بد زبان بوڑھیاں


کیا آپ کے گھر میں، گلی محلے میں ایسی بزرگ خواتین موجود ہیں جو ہر وقت بے جا روک ٹوک کرتی ہیں یا ہر وقت طعنے، کوسنے، گالیاں دیتی ہیں؟

کیا آپ کے خاندان میں بھی ڈھلتی عمر کی ایسی عورتیں موجود ہیں جو ہر وقت شکوے شکایتیں کرتی ہوئی نظر آتی ہیں یا ہر گھڑی نئے سے نیا مرض ایجاد کر کے اپنے آپ کو لاچار و بیمار ثابت کرتی رہتی ہیں؟ کیا آپ کے اردگرد بھی ایسی بوڑھی خواتین موجود ہیں جو ہر وقت ہر کسی کی ٹوہ میں رہتی ہیں اور کسی کے متعلق بڑی آسانی سے کچھ بھی فرض کر لیتی ہیں؟

یقیناً آپ سب نے ضرور ایسی خواتین دیکھی ہوں گی یا ان کے اس ابنارمل رویے کا شکار ہوئے ہوں گے۔ عموماً ایسی خواتین ہر چھوٹی بڑی محفل میں اپنی حاضری کو یقینی بنائے رکھتی ہیں جبھی وہ ہر منظر پہ نمایاں رہتی ہیں۔ لیکن ہر جگہ موجود ہونے کے باوجود آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ لوگ ان کو زیادہ پسند نہیں کرتے۔ خاص طور پہ بچے یا نوجوان ان سے دور بھاگتے ہیں اور ان سے سلام دعا کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتے۔ ان کی بے جا تنقید اور شکایتوں سے بچنے کے لیے لوگ ان کے پاس زیادہ دیر نہیں بیٹھتے۔ ان کے پاس بات کرنے کے مخصوص موضوعات ہوتے ہیں۔ مثلاً خاندان میں فلاں کی فلاں سے بول چال بند ہے، فلاں کے بچے بہت بدتمیز ہیں، فلاں کی بیٹی کا فلاں کے بیٹے کے ساتھ چکر چل رہا ہے، فلاں نے بیوی کو مارا ہے، فلاں کا شوہر غیر عورتوں میں دلچسپی لیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

کچھ نانیاں دادیاں ہر وقت پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو جھڑکتی رہیں گی، بچے بات نہ مانیں گے تو رونے لگیں گی، بد دعائیں دیتی رہیں گی، بہو اور بیٹے کو کوسنے دیتی رہیں گی یا پھر ہر آئے گئے کے سامنے ان کی شکایتیں کریں گی۔

ہم سب زندگی میں کبھی نہ کبھی ان کے ایسے رویے کا شکار ضرور ہوئے ہوں گے اور دل کے کسی کونے میں ان بزرگوں کے لیے شکوہ یا گلہ ضرور رکھتے ہوں گے۔ ہم میں سے بہت سوں نے جواباً بدتمیزی بھی کی ہو گی، دل میں ان کو برا بھلا بھی کہا ہو گا اور والدین سے شکایت بھی کی ہو گی۔

لیکن ہم نے کبھی ان زہریلے یا تلخ رویوں کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی، ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ ماں کی طرح چاہنے والی نانی کس طرح کوسنے دے سکتی ہے یا پھر باپ کی ماں ہماری دشمن کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ جھریوں بھرے مشفق چہرے بددعا کیسے دے سکتے ہیں؟ عمر کے اس حصے میں تسبیح و تہلیل سے معطر زبانیں زہر کیسے اگل سکتی ہیں؟

ہم نے ہمیشہ ان کے لیے دل میں شکوے پالے ہیں لیکن دماغ میں سوچ اور ہمدردی نہیں۔ ہم نے کبھی نہیں سوچا کہ زہریلی زبانوں نے خود زندگی کا اور لوگوں کے کڑوے رویوں کا کتنا زہر چکھا ہو گا؟ ہم نے کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ ہمارے گھروں میں خاندان میں موجود یہ بوڑھے ناکارہ وجود زندگی کی دوڑ سے جب باہر ہوتے ہیں تو کیسا احساس درماندگی و شکستگی محسوس کرتے ہیں؟ بھرے بھرائے گھروں میں موجود ان بزرگوں کی اپنی زندگیاں کس قدر خالی اور ویران رہی ہوں گی، ہر وقت تنقید اور روک ٹوک کرنے والوں کی اپنی زندگی میں شاید تعریفی جملوں اور سراہتی نظروں کا شدید قحط رہا ہو گا۔

چند روز قبل ہماری نانی اماں کی سہیلی ہمارے گھر آئیں تو سنگھار میز پہ پڑی بچیوں کی چوڑیاں دیکھ کے بڑی حسرت سے کہنے لگیں کہ بچپن میں ہمارے والدین بڑے چاوٴ سے ہمارے سنگھار کا سامان خریدا کرتے تھے، پھر ہم بیاہ کے سسرال آ گئے اور اس کے بعد کبھی مہندی چوڑی کا اہتمام نہیں کیا، نہ ہی کبھی شوہر نے اس عیاشی کو ضروری سمجھا۔ سوچیئے کہ کتنی چھوٹی چھوٹی سی حسرتیں بھی ان کے دل کے کسی کونے میں آج تک دبی ہوئی ہیں۔

اسی طرح شادی کے ایک فنکشن میں نو بیاہتا جوڑا اک پلیٹ میں کھانا کھا رہا تھا اور وہاں بیٹھی اک اماں مسلسل استغفار پڑھ رہی تھیں، ازراہ تجسس پوچھ لیا کہ حضرت آپ نے کبھی اپنے شوہر کے ساتھ اک پلیٹ میں کھانا نہیں کھایا؟ تو کہنے لگیں کہ ایک پلیٹ میں کیا ہم نے تو آج تک ساتھ کھانا نہیں کھایا، ہمیشہ سب گھر والوں کے بعد کھانا کھاتے رہے۔ سوچئیے وہ خاتون تلخ کیونکر نہ ہوں گی؟

ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہر وقت ہماری ٹوہ لینے والوں کی اپنی زندگی شاید اشکبار رہی ہوگی، ہر خوشی کے موقعے کو رو دھو کے برباد کرنے والے یہ بزرگ شاید اپنی زندگی میں بھرپور خوشی کو محسوس کرنے سے قاصر رہے ہوں گے، شاید ان کو سستانے کا موقع نہیں ملا ہو گا۔

کچھ لمحے رکیے اور سوچیئے کہ یہ پیارے چہرے اور خوبصورت لوگ کس وجہ سے اتنے تلخ ہو گئے؟ عمر کے اس حصے میں جب یہ موت کی آہٹ اپنے آس پاس محسوس کر رہے ہیں تو یہ کس قدر خوف زدہ ہو سکتے ہیں، سارا دن جن کے کوئی مصروفیت نہیں ہے وہ کہانیاں نہیں بنائیں گے تو کیا کریں گے؟ جن کی راتیں رفتہ رفتہ نیند سے خالی ہوتی جا رہی ہیں وہ کیسی تنہائی اور وحشت محسوس کرتے ہوں گے؟

ہمیں سوچنا ہو گا کہ گھر کے بیکار سامان کی طرح گھر میں موجود یہ بزرگ کیسے بہلائے جا سکتے ہیں؟ ان کو کس طرح اہم ہونے کا احساس دلایا جا سکتا ہے؟ اہم ہونے کا احساس تو جانوروں کو بھی درکار ہے۔ بانو قدسیہ لکھتی ہیں کہ ایک بلی کو دودھ کے علاوہ اس یقین دہانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ کسی کے لیے اہم ہے۔

ہمیں بھی ان بزرگوں کو اہم ہونے کا احساس دلانا ہو گا جو ہماری آسانی کے لیے زندگی کی دوڑ میں سرپٹ بھاگتے رہے ہیں۔ ہمیں غیرمشروط محبت اور مسلسل توجہ سے ان کے تلخ رویوں کو نارمل کرنا ہو گا۔ ان کی ذہانت کی تعریف اور ان کی رائے کا احترام کرنا ہو گا تاکہ وہ موت سے پہلے زندگی کو قبر نہ بنا لیں۔ ہمیں ایسا کرنا ہو گا کیونکہ کل میں اور آپ بھی انہیں کیفیات سے گزرنے والے ہیں۔ یہ بیکار اور سست دن اور وحشت بھری جاگتی راتیں ہم پہ بھی آنے والی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments