چلو اس نا ختم ہونے والی بحث کا اختتام ہم ان الفاظ سے کرتے ہیں اور ان کو ”انورٹڈ کوماز“ میں لکھتے ہیں تاکہ آپ کو لگے طارق نے شاید کچھ قیمتی الفاظ لکھے ہیں

” کوئی چیز صحیح نہیں ہے، کوئی غلط نہیں ہے انسان کی نفسیات اور جبلت میں تبدیلی ہی تبدیلی جو کہ معاشرے میں ہر وقت تبدیلی کا سبب بن رہی ہے اس لئے معاشرے میں کوئی چیز اٹل نہیں ہے ہم معاشرے کے ہر چیز کو مختلف نظریات مختلف اسکول آف تھاٹس سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے پھر سے مختلف آراء مختلف اختلافات مختلف سوالات جنم لیتی ہیں اور پھر سے وہی سوالات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments