سفید جھنڈا: رحم! مالکو رحم!


جارج سنتیانا نے کہا تھا کہ ”جو لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے وہ ہمیشہ اسے دہرانے کے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں“

جبکہ ہم بحیثیت قوم اپنی تاریخی غلطیاں دہرانے بلکہ سہ رانے اور چوہرانے کی عادت بد میں مبتلا چلے آ رہے ہیں۔ شاید یہ ہماری ڈھٹائی پر مبنی سرشت بن چکی ہے کہ ہم تاریخ سے کوئی بھی منفی یا مثبت سبق سیکھنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوئے۔

یقیناً مجھے محب الوطنی کے کسی سرٹیفکیٹ کی قطعاً کبھی ضرورت پیش نہیں آئی کہ میں ایک عام متوسط درجے کا پاکستانی ہوں اور باوجود کافی حد تک فوج سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے ان کی عزت و احترام کرتا ہوں اور یقیناً ہر پاکستانی کو اپنی طرح محب وطن سمجھتا ہوں۔

پی ٹی آئی کے قیام کے روز اول سے ہی اس سے شدید فکری و نظریاتی اختلاف کا حامل رہا ہوں اور ہمیشہ ہر ہر دستیاب فورم پر اس کا برملا اظہار کرتا آیا ہوں۔ اس اختلاف میں دو طرفہ شدت 2018 کے بعد تب پیدا ہوئی جب اسٹیبلشمنٹ نے پندرہ، بیس سالہ اسلامی صدارتی نظام کے غلغلے اور منصوبے کے پیش نظر خود ساختہ مہاتما کو ہمہ قسم جائز و ناجائز حربوں کے ذریعے ہم پر مسلط کر دیا۔

اب اس مہاتما کے عاق نامے کے بعد گزشتہ ایک سال سے اس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہمہ قسم شدت پسندانہ اشتعال انگیزی پر مبنی جو طوفان بدتمیزی بپا کیے رکھا اس نے ایک طرف تو اپنے ساخت کنندگان کا ناطقہ بند کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور دوسری طرف بزعم خود ماورائے قانون مہاتما بننے کے لئے اپنے عمومی نفسیات کا شکار اور اوسط سے بھی کم ذہنی سطح کے حامل سیاسی ورکرز کو بطور ڈھال استعمال کرنا شروع کر دیا۔

ادھر ہتھوڑا گروپ کی معاونت سے اس کو مزید مہمیز مہیا کیا گیا اور نتیجتاً اس ساری انتشاری صورتحال کا منطقی انجام سانحہ 9 مئی کی صورت میں سامنے آیا۔

اس سارے قضیے میں سب سے پہلے واحد ذمہ دار عمران خان ہے اور ثانیاً اس کے جملہ سیاسی حواری ہیں جو اس انتشاری ترغیب اور متشدد اکساؤ کو عوامی سطح میں پھیلاؤ کے مرتکب ہیں۔ ثالثاً ادارے کو اپنی منجی تھلے بھی بھرپور انداز سے ڈانگ پھیرنی چاہیے جہاں کچھ محدود عناصر ادارے کی مجموعی موجودہ پالیسی سے قطع نظر عمرانی کلٹ کے سہولت کار رہے۔ عوام تو یقین کیجئے عمومی نفسیات کے زیر اثر بھیڑ چال کا شکار ہو ہی جاتے ہیں۔

آپ دیکھ لیجیے کہ اپنے اپنے دور میں ایم کیو ایم، سپاہ صحابہ، تحریک منہاج القرآن، جمیعت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، تحریک لبیک، ٹی ٹی پی وغیرہم  نے بھی کلٹ پیدا کیے اور بعض کے کسی حد تک اب بھی موجود ہیں۔

نوے کی دہائی کے جہادی دور میں بیسیوں جہادی تنظیمیں کھمبیوں کی طرح اگ آئی تھیں اور ان کی حیثیت بھی کلٹ ہی کی تھی۔ جہادی تنظیموں کے باہمی خون ریز مناقشے بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ان سب کے ساتھ بھی عوام ہی تو تھی کہ عوام کا کیا ہے اپنی اپنی ذہنی سطح کے مطابق کسی نہ کسی کو مسیحا مان کر اس کے پیچھے چل ہی پڑتے ہیں۔ یاد رہے مذکورہ بالا ان تنظیموں کی ساخت میں کسی نہ کسی حد تک ادارہ کی معاونت یا یوں سمجھئے بصورت چشم پوشی حمایت موجود رہی ہے۔

اب یہاں الطاف حسین صاحب کو ہی دیکھ اور سن لیں۔ کم از کم میں تو تمام عمر حیران ہی رہا ہوں کہ اس جیسے بندے کی بھی آج تلک فین فالونگ موجود ہے اور لوگ اسے اب بھی مسیحا ماننے سے قطعی نہیں ہچکچاتے۔ یا حیرت یا للعجب۔ اور کہہ بھی کیا سکتا ہوں۔

بلا شبہ سانحہ 9 مئی کے تلخ و ناگوار واقعات کے اصل ذمہ داروں کا تعین ہونا چاہیے نہ کہ معاشی، معاشرتی ہمہ طور پسے ہوئے عوام کو ہدف بنایا جائے۔ میرے ارد گرد اس وقت خوف کی فضا ہے۔ لوگ بہت ڈرے اور سہمے ہوئے ہیں۔ گھر چھوڑ کر بھاگے ہوئے ہیں۔ ان کے روزگار، تعلیم اور دیگر معاشرتی معاملات میں تعطل اور شدید ہرج آ رہا ہے۔

گناہگار اور بے گناہ کی تفریق کے بغیر گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ یہ جو لسٹیں بن رہی ہیں سیاسی مخالفین کے اپنی ذاتی انا کے پیش نظر سرکاری اہلکاروں کو بے ضرر قسم کے سیاسی ورکرز کے نام لکھوانے کے خدشات بھی موجود ہیں۔

ضدی مہاتما کی ہٹ دھرمی کی سزا عوام کو مل رہی ہے۔ نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ پکڑے جانے والے افراد اپنے سیاسی مخالفین پر مخبری کے شبہات کا اظہار کر رہے ہیں جس سے عوام کے درمیان پہلے سے موجود پولرائزیشن میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے۔ وکلاء کہہ رہے ہیں کہ ان معاملات میں ضمانت قبل از گرفتاری کے امکانات معدوم ہیں۔ یقیناً عوام کو اپنے قانونی تحفظ کا حق حاصل ہے لہذا کوئی تو رستہ دیجئے کہ عوام عدالتوں میں اپنی بے گناہی ثابت کر سکیں۔ کچھ تو ”شک کا فائدہ“ عوام کو بھی دیجئے کہ کیا قانون کی اس شق کے جملہ حقوق فقط سیاسی اشرافیہ کو ہی حاصل ہیں؟

رحم کیجئے جناب رحم کی درخواست ہے۔ عوام ( گمراہ شدگان ) کو معاف کر دیجئے۔ انہیں ورغلانے اور اکسانے والوں کے خلاف جو مرضی کارروائی کیجئے۔ ھم عوام کو تو اپنی معاش اور معاشرت کے مسائل سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ہم کیا سیاست کریں گے؟ ھم تو سیاستدانوں کے لئے فقط ایک اوزار یا ٹشو پیپر کا کام دیتے ہیں۔

ھم سیاستدانوں اور ہمہ قسمی اشرافیہ کے ساتھ ایک سیلفی پر، ایک توصیفی فقرے پر یا نالی، گلی، سولنگ، بجلی کے کھمبے، گیس کے میٹر، کسی سفارشی رقعے، درجہ چہارم کی نوکری کے جھوٹے سچے وعدے پر بک جانے والی عوام ہیں جو خود کو سیاسی ورکر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہیں۔ بس یہی ہماری کل اوقات ہے۔ ہماری اور ریاست کی دشمنی تو بنتی ہی نہیں ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ہم حصول اقتدار کی کسی قسم کی جنگ اور محلاتی سازشوں کے کبھی بھی بینیفشری نہیں رہے۔ بلکہ ہمیشہ کبھی بہ حیلۂ مذہب اور کبھی بنام وطن بطور پیادہ قربان ہوتے آئے ہیں، مارے جاتے رہے ہیں۔

میں اس تحریر کے ذریعے اپنی مخالف سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے سیاسی ورکرز سے اس معاملے میں اظہار یکجہتی کرتا ہوں کہ انہیں قانونی تحفظ بہم پہنچانے کا ہر ممکن قانونی طریقۂ کار وضع کیا جائے۔ اگر کوئی اپنی بے گناہی کا بیان حلفی جمع کراتا ہے تو اسے قبول کیا جائے۔ نچلی پرت کے کارکنان میں سے اگر کوئی گلٹی پایا بھی جائے تو اس سے معافی نامہ قبول کیا جائے کہ سرائیکی کا ایک محاورہ ہے کہ ”چوراں کوں نا، چوراں دی نانی کوں مارو“

ہر طبقہ فکر کے عوام سے اپیل ہے کہ بلا کسی بھی قسم کی تفریق اپنے گھر کی چھتوں پر سفید پرچم، کپڑا آویزاں کر دیجئے۔ کہ ہم امن چاہتے ہیں اور بحیثیت پاکستانی قوم اس سانحے اور دنیا بھر میں قومی وقار کی بے عزتی کے دلخراش واقعے پر متاسف اور ملول ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس سانحے کی  حقیقی ذمہ دار اشرافیہ کی بالائی پرت ( گمراہ کنندگان) کو قرار واقعی سزا دی جائے۔

طبقاتی تفریق کے تناظر میں تاریخ میں ہمیشہ نچلے طبقات ہی رگڑے میں آتے رہے ہیں اور تاریخ ہمیشہ خود کو دہراتی آئی ہے۔ نچلے طبقات میں پیدا ہونے والی نفرت نے بڑی بڑی نامور سلطنتوں کے تختے الٹے ہیں یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس مرتبہ ہمیں تلخ اور منفی تاریخ کو دہرانے کے جرم سے بچنے کی ہر ممکن سعی کی از حد ضرورت ہے وگرنہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ضرور ہے خواہ اس کا رخ مثبت ہو یا منفی، طبقات کی بالائی پرت بھاری پڑے یا نچلی، کون جانتا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments